صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں


ختم نبوت اور مسیح موعود

ابو الاعلیٰ مودودی


ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

 تمام علمائے اُمّت کا اجماع

      اجماع صحابہ کے بعد چوتھے نمبر پر مسائل دین میں جو چیز کو حجت کی حیثیت حاصل ہے وہ دور صحابہ کے بعد کے علمائے اُمت کا اجماع ہے۔ اس لحاظ سے جب ہم یہ دیکھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ پہلی صدی سے لے کر آج تک ہر زمانے کے ، اور پوری دنیائے اسلام میں ہر ملک کے علماء اس عقیدے پر متفق ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد کوئی شخص نبی نہیں ہو سکتا ، اور یہ کہ جو بھی آپؐ کے بعد اس منصب کا دعویٰ کرے ، یا اس کو مانے ، وہ کافر خارج از ملّت اسلام ہے۔ اس سلسلہ کے بھی چند شواہد ملاحظہ ہوں :

      ۱۔اما م ا بوحنیفہ ؓ(۸۰ھ۔ ۱۵۰ھ) کے زمانے میں ایک شخص نے نبوت کا دعویٰ کیا اور کہا ’’ مجھے موقع دوکہ میں اپنی نبوت کی علامات پیش کروں۔‘‘ اس پر امامِ اعظمؒ نے فرمایا کہ ’’ جو شخص اس سے نبوت کی کوئی علامت طلب کرے گا وہ بھی کافر ہو جائے گا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرما چکے ہیں کہ’’ لا نبی بعدی‘‘(مناقب الامام الاعظم ابی حنیفہ لا بن احمد المکی،ج ۱۔ص۱۶۱۔ مطبوعہ حیدرآباد ۱۳۲۱ھ)

      ۲۔ علاّمہ ابن جَریر طَبری (۲۲۴ھ۔ ۳۱۰ھ) اپنی مشہور تفسیر قرآن میں آیت  وَلٰکِنْ رَّسُوْ لِ اللہِ وَخَاتَمَ النَّبِیِّنَ کا مطلب بیان کرتے ہیں : الذی ختم النبوۃ فطبع علیھا فلاتفتح لاحد بعدہٗ الیٰ قیام الساعۃ۔ جس نے نبوت کو ختم کر دیا اور اس پر مُہر لگا دی، اب قیامت تک یہ دروازہ کسی کے لئے نہیں کھلے گا ‘‘ (تفسیر ابنِ جریر، جلد ۲۲، صفحہ ۱۲)

      ۳۔ امام  طَحاوِی(۲۳۹ھ۔ ۳۲۱ھ)اپنی کتاب ’’عقیدۂ سلفیہ‘‘ میں سلف صالحین ، اور خصوصاً امام ابو حنیفہ ، امام ابو یوسف اور امام محمد رحمہم اللہ کے عقائد بیان کرتے ہوئے نبوت کے بارے یہ عقیدہ  تحریر فرماتے ہیں :’’ اور یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم اللہ کے برگزیدہ بندے ،چیدہ نبی اور پسندیدہ رسول ہیں اور وہ خاتم الانبیا ء، امام الاتقیا، سیّد المرسلین اور حبِیب ربّ العالمین ہیں ، اور ان کے بعد نبوت  کا ہر دعویٰ گمراہی اور خواہشِ نفس کی بندگی ہے۔‘‘ (شرح الطحاویہ فی العقیدۃ السلفیہ،دار المعارف مصر، صفحات ۱۵،۸۷،۹۶،۱۰۰،۱۰۲)

      ۴۔ علّامہ ابن حَزُم اندَلُسِی (۳۸۴ھ۔ ۴۵۶ھ) لکھتے ہیں : ’’ یقیناً وحی کا سلسلہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات کے بعد منقطع ہو چکا ہے۔ دلیل اس کی یہ ہے کہ وحی نہیں ہوتی مگر ایک نبی کی طرف ، اور اللہ عزّوجلّ فرما چکا ہے کہ محمدؐ نہیں ہیں تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ ، مگر وہ اللہ کے رسول اور نبیوں کے خاتم ہیں۔‘‘ (المحلّٰی، ج۱ ، ص ۲۶)

