صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں


پراسرار خزانہ

 ڈاکٹر صابر علی ہاشمی

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

ابتدا


فرعون مصر طوتن خامن کے مقبرے کی دریافت کے باون سال بعد یہ انکشاف ہوا کہ اس کے نواح میں طوتن خامن کے ایک معتبر امیر راعوس کا مقبرہ بھی ریت کی تہوں میں دفن ہے۔ یہ انکشاف آثار قدیمہ کے ایک برطانوی ماہر پروفیسر ڈگلس نے کیا تھا۔ پروفیسر ڈگلس کی عمر اس وقت ساٹھ کے ہندسے سے تجاویز کر چکی تھی۔ اس کی زندگی کا بیشتر حصہ ماضی کے باقیات پر ریسرچ کرتے ہوئے گزرا تھا۔ اگرچہ وہ ذاتی طور پر زمین کے سینے میں دفن ماضی کا کوئی راز دریافت نہیں کر سکا تھا لیکن اس موضوع پر اس کی رائے کو خاصی اہمیت دی جاتی۔ خصوصاً مصریات پر تو اسے اتھارٹی سمجھا جاتا۔ قدیم تحریریں سمجھنے میں پوری دنیا میں اس کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ اس معاملے میں اس کی رائے کو حتمی سمجھا جاتا۔
طوتن خامن کے مقبرے سے کچھ ایسی چیزیں بھی برآمد ہوئی تھیں جن کے بارے میں ابھی تک کوئی رائے قائم نہیں کی جا سکی تھی اور نہ ہی کوئی نتیجہ اخذ کیا گیا تھا۔ پروفیسر ڈگلس طویل عرصہ سے اس سلسلے میں ریسرچ کر رہا تھا۔ بالاخر اٹھائیس سال تک طوتن خامن کے مقبرے اور برٹش میوزیم میں موجود مقبرے سے برآمد ہونے والی ان چیزوں کے مطالعہ کے بعد پروفیسر ڈگلس اس نتیجہ پر پہنچا تھا کہ اس مقبرے کے نواح میں طوتن خامن کے ایک معتمد امیر راعوسس کا مقبرہ بھی موجود ہے۔ یہ دونوں مقبرے ایک زیر زمین سرنگ کے ذریعے ایک دوسرے سے ملے ہوئے تھے۔ لیکن ان چیزوں کے مطالعہ سے پروفیسر کو یہ جان کر حیرت ہوئی تھی کہ ان دونوں مقبروں کے درمیان تقریباً ساٹھ میل کا فاصلہ حائل تھا۔ قدیم زمانے میں اس قدر طویل سرنگ کا تصور محال تھا لیکن حقائق سے چشم پوشی بھی نہیں برتی جا سکتی تھی۔ اگر سربفلک اہرام اور فراعنہ کے مقبروں کی مثالیں سامنے نہ ہوتیں تو شائد کوئی ان پر بھی یقین نہ کرتا۔
پروفیسر ڈگلس کو یقین تھا کہ اس کی تحقیقات غلط نہیں ہو سکتی۔ جب اس کی رپورٹ منظر عام پر آئی تو ایک طوفان سا اٹھ کھڑا ہوا۔ زندگی میں پہلی مرتبہ پروفیسر کی تحقیق سے اختلاف کیا گیا اور یہ اختلاف ان ماہرین کی طرف سے کیا گیا تھا جو خود بھی طویل عرصہ سے طوتن خامن کے مقبرے اور اس کے باقیات پر ریسرچ کر رہے تھے۔ لیکن پروفیسر نے ان اختلافات کی پرواہ کیے بغیر اپنی رپورٹ حکومت کو پیش کرتے ہوئے درخواست کی کہ اسے راعوسس کے مقبرے اور اس طویل سرنگ کی تلاش کی اجازت دی جائے جو دونوں مقبروں کے درمیان رابطے کا کام دیتی تھی۔
ماہرین کی شدید اختلاف رائے کے باعث برطانوی حکومت پروفیسر ڈگلس کو اجازت دینے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کر رہی تھی جس پر پروفیسر نے پیش کش کی کہ اگر اسے اجازت دیدی جائے تو اس مہم کے تمام اخراجات وہ خود برداشت کرے گا۔ اس پر بھی کچھ لوگوں نے اعتراض اٹھایا کہ زر مبادلہ تو حکومت ہی کا خرچ ہو گا لیکن کچھ درآمد کے بعد حکومت نے پروفیسر ڈگلس کی درخواست منظور کرتے ہوئے اسے اپنی تحقیقات جاری رکھنے کی اجازت دے دی۔
