صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں


خطِ کشیدہ

2007ء

محمد یعقوب آسی

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                        ٹیکسٹ فائل

سانجھ کا چور


اللہ بھلا کرے نوید صادق کا جنہوں نے انٹرنیٹ پر مجلس ادب کے نام سے ایک گروپ بنا ڈالا۔ اس گروپ میں میری شمولیت ۲۰۰۵ء کے اواخر میں ہوئی۔ اور اس کی وساطت سے میرا جن چند اہلِ دل سے رابطہ ہوا،ان میں جناب اقبال احمد قمر (جہلم)، جناب طارق اقبال بٹ (کراچی) اور جناب پرویز اختر (فیصل آباد) تینوں دوست سعودی عرب میں ہوتے ہیں۔بٹ صاحب ایک شہر میں رہتے ہیں جب کہ قمر صاحب اور اختر صاحب دوسرے شہر میں۔ان تینوں احباب میں اتنی گاڑھی چھنتی ہے اور باہمی روابط کا یہ عالم ہے کہ میں ان تینوں کو ایک دوسرے سے الگ سوچ ہی نہیں سکتا۔ مجلس میں یوں تو اس وقت ایک سو کے لگ بھگ لوگ شامل ہیں تاہم ادبی اور تنقیدی معاملات میں سرگرمی سے حصہ لینے والے گنے چنے دوست ہیں ان میں بھی یہی نمایاں نظرآتے ہیں اور ان کی طفیل میں بھی دکھائی دے جاتا ہوں۔ مختلف فن پاروں اور ادبی موضوعات پر ہونے والے مباحث کے دوران جو کبھی آن لائن ہوتے، کبھی ای میل یا کبھی ٹیلیفون کے ذریعے، قمر صاحب، بٹ صاحب اور اختر صاحب میں مجھے کچھ ایسی فکری اور محسوساتی ہم آہنگی نظر آئی جو بالعموم نایاب ہے۔ یہی وہ سانجھ ہے جس نے مجھے ان تینوں میں شامل کر لیا۔سانجھ کی حدیں کہاں تک ہواکرتی ہیں! اس کا اندازہ ان ایک دو واقعات سے ہو سکتا ہے جو میں ابھی تازہ کرنے چلاہوں۔

(۱) ایک بھائی کو اللہ عمرہ ادا کرنے کی توفیق عطا فرماتے ہیں، وہ مسجد حرام سے مجھے فون کرتا ہے: ''سنو، اس وقت خانہ کعبہ میرے سامنے ہے، بلند آواز میں تلبیہ پڑھ دو!'' میرے منہ سے بے اختیار نکلتا ہے ''لبیک، اللھم ...'' اور اس کے بعد الفاظ حلق میں پھنس جاتے ہیں، ہونٹ کانپتے رہ جاتے ہیں اور ''لبیک'' کا لفظ سینے میں ہلچل مچا دیتا ہے۔اسے باہر نکالنے کی کوشش کرتا ہوںتو وہ آنکھوں سے بہہ نکلتا ہے۔ میں کسی ایسے مقام پر پہنچ جاتا ہوںجہاں لفظ نہیں ہوتے، اشک ہوتے ہیں فقط! شاید دھڑکنیں بھی ہوتی ہوں۔

میرا سامانِ آخرت، مولا!

چشم نادم کا اک نگیں تنہا

(۲) دوسرا بھائی مسجد نبوی میں حاضر ہوتا ہے اور موبائل پر مجھے کہتا ہے: ''روضۂ رسول ؐ کے سامنے کھڑا ہوں، حاضری لگواؤ گے؟ جو کچھ پیش کر سکتے ہو کر دو!'' میں اپنی کم مائیگی کے بھرپور احساس کے ساتھ درود ابراہیمی پڑھنے لگتا ہوں تو الفاظ یوں دم سادھ لیتے ہیں کہ میں خود بھی گم سم ہو جاتا ہوں۔ خموشی، اور وہ بھی اس قدر کہ اپنی دھڑکن کنپٹیوں میں محسوس کرتا ہوں۔

... ... اور میرے حرف سارے

اس حبیب کبریا ؐ کے باب عزت پر

کھڑے ہیں دست بستہ

بے زباں

بے جرأت اظہار

حاشا!!

کوئی گستاخی نہ ہو جائے!