       ۵۔ امام غَزّالی (۴۵۰ھ۔ ۵۰۵ھ) فرماتے ہیں (امام غزالیؒ کی اس رائے کو ہم ان کی اصل عبارت کے ساتھ اس لیے نقل کر رہے ہیں کہ منکرینِ ختم نبوت نے اس حوالے کی صحت کو بڑے زور شور سے چیلنج کیا ہے۔)

          لو فتح ھٰذاا لباب(ای باب انکا رکون الاجماع حجۃ)انجرالی امور شنیعۃ وھو ان قائلا لو قال یجوز ان یبعث رسول بعد نبینا محمّد صلی اللہ علیہ و سلم فیبعد التوقف فی تکفیرہ، ومستبعد استحلۃ ذالک عند البحث تستمد من الاجماع لا محالۃ ، فان العقل لا یحیلہ، وما نقل فیہ من قولہ لانبی بعدی، ومن قولہ تعالیٰ خاتم النبیّین، فلا یعجز ھٰذا القائل عن تاْویلہٖ، فیقول خاتم النبیّین اراد بہٖ اولوالعزم من الرسل ، فان قالواالنبٰٰن عام، فلا یبعد تخصیض العام، وقولہ لا بنی بعدی لم یرد بہ الرسول و فرق بین النبی و الرسول والنبی اعلیٰ مر تبۃ من الرسول الیٰ غیرذالک من انواع الھذیان، فھٰذا و امثالہ لا یمکن ان ندعی استحالتہٗ من حیث مضرد اللفظ ، فانا فی تاویل ظواھر التشبیہ قضینا باحتمالات ابعد من ھٰذہٖ ، ولم یکن ذالک مبطلاً للنصوص ، ولکن الرد علیٰ ھٰذاالقائل ان الامۃ نھمت بالاجما ع من ھٰذااللفظ و من قوائن احوالہ انہ الھم عدم نبی بعدہٗ ابداً وعد م رسول اللہ ابداً وانّہ لیس فیہ تاویل ولا تخصیص فمنکر ھٰذا لا یکون الامنکر الاجماع ( القتصاد فی الاعتقاد، المطبعۃ الادبیہ، مصر ، ص ۱۱۴)  

      اگر یہ دروازہ(یعنی اجماع کو  حجت ماننے سے انکار کا دروازہ ) کھول دیا جائے تو بڑی قبیح باتوں تک  نوبت پہنچ جاتی ہے۔ مثلاً اگر کہنے والا کہے کہ بعثت ممکن ہے تو اس کی تکفیر میں تامّل نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن بحث کے موقع پر جو شخص اس کی تکفیر میں تامّل کو ناجائز ثابت کرنا چاہتے ہو اسے لامحالہ اجماع سے مدد لینی پڑے گی۔ کیونکہ عقل اس کے عدم جواز کا فیصلہ نہیں کرتی۔ اور جہاں تک نقل کا تعلق ہے اس عقیدے کا قائل لانبی  بعدی اور خاتم النبیّین کی تاویل کرنے سے عاجز نہ ہو گا۔ وہ  کہے گا کہ خاتم النبیین سے مراد اولو العزم رسولوں کا خاتم ہونا ہے۔ اور اگر کہا جائے کہ نبیین کا لفظ عام ہے تو عام کو خاص قرار دے دینا اس کے لیے کچھ مشکل نہ ہو گا۔ اور لانبی بعدی کے متعلق وہ کہ دے گا کہ لا رسول بعدی تو نہیں کہا گیا ہے ، رسول اور نبی میں فرق ہے ، اور نبی کا مرتبہ رسول سے بلند تر ہے۔ اور غرض اس طرح کے اعتبار سے ایسی تاویلات کو ہم محال نہیں سمجھتے ، بلکہ ظواہرِ تشبیہ کی تاویل میں ہم اس سے بھی زیادہ بعید اتمالات کی گنجائش مانتے ہیں اور اس طرح کی تاویلیں کرنے والے کے متعلق ہم یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ وہ نصوص کا انکار کر رہا ہے۔ لیکن اس قول کے قائل کی تردید میں ہم یہ کہیں گے کہ اُمت نے بالاتفاق اس لفظ (یعنی لانبی بعدی) سے اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے قرائنِ احوال سے یہ سمجھا ہے کہ حضورؐ کا مطلب یہ تھا کہ آپ کے بعد کبھی نہ کوئی نبی  آئے گا نہ رسول۔ نیز امت کا اس پر بھی اتفاق ہے کہ اس میں کسی تاویل اور تخصیص کی گنجائش نہیں ہے۔ لہٰذا ایسے شخص کو منکرِ اجماع کے سوا اور کچھ نہیں کہا جا سکتا۔