اجازت ملتے ہی پروفیسر ڈگلس نے ابتدائی تیاریاں شروع کر دیں۔ اس کی تحقیقات کے مطابق راموسس کا مقبرہ طوتن خامن کے مقبرے کے جنوب میں ہونا چاہیے تھا۔ نقشوں کی مدد سے پروفیسر نے اندازے کی بنا پر اس طویل سرنگ کے راستے کا تعین کیا طوتن خامن کے مقبرے سے تقریباً اڑتالیس میل کے فاصلے پر دریائے نیل اس راستے کو کاٹتا ہوا گزر گیا تھا۔ اب غور طلب بات یہ تھی کہ کیا صدیوں پہلے بھی دریا اسی جگہ بہہ رہا تھا یا وہ راستہ بدل کر موجود پٹی پر پہنچا تھا۔ تاریخ کے اوراق شاہد تھے کہ نیل بار بار اپنے راستے بدلتا رہا ہے اس لیے یہ امکان زیادہ قرین قیاس تھا کہ جب ان دونوں مقبروں کے درمیان وہ سرنگ تعمیر کی گئی تھی تو دریا وہاں موجود نہ ہو اور صدیوں کے رد عمل میں راستہ بدل کر اس جگہ پہنچا ہو۔ جس کا واضح مطلب یہ تھا کہ وہ سرنگ دریا کے نیچے سے گزر رہی تھی۔ پروفیسر ڈگلس نے ایک اور رخ پر بھی سوچا تھا کہ ممکن ہے دریا کے راستہ بدل لینے سے نمی کے باعث سرنگ کا اتنا حصہ دب چکا ہو یا بہہ گیا ہو۔ لیکن یہ خیال زیادہ قوی نہیں تھا۔ اگر ایسا ہوتا تو کبھی نہ کبھی سرنگ کا راز کھل جاتا لیکن آج تک ان اطراف میں کسی سرنگ کے بارے میں نہیں سنا گیا تھا جس کا مطلب یہی تھا کہ دریا کے نیچے وہ سرنگ اب بھی جوں کی توں موجود ہے۔
سب سے پہلے پروفیسر ڈگلس نے ان لوگوں سے رابطہ قائم کیا جو اس مہم میں اس کا ساتھ دے سکتے تھے۔ یہ سب کے سب آثار قدیمہ کے ماہرین تھے جن کا تعلق مختلف ممالک سے تھا اور اس سے پہلے بھی ایسی کئی مہمات پر پروفیسر کے ساتھ کام کر چکے تھے۔ ان میں سر فہرست پروفیسر وقار کا نام تھا۔
پروفیسر وقار کا تعلق پاکستان سے تھا۔ اپنے ملک میں اگرچہ اسے کوئی سرکاری حیثیت حاصل نہ تھی مگر آثار قدیمہ کے ان نوجوان ماہر کو حکومت کی نظروں میں بھی اہم مقام حاصل تھا۔ موہنجودڑو ،ہڑپہ اور ٹیکسلا کے آثار قدیمہ کے بارے میں اس کی کئی تحقیقاتی رپورٹیں اخبارات میں شائع ہو چکی تھیں۔ مصریات کے بارے میں بھی پروفیسر وقار کا مطالعہ وسیع تھا۔ برطانیہ کے پروفیسر ڈگلس سے اس کی ملاقات پاکستان میں موہنجودڑو کے موضوع پر ہونے والے سیمنار کے موقع پر ہوئی تھی۔ اس وقت دنیا بھر کے ماہرین پاکستان آئے ہوئے تھے۔ ماضی کے اس نشان کو سیم و تھور سے بچانے کے لیے مختلف تجویزیں پیش کی جا رہی تھیں۔ اس سیمنار میں پروفیسر وقار کی رپورٹ کو بھی خاصا سراہا گیا تھا۔ اس پہلی ملاقات پر پروفیسر ڈگلس نے اسے برطانیہ آنے کی دعوت دی۔ اس طرح پروفیسر وقار ،طوتن ،خامن کے مقبرے کی ریسرچ میں پروفیسر ڈگلس کے معاون کی حیثیت سے کام کرتا رہا اور اب جبکہ پروفیسر ڈگلس کو برطانوی حکومت سے تحقیقات جاری رکھنے کی اجازت مل گئی تھی تو اس نے دوسرے ماہرین کے علاوہ پروفیسر وقار کو بھی بلا بھیجا۔
تقریباً دو ماہ تک نقشوں پر کام ہوتا رہا اور جب کاغذ ی تیاریاں مکمل ہو گئیں تو یہ طے پایا تھا کہ ماہرین کو دو پارٹیوں میں تقسیم کر دیا جائے۔ ایک پارٹی پروفیسر ڈگلس کی نگرانی میں طوتن خامن کے مقبرے کے اندر جنوبی رخ پر سرنگ کی تلاش کا کام کرے گی اور دوسری پارٹی ساٹھ میل جنوب میں دریا کے دوسرے طرف پروفیسر وقار کے سربراہی میں راعوسس کے مقبرے کی تلاش کے لیے کھدائی کا کام کرے گی۔
