صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
خیر القرون کی اصطلاح کا مطلب کیا ہے؟
سیّد خالد جامعی
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
اقتباس
عہد حاضر کا خدا ا علیٰ معیارِ زندگی ہے جو سرمایہ سے حاصل ہوتا ہے امت اسی میں مبتلا ہے یہ بھول گئی ہے کہ انقلاب امامت کے لیے بھوکا رہنا پڑتا ہے اپنا معیار زندگی کم کرنا پڑتا ہے اور مسلسل کم کرنے پر راضی رہنا ہوتا ہے۔ بھوکا رہنا،خالی پیٹ ہونا کوئی عیب نہیں یہ اللہ کے مقربین کی صفت ہے کم کھانے کم سونے، کم بولنے دنیا سے کم سے کم تمتع کرنے کے باعث اہل اللہ پر اسرار کھلنے اور ان کے درجات بلند ہوتے ہیں ، کھاتے رہنے سے بھوک نہیں مٹتی بھوک کم کھانے اور کھانا ترک کرنے سے مٹتی ہے، مستقل کھاتے رہنے والا ہمیشہ بھوکا ہی رہتا ہے جو بھوک کو قبول کرے اس کی بھوک مٹ جاتی ہے نفس قانع ہو جاتا ہے اس لیے صحابہ و صلحائے امت کثرت سے روزے رکھتے تھے۔
انبیاء کی تہذیبوں میں روزے رکھنا عام بات ہے لوگ لذات دنیا سے کنارہ کش رہتے ہیں تب ہی ان پر حکمت کے چشمے القاء ہوتے ہیں ، لذت و چٹخارے میں مبتلا قوم کے معدے ہمیشہ کچھ نہ کچھ طلب کرتے رہتے ہیں۔ حضرت موسیٰ کی قوم اس کی مثال ہے جسے حالت جہاد میں بھی من و سلویٰ پسند نہ تھا اسے قسم قسم کے کھانے درکار تھے۔ جب جمعہ کے خطبے میں ہم یہ سنتے ہیں کہ خیر القرون قرنی (١) تو اس کا مطلب یہی ہے کہ وہ دور جب آخرت ہر رویے پر غالب تھی جب دنیا سب سے حقیر شے تھی جب اللہ کی رضا اور معرفت ہی حاصل زندگی تھی دنیا سے تمتع کم سے کم تھا۔ کوئی ترقی ، دنیا طلبی، لذات و آسائش کی تلاش میں سرگرداں نہیں تھا فقر کی خود اختیاری زندگی پر سب کو فخر تھا وہ کفار کی طرح دنیا سے تمتع کو درست نہیں سمجھتے تھے اور عیش و عشرت کی زندگی کے طالب اور حریص نہ تھے وہ صرف اور صرف حریص آخرت تھے اور اس میں ایک دوسرے سے آگے بڑھ جانے کی تگ و دو میں مصروف رہتے تھے۔ اگر خیر القرون ہی اصل معیار ہے تو ہمارا موجودہ طرز زندگی اس کی نفی ہے۔ جدیدیت [ماڈرن ازم] اور خیرالقرون کی جستجو ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے دنیا اور دین برابر نہیں ہوسکتے۔
٭٭٭