       ۶۔محی السُّنَّہ بَغَوی (متوفی۵۱۰ھ)اپنی تفسیر معالم التنزیل میں  لکھتے ہیں ،’’اللہ نے آپؐ کے ذریعہ سے نبوت کو ختم کیا، پس آپؐ انبیاء کے خاتم ہیں .........اور ابن عباس کا قول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے (اِس آیت میں ) یہ فیصلہ فرما دیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد کوئی نبی نہ ہو گا۔‘‘ (جلد ۳،ص۱۵۸)

       ۷۔ علامہ زَمَخْشَری (۴۶۷ھ۔ ۵۳۸ھ) تفسیر کشّاف میں لکھتے : ’’ ہیں اگر تم کہو کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم آخری نبی کیسے ہوئے جبکہ حضرت عیسیٰ ؑ آخر زمانے میں نازل ہوں گے ؟ تو میں کہوں گا کہ آپؐ کا آخری نبی ہونا اس معنی میں ہے کہ بعد کوئی شخص نبی نہ بنایا جائے گا، اور عیسیٰ علیہ السلام اُن لوگوں میں سے ہیں جو آپ سے پہلے نبی بنائے جا چکے تھے ، اور جب وہ نازل ہوں گے تو شریعت محمدیہ کے پیرو اور آپؐ کے قبیلے کی طرف نماز پڑھنے والے کی حیثیت سے نازل ہوں گے گویا کہ وہ آپؐ ہی کی امت کے ایک فرد ہیں ‘‘۔ (جلد ۲،ص۲۱۵)

       ۸۔ قاضی عیاض(متوفی ۵۴۴ھ) لکھتے ہیں :’’ جو شخص خود اپنے حق میں نبوت کا دعویٰ کرے ، یا اس  بات کو جائز رکھے کہ آدمی نبوت کا اکتساب کر سکتا ہے اور صفائیِ قلب کے ذریعہ سے مرتبۂ نبوت کو پہنچ سکتا ہے ، جیسا کہ بعض فلسفی اور غالی صوفی کہتے ہیں ، اور اسی طرح جو شخص نبوت کا دعویٰ تو نہ کرے مگر یہ دعویٰ کرے کہ اس پر وحی آتی ہے ...... ایسے سب لوگ کافر اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے جھٹلانے والے ہیں۔ کیونکہ آپؐ خاتم النبیین ہیں۔ آپؐ کے بعد کوئی نبی آنے والا نہیں۔ اور آپؐ نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ خبر پہنچائی ہے کہ آپ نبوت کے ختم کرنے والے ہیں اور تمام انسانوں کی طرف آپؐ کو بھیجا گیا ہے۔ اور تمام امت کا اس پر اجماع ہے کہ یہ کلام اپنے ظاہر مفہوم پر محمول ہے ، اس کے معنی ومفہوم میں کسی تاویل و تخصیص کی گنجائش نہیں ہے۔ لہٰذا ان تمام گروہوں کے کافر ہونے میں قطعاً کوئی شک نہیں ، بر بنائے اجماع بھی اور بر بنائے نقل بھی‘‘۔(شفاء، جلد ۲، ص۰ ۲۷۔۲۷۱)