یہ سب کچھ طے ہو جانے کے بعد وہ لوگ مصر پہنچ گئے۔ مصری حکومت سے کھدائی کی اجازت حاصل کرنے میں زیادہ دشواری پیش نہیں آئی۔ پروفیسر ڈگلس اپنی پارٹی کے ہمراہ طوتن خامن کے مقبرے کی طرف روانہ ہو گیا اور پروفیسر وقار نے دریا کے دوسری طرف مقررہ مقام پر کیمپ لگا دیا ۔
پروفیسر وقار کی ہدایت پر ایک وسیع علاقہ میں تین مختلف مقامات پر کھدائی کا کام شروع کر دیا گیا۔ لیکن دو جگہوں پر جلد ہی کھدائی بند کر دینی پڑی۔ تیسری جگہ البتہ کام جاری رہا۔
پروفیسر ڈگلس سے ان کا رابطہ قائم تھا۔ کام کا جائزہ لینے کے لیے پروفیسر ڈگلس بھی ہفتے میں ایک مرتبہ ان کے پاس آ جاتا۔ پروفیسر ڈگلس اپنے اس معاون کی کارکردگی سے خاصا مطمئن نظر آ رہا تھا۔ اسی دوران پروفیسر وقار ایک روز ایک ضروری کام کے سلسلے میں قاہرہ چلا گیا۔ قاہرہ کے ہوٹل شیفرڈ میں اپنے کمرے میں بیٹھا ناشتہ کے دوران اخبار کا مطالعہ کر رہا تھا کہ اندرونی صفحہ پر ایک چھوٹی سی خبر میں بھی خاصی کشش تھی۔ اے پی پی کے حوالے سے شائع ہونے والی ایک خبر میں بتایا گیا تھا کہ بلوچستان میں ایک چھوٹے سے قصبہ مستونگ کے قریب کھدائی کے دوران کچھ کھنڈرات دریافت ہوئے ہیں جن کے بارے میں شبہ ہے کہ ان کا تعلق صدیوں پرانی تہذیب سے ہے۔
اس مختصر سی خبر میں اگرچہ زیادہ تفصیل کا پتہ نہیں چل سکا لیکن پروفیسر وقار ناشتہ کرنا بھول گیا اس نے اسی روز پاکستان میں اپنے ایک دوست انوار راجہ کو خط لکھا کہ وہ پہلی فرصت میں بلوچستان جا کر اس سلسلے میں معلومات حاصل کر کے اسے آگاہ کرے۔ راجہ تاریخ کا اسکالر تھا۔ اسے آثار قدیمہ سے بھی بہت دلچسپی تھی لیکن صرف اس حد تک کہ پروفیسر وقار کے ساتھ بحث کر سکے۔ وہ پروفیسر وقار کے ساتھ ایک دو ایسی مہمات پر بھی کام کر چکا تھا۔ وہ فطرتاً حسن پرست اور لالچی انسان تھا۔ اپنی اسی فطرت کے ہاتھوں وہ کئی مرتبہ موت کے منہ میں جاتے جاتے بچا تھا۔
 لیکن ان واقعات سے اس نے کوئی سبق حاصل نہیں کیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی اس میں یہ خاصیت بھی تھی کہ اس نے پروفیسر کی کسی بات کو کبھی رد نہیں کیا تھا اس لیے پروفیسر کو یقین تھا کہ اس کا خط ملتے ہی راجہ بلوچستان روانہ ہو جائے گا۔
قاہرہ میں اپنا کام نمٹانے کے بعد پروفیسر وقار اپنے کیمپ میں پہنچ گیا۔ شام کا اندھیرا پھیل جانے کی وجہ سے کام بند ہو چکا تھا۔ اگلے روز جب کام دوبارہ شروع ہوا تو پروفیسر وقار یہ دیکھ کر مسکرا دیا کہ اس کے ماتحت خاصے تیز رفتار ثابت ہوئے تھے۔ اس کی غیر حاضری کے گزشتہ تین روز میں ریگزار کا ایک لمبا چوڑا حصہ کھدائی میں شامل ہو چکا تھا۔
اسی روز غروب آفتاب کے کچھ دیر بعد پروفیسر ڈگلس بھی پہنچ گیا۔ وقار کے خیمے میں بیٹھا وہ اس طرح گہری نظروں سے اس کے چہرے کا جائزہ لے رہا تھا۔ جیسے اسے پہلی بار دیکھ رہا ہو۔
’’کیا بات ہے پروفیسر! تم مجھے اس طرح گھور گھور کر کیوں دیکھ رہے ہو۔‘‘ پروفیسر وقار نے پوچھا
