صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
خاكے
عوض سعید
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
ابراہیم جلیس
بعض شخصیتیں ایسی ہوتی ہیں جن كے پیچھے ایك تاریخ ہوتی ہے۔ ابراہیم جلیس ان ہی میں سے ایك تھے۔ اس تاریخ ساز شخصیت كے ہر بُنِ مو كا احاطہ دہی لوگ كر سكتے ہیں جنہیں ان كے قرب كی دولت میسر ہوئی ہو۔ میرے لیے تو ابراہیم جلیس كی صرف دو ملاقاتیں ہی سرمایہ ہیں۔ مجھے سنہ اور تاریخ ٹھیك طرح یاد نہیں۔ غالباً ٤٨٨ ئ اور ٥٠٠ ئ كے درمیان شاذ كے ساتھ پہلی بار جلیس سے ملنے كا اتفاق ہوا تھا۔ یہ اس وقت كی بات ہے جب ہم ہائی اسكول كے طالب علم تھے۔ فصیح الدین اكثر ان كے سر پر سوار رہتے اور كسی نا كسی طرح ’’پرچم‘‘ كے لیے جلیس سے مضمون لكھوالیتے۔
دوسری طرف نقوش، ساقی، ہمایوں، ادبی دنیا، نیا دور اور ادب لطیف میں ابراہیم جلیس چھائے ہوے رہتے۔ دراصل جلیس ’’زرد چہرے‘‘ كی اشاعت ہی سے شہرت پاچكے تھے۔ اور مقبولیت میں كسی طرح كرشن چندر سے كم نہ تھے۔ پھر چوربازار، تكونہ دیس دو ملك ایك كہانی نے انہیں لازوال شہرت بخشی، جلیس كے ہزاروں مداحوں میں ہم بھی تھے۔ اس لیے ہماری عین خواہش تھی كہ كسی نہ كسی طرح اس قد آور ادیب سے ملاجائے۔
اس زمانے میں ہمارے ایك ساتھی فضل اللہ ہوا كرتے تھے۔ وہ بھی جلیس كے بڑے مداحوں میں سے تھے۔ ہم نے جب ان سے رجوع كیا تو انہوں نے ہم سے وہ كاپیاں طلب كین جن میں ہمارے چند مزاحیہ مضامین بكھرے پڑے تھے تاكہ وہ جلیس كو دكھا سكیں كہ ہم لوگوں كو آگے لكھنا بھی چاہیے یا
شاذ اس وقت اپنے احباب كے لیے مزاح نگار مصلح الدین تھے۔ شاعر نہیں تھے۔ میرا كل اثاثہ ایك كہانی دو مزاحیہ مضامین تھے جس كے بل بوتے پر میں پكی روشنائی سے اپنا نام لكھوانا چاہتا تھا۔ فضل صاحب نے ایك دن یہ كہہ كر ہم سے كاپیاں لے لیں كہ ملاقات تو بعد میں بھی ہو سكتی ہے لیكن جلیس كی رائے ہم نوداردانِ بساطِ ادب كے لیے ضروری ہے۔ كاپیاں ان كے حوالے كر دی گئیں۔ لیكن عرصہ دراز تك ہمارے كانوں میں ذرا سے ردّو بدل كے ساتھ یہی بات سنائی دیتی رہی كہ امروز فردامیں كاپیاں رائے كے ساتھ واپس كر دی جائیں گی۔ اور آخر ایك دن كاپیاں واپس آ گئیں۔ اس میں جلیس كی رائے درج نہ تھی۔ جو چیزیں انھیں پسند آئی تھیں اس پر انھوں نے رائٹ كا نشان لگا دیا تھا۔ زیادہ نشانات شاذ كے حصّے میں آئے تھے۔ میرے حصّے میں ایك نشان آیا تھا جو میری كہانی كے سرپر منڈلا رہا تھا۔
ہمیں یہ بھی شك تھا كہ كہیں فضل صاحب نے یہ حركت نہ كی ہو۔ اس لیے ہم نے جلیس سے ملنے كی ٹھان لی۔ ایك دن ’’نظامیہ رستوران‘‘ پہنچے تو جلیس اپنے مداحوں میں گھرے ہوے چہك رہے تھے۔ مجھے یاد ہے شاذ نے بیرے كے ہاتھ میں ایك چٹّھی تھما دی اور اشارہ سے بیرے كو سمجھا دیا تھا كہ جلیس تك یہ چٹّھی پہنچادے۔
تاجدار قلم ابراہیم جلیس۔
’’ہم لوگ آپ سے ملنے كے مشتاق ہیں۔ پانچ منٹ كے لیے زحمت كیجیے۔‘‘
شاذ نے غالباً كچھ اس طرح كی عبارت لكھی تھی۔ چٹّھی ملتے ہی وہ فوری ہماری طرف آئے۔ اور مسكراتے ہوۓ كہا۔ ’’بھئی آپ لوگوں نے یہ تاجدار قلم كیا لكھ دیا۔‘‘
جب ہم لوگوں نے كاپیوں پر لگائے ہوے نشانات كی تشریح چاہی تو انھوں نے قدرے ركتے ہوے مجھ سے كہا كہ ’’آپ افسانے لكھیئے اور شاذ سے كہا كہ وہ مزاح میں اپنا زور آزمائیں۔
شاذ مزاح نگار بنتے بنتے رہ گئے اور آگے چل كر شاعر بن گئے۔ اور میں نے افسانہ نگاری شروع كر دی جو اب تك جاری ہے۔ جلیس كی نظامیہ والی وہ ملاقات آج تك میرے ذہن میں محفوظ ہے۔
غالباً 1962ء میں وہ پاكستان سے حیدرآباد آئے تھے۔ معین فاروقی نے ان كے اعزاز میں ایك دعوت كی تھی۔ فاروقی نے میرا تعارف كراتے ہوے كہا۔
’’یہ میرے دوست عوض سعید ہیں____‘‘
’’افسانہ نگار عوض سعید‘‘ جلیس نے اس طرح كہا جیسے میرا نام اب ان كے لیے نیا نہیں رہا۔
میں خوش ہو گیا كہ جلیس كو كم از كم میرا نام یاد ہے۔
آج ابراہیم جلیس ہم میں نہیں رہے لیكن مجھے احساس ہو رہا ہے كہ میرے ہاتھ میں ایك كاپی آج بھی ہے جس پر خلوص سے نشان لگانے والا كوئی نہیں۔
***