     ۹۔ علامہ شہر ستانی (متوفی ۵۴۸ھ ) اپنی مشہور کتاب الملل و الِنَّحل میں لکھتے ہیں :’’ اور اسے طرح جو کہے .......... کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد کوئی نبی آنے والا ہے (بجز عیسیٰ علیہ السلام کے )تو اس کے کافر ہونے میں دو آدمیوں کی درمیان بھی اختلاف نہیں ہے ‘‘ (جلد ۳، ص۲۴۹)

     ۱۰۔ امام رازی (۵۴۳ھ۔۶۰۶ھ)اپنی تفسیر کبیر میں آیت خاتم النبیین کی شرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ’’ اس سلسلۂ بیان میں و خاتم النبیین اس لیے فرمایا کہ جس نبی کے بعد کوئی دوسرا نبی ہو وہ اگر نویھت اور توضیح احکام کوئی کسر چھوڑ جائے تو اس کے بعد آنے والا نبی اُ سے پورا کر  سکتا ہے۔ مگر جس کے بعد کوئی آنے  والا نبی نہ ہو وہ اپنی امت پر زیادہ شفیق ہوتا ہے اور اس کو زیادہ واضح رہنمائی دیتا ہے کیونکہ اس کی مثال اُس باپ کی ہوتی ہے جو جانتا ہے کہ اس کے بیٹے کا کوئی ولیو سرپرست اُس کے بعد نہیں ہے (جلد ۶، ص ۵۸۱)

      ۱۱)۔ علامہ بیضاوی (متوفی ۶۸۵ھ اپنی تفسیر انوار التنزیل مین لکھتے ہیں : ’’ یعنی آپؐ انبیا ء میں سب سے آخری نبی ہیں جس نے ان کا سلسلہ ختم کر دیا، یا جس سے انبیاء کے سلسلے پر مہر کر دی گئی۔اور عیسیٰ علیہ السلام کا آپؐ کے بعد نازل ہونا اس ختمِ نبوت میں قادح نہیں ہے کیونکہ جب وہ نازل ہوں گے تو آپؐ ہی کے دین پر ہوں گے ‘‘ (جلد ۴۔ ص ۱۶۴)

      ۱۲)۔ علامہ حافظ الدین النَّسَفی(متوفی ۷۱۰ھ) اپنی تفسیر ’’ مدارک التنزیل ‘‘ لکھتے ہیں۔ ’’ اور آپؐ خاتم النبیین ہیں ........ یعنی نبیوں میں سب سے آخری۔ آپؐ کے بعد کوئی شخص نبی نہیں نبایا جائے گا۔ رہے عیسیٰ ؑ تو وہ اُن انبیاء میں سے  ہیں جو آپؐ سے پہلے نبی بنائے جا چکے تھے۔اور وہ جب نازل ہوں گے تو شریعتِ محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر عمل کرنے والے کی حیثیت سے نازل ہوں گے گویا کہ وہ آپؐ کے افراد میں سے ہیں ‘‘ (ص ۴۷۱)  

      ۱۳)۔ علامہ علاؤالدین بغدادی(متوفی ۷۲۵ھ) اپنی تفسیر ’’ خازن‘‘ میں لکھتے ہیں :’’ وَخَا تَمَ النَّبِیّینَ، یعنی اللہ نے آپؐ پر نبوت ختم کر دی، ان نہ آپؐ کے ساتھ کوئی اس میں شریک..... وَکَانَاللہُ بِکُلِّ شَیْ ئٍ عِلیمْاً،یعنی یہ بات اللہ کے علم میں ہے کہ آپؐ کے بعد کوئی نبی نہیں۔‘‘ (ص۴۷۱۔۴۷۲)