’’کوئی خاص بات نہیں۔ ویسے بائی دا وے تم نے کتنے عرصے سے اخبار نہیں دیکھا۔‘‘ پروفیسر ڈگلس نے اس کے چہرے سے نظریں ہٹائے بغیر کہا
’’اوہ! اب سمجھا۔‘‘ پروفیسر مسکرا دیا۔ ’’شاید تم اس خبر کے بارے میں میرے تاثرات جاننا چاہتے ہو۔ جو بلوچستان میں کھنڈرات کی دریافت کے بارے میں شائع ہوئی ہے۔‘‘
’’ہاں ،تم ٹھیک سمجھے۔ وہ خبر میں نے بھی پڑھی تھی اور اسی روز سے تمہارے ہی بارے میں سوچ رہا ہوں۔‘‘
’’کیوں۔ میرے بارے میں کیوں سوچ رہے ہو۔‘‘ پروفیسر وقار نے الجھی ہوئی نگاہوں سے اس کی طرف دیکھا
’’بات تمہارے ملک کی ہے۔ ظاہر ہے تمہارے دل میں یہ خواہش ضرور ہو گی کہ اپنے وطن پہنچ کر ان کھنڈرات کی تحقیقات میں حصہ لو۔‘‘
’’تمہارا خیال غلط نہیں ہے۔ پروفیسر! لیکن میری ایک عادت یہ بھی ہے کہ جب تک پہلا کام مکمل نہ کر لوں کسی دوسرے کام میں ہاتھ نہیں ڈالتا۔‘‘
وقار کے اس جواب پر پروفیسر ڈگلس کے چہرے پر طمانیت سی پھیل گئی۔ پیٹرومیکس کی روشنی میں اس کی آنکھیں چمک اٹھیں۔ وہ چند لمحے بھر پور نگاہوں سے وقار کے چہرے کا جائزہ لیتا رہا پھر پرسکون لہجے میں بولا
’’مجھے تمہارے خیالات جان کر خوشی ہوئی۔ لیکن اگر تم جانا بھی چاہو تو مجھے کوئی اعتراض نہ ہو گا‘‘
’’فی الحال واپسی کا میرا کوئی ارادہ نہیں۔‘‘ میں نے تفصیلات معلوم کرنے کے لیے پاکستان میں اپنے ایک دوست کو خط لکھ دیا ہے۔ اگر اس میں مجھے کوئی دلچسپی محسوس ہوئی تو اسے اگلے پروگرام کے طور پر ذہن میں رکھوں گا۔‘‘ پروفیسر وقار نے جواب دیا۔
اس کے بعد تقریباً دو گھنٹے تک وہ اپنے کام کی موجودہ صورت حال پر تبصرہ کر رہے تھے۔ پھر پروفیسر ڈگلس رخصت ہو گیا۔
کھدائی کا کام تین ماہ تک جاری رہا۔ وہ ایک وسیع رقبہ پر تقریباً سو فٹ کی گہرائی تک کھدائی کر چکے تھے۔ اس کھدائی کے دوران کچھ ایسی چیزیں برآمد ہوئی تھیں جو اگرچہ زیادہ اہم نہیں تھیں لیکن انہیں امید بندھ گئی کہ اگر وہ اسی جگہ کھدائی کرتے رہیں تو کامیابی سے ہمکنار ہو سکتے ہیں۔ لیکن چند روز کی مزید کھدائی کے بعد ایک بہت بڑی چٹان حائل ہو گئی۔ سینکڑوں فٹ لمبی چوڑی اس چٹان کو توڑنا آسان کام نہیں تھا۔ پروفیسر ڈگلس نے اس ہموار چٹان کے معائنہ کے بعد اس شبہ کا اظہار بھی کیا تھا کہ ممکن ہے یہ کوئی قدرتی چٹان نہ ہو بلکہ راعوسس کے مقبرے ہی کا ایک حصہ ہو جس کی تلاش میں وہ یہ یہ ساری جدوجہد کر رہے ہیں اس لیے چٹان کو توڑنے کی بجائے اس کے ساتھ ساتھ کھدائی کا کام جاری رکھا گیا۔ لیکن کوئی خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہ ہو سکا۔ وہ حقیقتاً کوئی چٹان ہی تھی جو زمین کی اتھاہ گہرائیوں تک چلی گئی تھی۔ اسی دوران وہ موسم شروع ہو گیا جس سے ریگزاروں کے باسی بھی خوفزدہ ہو کر پناہ کی تلاش میں نخلستانوں یا شہروں کا رخ کرتے ہیں۔ تیز ہوا کے جھکڑ رات ہی رات میں ریت کے ٹیلے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کر دیتے۔ بعض اوقات نخلستان بھی ریت کی تہوں سے دب کر نگاہوں سے اوجھل ہو جاتے۔

***

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول