صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
خیمۂ خواب
اسعدؔ بدایونی
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
غزلیں
جسے نہ میری اداسی کا کچھ خیال آیا
میں اس کے جملہ محاسن پہ خاک ڈال آیا
یہ عشق خوب رہا باوجود ملنے کے
نہ درمیان کبھی لمحۂ وصال آیا
اشارہ کرنے لگے ہیں بھنور کے ہاتھ ہمیں
خوشا کہ پھر دلِ دریا میں اشتعال آیا
مروتوں کے ثمر داغدار ہونے لگے
محبتوں کے شجر تجھ پہ کیا زوال آیا
حسین شکل کو دیکھا خدا کو یاد کیا
کسی گناہ کا دل میں کہاں خیال آیا
خدا بچائے تصوف گزیدہ لوگوں سے
کوئی جو شعر بھلا سن لیا تو حال آیا
٭٭٭
مہر و مہتاب صفت ناقہ سوار اچّھے تھے
قافلے ان کے بصد گرد و غبار اچھے تھے
ہاں کبھی خواب میں دیکھا تھا مری آنکھوں نے
اک گھر جس کے سبھی نقش و نگار اچھے تھے
شام ہوتی تھی تو اک حشر بپا ہوتا تھا
اِن جزیروں سے وہ پرشور دیار اچھے تھے
جب قریب آئے تو الجھن کا سبب بھی نکلے
جتنے چہرے تھے پسِ گرد و غبار اچھے تھے
اب تو جیسے کسی آشوب کا بستی ہے شکار
لوگ پہلے کے سبھی کوہ وقار اچھے تھے
بس تری شکل سے خالی تھے دریچے سارے
ویسے پردیس کے منظر مرے یار اچھے تھےا
***
ہر حقیقت پہ سرابوں کا گماں ہونے کو ہے
رفتہ رفتہ روشنی ساری دھواں ہونے کو ہے
میں بھی لوحِ وقت سے اک روز مٹ جانے کو ہوں
تیری مٹی بھی کسی دن رائیگاں ہونے کو ہے
پیش خیمہ ہے یہ سنّاٹا کسی طوفان کا !
پھر اسی جانب سمندر مہرباں ہونے کو ہے
ساحلوں سے پھر جدا ہونے کی ساعت آگئی
بادباں کھلنے کو ہیں کشتی رواں ہونے کو ہے
شام کے طائر قطار اندر قطار آنے لگے
تیرگی میں پھر ہر اک منظر نہاں ہونے کو ہے
٭٭٭