صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں
خیرِ ادب
مختلف ادباء
تدوین:اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل
سرچشمۂ دانش و سخن۔ رؤف خیر
خالد یوسف
تجھے خبر بھی ہے کیا کیا خیال آتا ہے
کہ جی ترے سخنِ ملتوی سے خوش نہ ہوا
یہ شعر ارضِ دکن کے خوش فکر شاعر رؤف خیر کاہے اور انکے خوبصورت شعری مجموعے ’’سخن ملتوی ‘‘کے سر ورق کی زینت ہے۔محبوب کے ہزار ناز و غمزے برداشت کرنے کے باوجود کوئی بھی سچا عاشق بشمول رؤف خیر اور ہم اسکے سخن ملتوی سے خوش نہیں ہوتا لیکن اس سخن ملتوی کی بات ہی کچھ اور ہے جس میں اک گلزار کیف و نشاط اور جہانِ معنی پنہاں ہے۔انکے اشعار جہاں ایک طرف نغمہ و تغزل کا رس برسا رہے ہیں تو دوسری طرف علم و دانش کے بیش بہا موتی بھی بکھیر تے جاتے ہیں۔ان کے ہاں تصوف اور رومان ہاتھ پکڑے ساتھ ساتھ چلتے نظر آتے ہیں مثلاً یہ اشعار:
ہم کسی اور کی صورت کے روادار نہیں
جتنے دروازے ہیں سب تیری طرف کھلتے ہیں
بے اثاثہ میں سہی تو تو اثاثہ ہے مرا
رات آنکھوں میں تجھے اپنی چھپا کر سو گیا
آتا نہیں یقین کہ وہ بد گمان ہیں
میرا خیال ہے کہ انھیں خط نہیں ملا
ان کے کلام میں جگہ جگہ پُر کار بندشوں اور قدرت کمال کی کار فرمائی نظر آتی ہے جیسے یہ شعر:
انھیں عجیب سا چسکا ہے لکھنے پڑھنے کا
تمام لوحِ بدن پر نظر سے لکھتے ہیں
ان کے فن کا دامن غم جانا ں ہی نہیں بلکہ غمِ دوراں کو بھی اپنے حصار میں رکھتا ہے اور بین الاقوامی حالات و واقعات کے زیر اثر عصری حیثیت کے مظہر ایسے اشعار بھی ان کے ہاں وافر نظر آتے ہیں :
ہمارے حلق میں پھنستا رہا نوالۂ تر
ہماری آنکھ میں صومالیہ رہا پہروں
دلا دی قتل کے فتوے نے شہرت
دعا سلمان دے ایرانیوں کو پ
رؤف خیر کے افکار پر مذہب کی چھاپ بہت گہری ہے جس میں غالباً جناب مصلح الدین سعدی کی صحبت کا اثر ہے جنھیں انھوں نے ’’ پیر خیر‘‘ کے لقب سے یاد کیا ہے اور جو جماعت اسلامی کے متاثرین میں سے تھے۔اپنی کتاب ’’دکن کے رتن اور ارباب فن ‘‘میں رؤف خیر خود رقم طراز ہیں ’’سعدی بھائی نے کوئی کتاب بھلے ہی نہ چھوڑی ہو، میں ان کی کتاب ہوں ‘‘
رسول کریم ﷺ سے والہانہ عشق ہی نے ان سے واقعۂ طائف کی تصویر کشی کرتے ہوے ایسی خوبصورت نظم(نعت) تخلیق کر وائی جس کا مطلع ہے :
سنگ طائف کے بچوں کے ہاتھوں میں تھے آپ نے اُف نہ کی
پاؤں نعلین میں خون سے جم گئے آپ نے اُف نہ کی
یہ الگ بات ہے کہ رؤف خیر کا مذہب نفرت و فساد کا پرچار کرتے پھر تے روایتی ملا کا مذہب نہیں بلکہ اس میں فلسفیانہ افکار کی گہرائی ، انسانیات کی اعلیٰ و ارفع اقدار پر یقین کامل اور ایک مرد مومن کی عظمت کر دار کی جھلکیاں نظر آتی ہیں جو ان کے مندرجہ ذیل اشعار سے واضح ہے :
کر دار سے بہتر کوئی ہتھیار نہیں ہے
مومن کو ضرورت ہی نہیں تیر و تبر کی
جو مرد حق ہو وہ اکثر شہید ہوتا ہے
حریف حق تو جہنم رسید ہوتا ہے
رؤف خیر بھلا تم سے کیسے خوش ہو گا
وہ مولوی جو کسی مولوی سے خوش نہ ہوا
بلوا لو شیخ کو بھی پئے فاتحہ ضرور
کہنا کہ میکدے میں نیاز شراب ہے
ہم جیسے جیالے تو دکھا دیتے ہیں کر کے
پھرتے نہیں کرتے ہوئے تقریر ہمیشہ
٭٭٭٭٭٭٭٭