صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں


خاک کے پیکر سے 

مجید اختر

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                  ٹیکسٹ فائل

غزلیں

آنکھوں کے در کھلے ہوئے ہیں

کتنے منظر کھلے ہوئے ہیں


یہ کیسا شاہین ہے جس کے

مجھ میں شہپر کھلے ہوئے ہیں


کچھ اچھے آثار نہیں ہیں

گھر خالی، در کھلے ہوئے ہیں


کتنے ہی دروازے میری

ذات کے اندر کھلے ہوئے ہیں


تنگ زمیں گر ہو گی ہم پر

سات سمندر کھلے ہوئے ہیں


گرچہ کاغذ پر چسپاں ہے

تتلی کے پر کھلے ہوئے ہیں


جن سے تھی ناموسِ عصمت

ان کے بھی سر کھلے ہوئے ہیں


امن و اماں ہیں قید میں اختر

بستی میں ڈر کھلے ہوئے ہیں

٭٭٭



بخش دے کچھ تو اعتبار مجھے

پیار سے دیکھ چشمِ  یار مجھے


رات بھی، چاند بھی، سمندر بھی

مل گئے کتنے غمگسار مجھے


روشنی اور کچھ بڑھا جاؤں

سوزِ  غم اور بھی نکھار مجھے


کچھ ہی دن میں بہار آ جاتی

اور کرنا تھا انتظار مجھے


دیکھ دنیا یہ پینترے نہ بدل

دیکھ شیشے میں مت اتار مجھے


آئینے میں نظر نہیں آتا

اپنا چہرہ کبھی کبھار مجھے


کس قدر شوخ ہو کے تکتا تھا

رات بندِ  قبائے یار مجھے


دیکھ میں ساعتِ  مسرّت ہوں

اتنی عجلت سے مت گذار مجھے


مرکبِ  خاک پر سوار ہوں میں

دیکھ اے شہرِ  زر نگار مجھے


رزقِ  مقسوم کھا کے جینا تھا

کھا گئی فکرِ  روزگار مجھے

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                  ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول