صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں
خیر کثیر
رؤف خیر
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
کیپسول
میں نے ادب سے متعہ نہیں کیا ہے بلکہ یہ
میرا عشق اول ہے اور میرے حرم میں داخل ہے۔
ادب کے نام پہ کیا رہ گیا ہے کہنے کو
مگر وہ بات جو میں چپ رہوں تورہ جائے
شعر
و ادب کے حوالے سے بھلے ہی ہر بات کہی جا چکی ہو
پھر بھی اپنی بات تو مجھے ہی کہنی ہے اور یہ بات کوئی اور کہہ
ہی نہیں سکتا۔ میرے اپنے محسوسات، جذبات، تجربات و
مشاہدات دوسروں سے کسی نہ کسی سطح پر مختلف ہیں یہی
میرے ہونے کا جواز ہے۔ یہیں سے میں اپنا احساس
دلانا چاہتا ہوں کبھی غزل کے ذریعے یہ کہہ کر
باہر ہی چھوڑ آئے وہ چہرہ جو خاص تھا ٭اک عام آدمی کی طرح گھر میں رہ گئے
عجب پرندہ ہے ہر زد سے بچ نکلتا ہے ٭پتہ نہیں اسے کس کا نشانہ ہونا ہے
مہاجرین سے انصار خوش نہیں ہوتے ٭تو پھر کہا ں کی یہ ہجرت برا ہے بھارت کیا
خشک لمحوں کے ہیں مارے ہوئے ہم لوگ ہمیں ٭رات بھیگے تو ضروری تو نہیں سو جانا
کبھی
طویل تو کبھی مختصر کبھی پابند تو کبھی آزاد نظموں کے
ذریعے،کبھی سانیٹ،ترائیلے،ہائیکو،ما ہیئے او ر کبھی صرف یک مصرعی
نظمیں کہہ کر اپنی پہچان قائم کی۔ میرے شعری
مجموعے : اقرا (۱۹۷۷) ایلاف (۱۹۸۲) شہداب
(۱۹۹۳) او ر سخن ملتوی (۲۰۰۴) پڑھنے والوں کو
چونکاتے ہیں۔ میں کوشش یہی کرتا ہوں کہ کوئی ایسی بات نہ کہوں
جو کہی ہوئی ہے میری تخلیقات گواہ ہیں۔ خود اپنے آپ کو بھی
میں کبھی نہیں دہرا تا۔ میں شاعری میں آزری کا
نہیں بت شکنی کا قائل ہوں۔ اس کے باوجود زبان و بیان کی تمام
تر باریکیوں کا لحاظ رکھنے کی امکان بھر کوشش کرتا ہوں۔ میں
چونکہ زبان و بیان سے کھلواڑ نہیں کرتا اس لیے اہل نظر
میرے شعر کو سند کا درجہ دیتے ہیں (یہ میں فخر یہ
نہیں بلکہ تحدیثِ نعمت کے طور پر عرض کر رہا ہوں )۔ میں اپنی
تخلیقات میں اپنے عصر اور اپنے ماحول کی عکاسی کرتا ہوں مگر
اجداد کے سرما یۂ ادب کو کبھی رد نہیں کرتا۔ شاید اسی
جذبے کے تحت میں نے علامہ اقبالؔ کے ۱۶۳۔ فارسی
قطعاًت ’’لالۂ طور ‘‘(پیام مشرق) کا منظوم اردو ترجمہ کیا جو ’’قنطار ‘‘
کے نام سے ۲۰۰۱ میں چھپا اور اہل نظر نے اتنا
پسند فرمایا کہ ۲۰۰۸ میں اس کا تیسرا ایڈیشن دہلی سے چھپا۔
میں
کسی تحریک سے وابستہ ہو کر اپنے آپ کو محدود کرنا نہیں
چاہتا۔ کسی منشور کسی فاروقی کسی نارنگ کی پشت پناہی نہ ہونے
سے میری آواز صدا بہ صحرا نہ ہو سکے گی کیونکہ مجھے
اپنے آپ پر اعتماد ہے او ر اتنا ہی ارباب نقد و نظر پر بھی ہے
اس کے باوجود۔
اگر مجھ کو قلم زد کر رہے ہیں وہ اپنے آپ کو رد کر رہے ہیں
میں
جو کچھ لکھتا ہوں اس میں خود بھی داخل رہتا ہوں۔ ہر مضمون پر
میرے اپنے دستخط ایسے ہی ثبت ہوتے ہیں
جیسے میری نظمیں غزلیں ’’خیریت‘‘ لئیے ہوئے
ہوتی ہیں۔
میں خط خیر اسود و ابیض کے درمیاں
حرف صحیح لہجہ کج مج کے شہر میں
دکن
کے رتن اور ارباب فن کو میں نے بچشم خیر دیکھا ہے
حتی کہ حیدرآباد کی خانقاہوں پر بھی خط خیر کھینچا ہے۔ پی ایچ ڈی
کرنے والوں کا حال دیکھ کر میں نے تو پی ایچ ڈی
نہیں کی لیکن حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی نے ’’ رؤف خیر فن اور شخصیت
‘‘کے عنوان سے مقالہ لکھنے پر صبیحہ سلطانہ کو ایم فل
کی ڈگری عطا کی۔
٭٭٭