          ۱۴)۔ علامہ ابنِ کثیر (متوفی ۷۷۴ھ)اپنی مشہور و معروف تفسیر میں لکھتے ہیں :’’ پس یہ آیت اس باب میں نص صریح ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد کوئی نبی نہیں ہے ، اور جب آپؐ کے بعد نبی کوئی نہیں تو رسول درجۂ اولیٰ نہیں ہے ، کیوں کہ رسالت کا منصب خاص ہے اور نبوت کا منصب عام، ہر رسول نبی ہوتا ہے مگر ہر نبی رسول نہیں ہوتا....حضورؐ کے بعد جو شخص بھی اس مقام کا دعویٰ کرے وہ جھوٹا ، مفتری،دجّال، گمراہ اور گمراہ کرنے والا ہے خواہ وہ کیسے ہی خرق عادت اور شعبدے اور جادو اور طلسم اور کرشمے بنا کر لے آئے ....   یہی حیثیت ہر اس شخص کی ہے جو قیامت تک اس منصب کا مدعی ہو‘‘۔ (جلد۳۔ص۴۹۳۔۴۹۴)

      ۱۵)۔ علامہ جلال الدین سُیُو طی(متوفی۹۱۱) تفسیر جلالین میں لکھتے ہیں :’’ وَکَانَ اللہُ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْماً،یعنی اللہ اس بات کو جانتا ہے کہ آنحضرتؐ کے بعد کوئی نبی نہیں۔ اور عیسیٰؑ جب نازل ہوں گے تو آپؐ کی شریعت ہی کے مطابق عمل کریں گے ‘‘۔(ص ۷۶۸)

     ۱۶)۔ علامہ ابن نُجیم(متوفی ۹۷۰ھ) اُصُولِ فقہ کی مشہور کتاب الْاَشباہ والنظائر، کتاب السّیر، باب الرِّوَّہ میں لکھتے ہیں :’’ اگر آدمی یہ نہ سمجھے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم آخری نبی ہیں تو وہ مسلمان نہیں ہے ، کیوں کہ یہ اُن باتوں میں سے ہے جن کا جاننا اور ماننا ضروریاتِ دین میں سے ہے۔‘‘ (ص۱۷۹)

      ۱۷)۔ ملّا علی قاری(متوفی ۱۰۱۶ھ) شرح فقہ اکبر میں لکھتے ہیں :’’ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد نبوت کا دعویٰ کرنا بالا جماع کفر ہے ‘‘۔(ص ۲۰۲)