(۳) تیسرے بھائی کی سنئے۔ عید الفطر کے چوتھے پانچویں دن مجھے فون کیا، بولے: ''مبارک ہو! تم نے مشاعرہ لوٹ لیا،بھئی واہ! کیا نظم کہی ہے یار! اس واقعے کو پہلے یوں کسی نے بیان نہیں کیا!بھئی واہ!'' میں بہت حیران ہوا، پوچھا: ''یہ کس مشاعرے کی بات کر رہے ہیں، آپ؟ یہاں تو رمضان المبارک ابھی گزرا ہے، روزوں میں حلقے کے اجلاس ہوتے نہیں، اور میں کہیں کسی اور محفل میں گیا نہیں!'' ہنس دئے۔ بات کھلی کہ دمام میں ہونے والی ماہانہ محفلِ شعرمیں مظفر آباد کے زلزلے کے حوالے سے میری نظم پیش کر دی گئی جسے کمال پذیرائی حاصل ہوئی۔ ملاحظہ فرمایا آپ نے! یہ نظم ابھی یہاں کے دوستوں نے نہیں سنی تھی کہ میرے ان بھائیوں کے خلوص کی بدولت وہاں پہنچ گئی اورمیں دو ڈھائی ہزار میل دور منعقد ہونے والی اس نشست میں 'شریک غائب' ٹھہرا۔

سانجھیں ایسی بھی تو ہوا کرتی ہےں! یہیں پر بس نہیں۔ قمر صاحب کا شعری مجموعہ ''شام کی زد میں'' مجھ تک پہنچا۔ ایک ہی نشست میں پوری کتاب پڑھ ڈالی۔ فوری تاثر یہ بنا کہ قمر صاحب اور میرے بیچ ایک اور سانجھ بھی ہے! میں اسے سانجھ وچار کا نام دوں گا۔ یہاں ایک وضاحت کرتا چلوں کہ یہ کتاب ۲۰۰۲ء میں شائع ہوئی اور میرا قمر صاحب سے پہلا تعارف اکتوبر ۲۰۰۵ء میں ہوا۔ اس سے پہلے نہ میں نے کبھی ان کا نام سنا اور نہ وہ مجھ سے واقف تھے۔ مجھے بہت خوشگوار حیرت ہوئی جب میں نے ان کے کلام میں کتنے ہی ایسے مضامین دیکھے جو کہیں کہیں تو بعینہٖ اور کہیں کسی قدر فرق کے ساتھ میں بھی اپنے اشعار میں باندھ چکا ہوں۔ مشتے از خروارے کے مصداق، چند مثالیں پیش کرتا ہوں۔کوئی تشریح نہیں کروں گا، کہ آپ خود صاحبانِ نظر ہیں، دیکھ لیں گے۔ ہر جفت میں پہلا شعر قمرصاحب کا ہے اور دوسرا میرا ہے۔

٭٭٭

وہ اک دیا جو مرے دل میں ٹمٹماتا ہے

وہی تو ظلمتِ ہستی میں رہنما ہوگا

چلو سوچوں کے جگنو پالتے ہیں

کہ امیدِسحر باقی نہیں ہے

٭

پاس رہ کر بھی کسی کو دیکھتا کوئی نہیں

دورجیسے دور ہیں گو فاصلہ کوئی نہیں

ایک بستر پہ سو گئے دونوں

درمیاں دوریاں بچھائے ہوئے

٭

یہ روح کیا ہے شعور کیا ہے زمین کیوں آسمان کیوں ہیں

یہ تہ بہ تہ کیا حقیقتیں ہیں ترے مرے درمیان کیوں ہیں

یہ چراغ جاں کا جو دود ہے، سر سر سپہر کبود ہے

یہ جمال بود و نبود ہے یہاں روشنی سی ڈھکی رہی

٭

ہمیں طوفاں کا ڈر ایسا نہیں تھا

مگر اپنا ہی گھر ایسا نہیں تھا

ہم سا بے خانماں ہو کسی رنج میں مبتلا کس لئے

اپنا گھر ہی نہ تھا تھک گئیں آندھیاں ڈھونڈتے ڈھونڈتے

٭

ان اندھیروں کی گھٹن پہلے ہی ہم کو کم نہ تھی

تو نے تو آنکھوں کو خیرہ کر دیا، اے روشنی

دن دا چانن اکھاں کھلن نہیں دیندا

رات پوے تے آوے خوف ہنیرے توں

٭

یہ سناٹا تو اپنی ذات کا ہے

سکوتِ بام و در ایسا نہیں تھا

بکل وچہ لکوئی بیٹھا

ہر کوئی اپنی اپنی چپ

٭

اب تو دل کی دھڑکن سے بھی ڈر لگتا ہے

اک سناٹا ہے جو کھنڈر میں ٹھہر گیا ہے

اندر مچے نیں کرلاٹ

کندھاں اتے لکھی چپ

٭

اپنے شہر کی وہ سب رسمیں ہم نے بھی اپنا لی ہیں

جن میں باطن والوں کا بھی ظاہر دیکھا جاتا ہے

غرور پارسائی حضرت ناصح ہمیں بھی تھا تمہیں بھی تھا

تمہارے شہر میں تم جیسا ہو جانے کو جی چاہا سو کر گزرے

٭

اپنے باطن میں مت جھانکو ورنہ خود ڈرجاؤ گے

دیکھ نہ پاؤ گے اس میں کیسی کیسی تصویریں ہیں

کیسے کیسے کس کس کے

عپب چھپاتی ہیں راتیں

٭

ضرورت ہو جسے وہ کوچ کا اعلان کر دے

کوئی آئے نہ آئے اپنا تو ہے ہم سفر دل

شدتِ شوقِ سفر مت پوچھئے

ناتواں دل کو لیا اور چل دئے

٭

وقت رخصت وہ گلے مل کے مرے یوں رویا

جیسے گرتی ہوئی دیوار پہ دیوار گرے

وقت رخصت پیش کرنے کے لئے کچھ بھی نہیں

اشک جنتے تھے ترے آنے پہ جگنو کر دئے

٭

کس بات پر زمانہ نگاہیں بدل گیا

میں اتفاق سے ذرا آگے نکل گیا

رہنما یوں بھی ہے برہم مجھ پر

راستہ اس سے نہ پوچھا میں نے

٭

چھوڑےے بھی تاویلیں ختم کیجئے قصہ

دل کا حال چہرے پر کیا رقم نہیں ہوتا

اسی لئے تو میں کہہ رہا تھا کہ کچھ نہ کہنا

صدا نے اندر کا حال چہروں پہ لکھ دیا ہے

٭

پھوڑنے آتے ہیں سب دل کے پھپھولے لیکن

بانٹنے آتا نہیں پاؤں کے چھالے کوئی

سکھ دے سانجھی سبھے یار

کوئی کوئی آن ونڈاوے دکھ

٭

کس طرح ہم نے گزاری رات یہ جانے گا کون

صبح ہونے تک تو بجھ کر سب دیے رہ جائیں گے

جلتی آنکھیں بستر کانٹے آخر شب

مرتے ہیں پلکوں پر اختر خاموشی

٭

ہوئے مانوس ہم صحرا سے اتنے

نظرآتا ہے صحرا خواب میںبھی

کوئی صحرا سے آسیؔ کو بلا لو

حرارت سے شناسائی تو ہوگی

٭

اک لفظ ساتھ لاتاہے کتنی حکایتیں

اک راہ سے نکلتے ہیں رستے ہزار اور

سانوں پاگئے لمے راہ

اس دے اڑدے پھڑدے بول

٭

اپنی آواز الگ سے بھی کوئی رکھتا ہے

سب کی آواز میں آواز ملانے والا

یہ کیا کم ہے کہ میں تنہا نہیں ہوں

یہاں کوئی تو مجھ سا بولتا ہے

٭

جب بھی ہاتھوں میں چراغ آتا ہے اس چہرے کا

حرفِ آئینہ کی تفسیر بدل جاتی ہے

ہاں مجھے دیکھ مری ذات میں گم سا ہو کر

میں نگاہوں سے تری اپنا نظارہ کر لوں

٭

مجھ کو قمر خبر ہے کہ وہ عافیت سے سے

اس کو سکوں نہ ہو تو مجھے بے کلی تو ہو

دل اداس ہو گیا اے

کدھرے تاراں ہَلیاں

٭

اس نے دکھلائے ہیں کیسے کیسے خواب

چھین لئے ہیں مجھ سے میرے اپنے خواب

کیسے کیسے ان ہونے

خواب دکھاتی ہیں راتیں

٭

میری تمنا آنکھیں بچے تارے پھول

جیسا کوئی سوچے اس کے ویسے خواب

آلے بھولے گھگو گھوڑے

ویکھ ویکھ نہ رجن اکھاں

٭

مدت بعد بڑے آرام سے سویا ہوں

یہ بستی میرے دشمن کی بستی ہے

ویریاں دی لوڑ اے

یاراں راہواں ملیاں

٭

اپنا سب کچھ بانٹ دیا ہے لوگوں میں

بس اک تیری یاد بچا کر رکھی ہے

میں اپنی آواز جہاں میں بانٹ آیا

رہ گئی میری ذات کے اندر خاموشی

٭٭٭

صاحبان! میری ان گزارشات کو کسی انداز میں بھی کوئی تنقیدی مضمون نہ سمجھئے گا، میں نے تو سانجھ ونڈ کی ہے اور اپنی آواز آپ میں بانٹ دی ہے۔ مجھے اور کچھ نہیں کہنا، کوئی سرقۂخفی کا الزام لگائے یا سرقۂ جلی کا۔ الزام ثابت بھی ہو جائے تو،اچھا ہے نا! اگر میںنے یا قمر صاحب نے کچھ چرایا بھی ہے تو ایک سانجھ ہی توچرائی ہے۔ اور ایسی چوری پر شرمندگی کاہے کو!؟

***

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                        ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول