صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں
خیریت تو ہے
رؤف خیر
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
غزلیں
ہمارے قتل پہ سب راہگیر بھی چپ ہیں
ڈرے ہوئے ہیں کبیر و صغیر بھی چپ ہیں
کمان پرتھوی،غوری کے تیر بھی چپ ہیں
ضمیر بیچ کے عبدالقدیر بھی چپ ہیں
ردیف بش ہے مشرف کی،قافیہ خوش ہے
امان پا کے بشیر و نذیر بھی چپ ہیں
بساط الٹی،زمیں دوز ہو گئے زر دار
جو دل نواز تھے وہ بے نظیر بھی چپ ہیں
بڑی لکیر جنھیں کھینچنا نہیں آتا
وہ کانٹ چھانٹ کے میری لکیر بھی چپ ہیں
کسی سے ہم کوئی شکوہ گلہ نہیں رکھتے
فقیہِ شہر جو چپ ہے ،فقیر بھی چپ ہیں
وہی ہیں کوفی و صوفی،وہی ہے کرب و بلا
انیس ہی نہیں کوئی دبیر بھی چپ ہیں
نہ صرف یہ کہ ہیں مولائے کائنات خموش
اجی عراق میں پیرانِ پیر بھی چپ ہیں
رؤف خیرؔ ہمیں داد ہی نہیں دیتے
ہمارے دور کے سودا و میر بھی چپ ہیں
***
درون ذات کڑواہٹ ہے او ر بیرون میٹھا ہے
ہے منطق ترش، استدلال افلاطون میٹھا ہے
یہ مچھر یہ درندے ایک ایک قطرے کے پیاسے ہیں
نظر کڑوی ہے دشمن کی ہمارا خون میٹھا ہے
مریضان تعصب چاٹتے ہیں نوکِ خنجر سے
سمجھتے ہیں جواہر دار یہ معجون میٹھا ہے
یہ کھارے اور یہ کڑوے کسیلے کیسے بندے ہیں
الہی جب کہ تیرا حرفِ کاف و نون میٹھا ہے
کبھی دانتوں تلے انگلی دباتا ہے وہ خوش پیکر
کبھی شیریں دہن اس شوخ کا ناخون میٹھا ہے
شکر پارہ سمجھنے کا بھگتنا ہو گا خمیازہ
لباس قند میں زہر گل افیون میٹھا ہے
ہلاکت خیزیوں کا اس کی اندازہ نہیں اس کو
سمجھتا ہے یہی چوہا کہ ہر صابون میٹھا ہے
یہ کا سے بھوکی آنکھوں کے نہ بھر دولت کے خوابوں سے
نگلتی ہے زمیں گنجینۂ قارون میٹھا ہے
غیور اتنے تھے خاکِ تلخ دلی کی نہیں پھانکی
ظفر کے واسطے تلخابۂ رنگون میٹھا ہے
گراں گزرے نہ سچائی اگر کہہ دوں مرے بھائی
ترا اظہار تیکھا ہے بھلے مضمون میٹھا ہے
بدن جب تھک تھکا جائے مزے کی نیند آ جائے
عشا بعد العشاء کا اسوۂ مسنون میٹھا ہے
تو اپنی جیت پر نازاں میں اپنی ہار پر فرحاں
مرا دن کیف پر ور ہے ترا شب خون میٹھا ہے
اترتا ہے مر ی میزان خیر و شر پہ کب پورا
بظاہر خیرؔ یہ سرمایۂ قانون میٹھا ہے
٭٭٭٭٭٭٭٭