      ۱۸)۔شیخ اسماعیل حقی(متوفی ۱۱۳۷ھ) تفسیر رُوح البیان میں اس آیت کی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں :’’ عاصم نے لفظ خاتَمت کے زبر کے ساتھ پڑھا ہے جس کے معنی ہیں آلۂ ختم کے جس سے مہر کی جاتی ہے۔ جیسے طابع اس چیز کو کہتے ہیں جس سے ٹھپّا لگا یا جائے۔ مراد یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم انبیاء میں سب سے آخر تھے جن کے ذریعہ سے نبیوں کے سلسلہ پر مُہر لگا دی گئی۔ فارسی میں اسے ’’ مُہرپیغمبراں ‘‘ کہیں گے ، یعنی آپؐ سے نبوت کا دروازہ سر  بمُہر کر دیا گیا اور پیغمبروں کا سلسلہ ختم کر دیا گیا۔ باقی قاریوں نے اسے ت کے زیر کے ساتھ خاتِم پڑھا ہے ، یعنی آپؐ مُہر کرنے والے تھے۔ فارسی میں اس کو ’’مُہر کنندۂ پیغمبراں ‘‘کہیں گے۔ اس طرح یہ لفظ بھی خاتَم کا ہم معنی ہی ہے ..... اب آپ کی اُمت کے علماء آپؐ سے صرف ولایت ہی کی میراث پائیں گے ، نبوت کی میراث آپؐ کی ختمیت کے باعث ختم ہو چکی۔ اور عیسیٰ علیہ السلام کا آپ کے بعد نازل ہونا آپؐ کے خاتم النبیین ہونے میں قدح نہیں ہے کیونکہ خاتم النیین ہونے کے معنی یہ ہیں کہ آپؐ کے بعد کوئی نبی نہ بنایا جائے گا.... اور عیسیٰ آپؐ سے پہلے نبی بنائے  جا چکے تھے۔ اور جب وہ نازل ہوں گے تو شریعت محمدی صلی اللہ علیہ و سلم کے پیرو کی حیثیت سے نازل ہوں گے۔ آپؐ ہی کے قبلے کی طرف رُخ کر کے نماز پڑھیں گے۔ آپؐ کی امت کے ایک فرد کی طرح ہوں گے۔ نہ اُن کی طرف وحی آئے گی اور نہ وہ نئے احکام دیں گے۔ بلکہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے خلیفہ ہوں گے ...... اور اہل سنت والجماعت اس بات کے قائل ہیں کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرما دیا’’ لا نبی بعدی‘‘ اب جو کوئی کہے کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد کوئی نبی ہے تو اس کو کافر قرار دیا جائے گا، کیونکہ اس نے نص کا انکار کیا۔ اور اسی طرح اس شخص کی بھی تکفیر کی جائے گے جو اس میں شک کرے ، کیونکہ حجت نے حق کو باطل سے ممیز کر دیا ہے اور جو شخص محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد نبوت کا دعویٰ کرے اس کا دعویٰ باطل کے سوا کچھ اور ہو ہی نہیں سکتا۔‘‘ جلد ۲۲ ص ۱۸۸)

      ۱۹)۔ قتاویٰ علمگیری، جسے بارھویں صدی ہجری میں اورنگ زیب عالمگیر کے حکم سے ہندوستان کے بہت سے علماء نے مرتب کیا تھا، اس میں لکھا ہے :’’ اگر آدمی یہ نہ سمجھے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم آخری نبی ہیں تو وہ مسلم نہیں ہے۔ اور اگر وہ کہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں یا میں پیغمبر ہوں تو اس کی تکفیر کی جائے گی‘‘(جلد۲، ص۲۶۳)

      ۲۰)۔ علامہ شَو کافّٰی (متوفّٰی ۱۲۵۵ھ) اپنی تفسیر فتح القدیر میں لکھتے ہیں :’’ جمہور نے لفظ خاتِم کوت کے زیر کے ساتھ پڑھا ہے اور نے زبر کے ساتھ۔ پہلی قرأت  کے معنی یہ ہیں کہ آپؐ نے انبیاء کو ختم کیا، یعنی سب کے آخر میں آئے۔ اور دوسری قرأت  کے معنی یہ ہیں کہ آپ ان کے لیے مہر کی طرح ہو گئے جس کے ذریعہ سے ان کا سلسلہ سر بمہر ہو گیا اور جس کے شمول سے ان کا گروہ مزین ہوا‘‘(جلد ۴، ص ۲۷۵)

     ۲۱)۔علامہ آلوسی (متوفّٰی ۱۲۷۰ھ) تفسیر روح المعانی میں لکھتے ہیں : ’’ نبی کا لفظ رسول کی بہ نسبت عام ہے۔ لہٰذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے خاتم النبیین ہونے سے خود بخود لازم آتا ہے کہ آپؐ خاتم المرسلین بھی ہوں۔ اور آپؐ کے خاتِم انبیاء و رُسُل ہونے سے مراد یہ ہے کہ اس دُنیا میں وصفِ نبوت سے آپؐ کے متصف ہونے کے بعد اب جِنّ و انس میں سے ہر ایک کے لیے نبوت کا وصف منقطع ہو گیا۔‘‘ (جلد ۲۲۔ص۳۲)۔ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد جو شخص وحی نبوت کا مدّعی ہوا ُسے کافر قرار دیا جائے گا۔ اس امر میں مسلمانوں  کے دریان کوئی اختلاف نہیں ہے۔‘‘ جلد۲۲ ص ۳۸)۔’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا خاتم النبیین ہونا ایک ایسی بات ہے جسے کتاب ا للہ نے صاف صاف بیان کیا، سنّت نے واضح طور پر اس کی تصریح کی، اور امت نے اس پر اجماع کیا۔ لہٰذا جو اس کے خلاف کوئی دعویٰ کرے اسے کافر قرار دیا جائے گا۔‘‘ (جلد ۲۲ ص ۳۹)

