صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں
خیال سو رہے تم ؟
فرحت عباس شاہ
طویل نظم
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
خیال سو رہے تم
خیال سو رہے تم
ذرا اٹھو
کہ دل سے اٹھنے والی ہوک
آنکھ کے دریچہ مکان تک پہنچ گئی
کہ جیسے چمنیوں کی کوکھ سے دھواں فضا کی وسعتوں کے درمیان تک
ملول سی صدا کوئی
اداس اور مضمحل ہوا کوئی
جہان برف پوش سے
تہہ نشیب آرزو رواں ہے ایک جوش سے
لہو کی گردشوں کی لہر لہر میں
چھپے ہوئے عذاب کسمسائے ہیں
سنپولیے کسی کمین گاہ میں مداخلت ہوئی تو کلبلائے ہیں
یہ خوف ہے
کہ گر کہیں کوئی خراش بہتے بہتے روح کو نکل گئی
تو اس میں سو طرح کے انتشار کا جواز ہے
جو راز ہے ہمارے دل کے صبر کا
ابھی سنبھالنا بھی ہے
ابھی تو ڈھالنا بھی ہے اسے پناہ میں
خیال سو رہے تم
اٹھو کہ صوت
بے زبانیوں کی قبر میں پڑی پکارتی ہے وہم سے
پکار کے دراز سائے اس قدر مہیب ہیں
کہ خوفناک رات بھی دبک گئی ہے سہم کے
اٹھو
کہ لفظ معنوی جمال سے تہی کھڑے غریب ہیں
عجیب ہیں
یہ بے حسی کے سال بھی
یہ بے کنار درد بھی یہ ان گنت ملال بھی
خیال سو رہے ہو تم
سوال ہیں کہ جاگتے کہیں نہیں
یا
کال ہیں کہ بھاگتے کہیں نہیں
خیال اپنے بادبان کیوں ڈبو رہے ہو تم
خیال سو رہے تم
٭٭٭٭٭٭٭٭