صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں
خیاباں
حنیف اخگر ملیح آبادی
ڈاؤن لوڈ کریں
حصہ اول
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
حصہ دوم
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
غزلیں
عشق میں دل کا یہ منظر دیکھا
آگ میں جیسے سمندر دیکھا
کھو گئے ہم تری آہٹ پاکر
یعنی آواز کو سن کر دیکھا
جس کو سن کر نہ یقیں آئے کبھی
فی زمانہ وہی اکثر دیکھا
نارسائیِ جنوں محکم ہے
ہم نے دیوار میں در کر دیکھا
دل پہ اک نقشِ کفِ پا ابھرا
ایک صحرا میں گلِ تر دیکھا
میں وہ مومن ہوں کہ جس نے پتھر
کبھی چوما کبھی چھو کر دیکھا
ڈوب جانے کا خیال آیا جہاں
وہیں پایاب سمندر دیکھا
بسکہ منسوب تھا اک نام کے ساتھ
مطمئن ہی دلِ اخگرؔ دیکھا
٭٭٭
اپنی نظروں کو بھی دیوار سمجھتا ہوگا
جو مسافر ترے کوچے سے گزرتا ہوگا
آج ٹھہرا ہے مرا حرفِ وفا قابلِ دار
کل تو ہی میری وفاؤں کو ترستا ہوگا
ضبط کا حد سے گزرنا بھی ہے اک سیلِ بلا
درد کیا ہوگا اگر حد سے گزرتا ہوگا
اس کی تعریف میں جب کوئی کہی جائے غزل
کچھ نہ کچھ رنگ قصیدے کا جھلکتا ہوگا
کشت ضبطِ فغاں نغمۂ بے ساز و صدا
اف وہ آنسو جو لہو بن کے ٹپکتا ہوگا
شعر بن کر مرے کاغذ پہ جو آیا ہے لہو
اشک بن کر ترے دامن سے الجھتا ہوگا
ہیں جو لرزاں مہ و انجم کی شعاعیں اخگرؔ
کوئی بے تاب فلک پر بھی تڑپتا ہوگا
٭٭٭
یادوں کا شہرِ دل میں چراغاں نہیں رہا
کیا کوئی غم ہی شعلہ بداماں نہیں رہا
اب اعترافِ عہدِ وفور کر رہے ہیں وہ
جب اعتبارِ عمرِ گریزاں نہیں رہا
نکلے کچھ اور آبلہ پائی کی اب سبیل
صحرا میں کوئی خارِ مغیلاں نہیں رہا
بخیہ گریِ دل کے تصوّر میں گُم ہوئے
گویا خیالِ جُنبشِ مژگاں نہیں رہا
یہ سوچ کر کہ خوگرِ غم ہو نہ جاؤں میں
وہ سرگراں ہوا ستم ارزاں نہیں رہا
آزارِ ہجر اپنی جگہ مستقل، مگر
دل مجھ سے تیرے قرب کا خواہاں نہیں رہا
یادِ خدا ہی کعبۂ دل میں بسائیے
اب ایک بُت بھی دشمنِ ایماں نہیں رہا
امکانِ وصلِ یار تو اخگرؔ کبھی نہ تھا
آزارِ ہَجرِ یار کا ارماں نہیں رہا
٭٭٭