       یہ ہندوستان سے لے کر مراکش اور اندلس تک ، اور ٹرکی سے لے کر یمن تک  ہر مسلمان ملک کے اکابر علماء و فقہا ء اور محدثین و مفسرین کی تشریحات ہیں۔ ہم نے ان کے ناموں کے ساتھ ان کے سنینِ ولادت و وفات بھی دے دیے ہیں جن سے ہر شخص بیک نظر معلوم کر سکتا ہے کہ پہلی صدی سے تیرھویں صدی تک تاریخِ اسلام کی ہر صدی کے اکابر اُن میں شامل ہیں۔ اگرچہ ہم چودھویں صدی  کے علمائے اسلام کی تصریحات بھی نقل کر سکتے تھے ، مگر ہم نے قصداً انہیں اس لیے چھوڑ دیا کہ اُن کی تفسیر کے جواب میں ایک شخص یہ حیلہ کر سکتا ہے کہ ان لوگوں نے اس دور کے مدعی نبوت کی ضد میں ختمِ نبوت کے یہ معنی بیان کیے ہیں۔ اس لیے ہم نے پہلے علماء کی تحریریں نقل کی ہیں جو ظاہر ہے کہ آج کے کسی سے کوئی ضد نہ رکھ سکتے تھے۔ ان تحریروں س یہ بات قطعی طور پر ثابت ہو جاتی ہے کہ پہلی صدی سے آج تک پوری دنیائے اسلام متفقہ طور پر ’’ خاتم النبیین ‘‘ کے معنی ’’ آخری نبی ‘‘ ہی سمجھ  رہی ہے ، حضورؐ کے بعد نبوت کے دروازے کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند تسلیم کرنا ہر زمانے میں تمام مسلمانوں کا متفق علیہ عقیدہ رہا ہے ، اور اس امر میں مسلمانوں کے درمیان کبھی کوئی اختلاف نہیں ۂا کہ جو شخص محمد رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد رسول یا نبی ہونے کا دعویٰ کرے اور جو اس کے دعوے کو مانے وہ دائرۂ اسلام سے خارج ہے۔

       اب یہ دیکھناہر صاحبِ عقل آدمی کا اپنا کام ہے کہ لفظ خاتم البنیین کا جو مفہوم لغت سے ثابت ہے ، جو قرآن کی عبارت کے سیاق و سباق سے ظاہر ہے ، جس کی تصریح نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے خود فرما دی ہے ، جس پر صحابۂ کرامؓ کا اجماع ہے ، اور جسے صحابۂ کرامؓ کے زمانے سے لے کر آج تک تمام دنیا کے مسلمان بلا اختلاف مانتے رہے ہیں ، اس کے خلاف کوئی دوسرا مفہوم ،لینے اور کسی نئے مدّعی کے لیے نبوت کا دروازہ کھولنے کی کیا گنجائش باقی رہ جاتی ہے ، اور ایسے لوگوں کو کیسے مسلمان تسلیم کیا جا سکتا ہے جنہوں نے بابِ نبوت کے مفتوح ہونے کا محض خیال ہی ظاہر نہیں کیا ہے بلکہ اس دروازے سے ایک صاحب حریمِ نبوت میں داخل بھی ہو گئے ہیں اور یہ لوگ ان کے نبوت پر ایمان بھی لے آئے ہیں۔

***

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول