صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں


کراچی کی کہانی

پیر علی محمد راشدی

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                       ٹیکسٹ فائل

اقتباس

     جو کراچی ہم نے آگے دیکھا تھا اُس کا اب نام و نشان باقی نہیں رہا ہے ، سوائے چند پرانی عمارتوں کے ، جن کی کھڑکیوں میں دھوئے ہوے گندے میلے کپڑے دھوپ میں سوکھنے کے لیے لٹکے ہوئے ہیں۔
    کیا حال سناؤں پرانے کراچی کا؟ لفظوں کے لباس میں اُس ماحول کو سامنے نہیں لا سکتا۔ وہ کراچی شہر نہ تھا، گلشن تھا، گلستان تھا۔ آبادی ڈھائی تین لاکھ کی تھی۔ صفائی میں پورے برصغیر میں پہلے نمبر پر۔ وہ تین لاکھ کی آبادی خوش حال، صاف ستھری اور عمدہ تھی جسے اپنے شہر کی شان کا پورا احساس تھا۔ لوگ سڑکوں پر نرمی سے قدم رکھتے تھے جیسے پیروں کے نیچے پھول بچھے ہوں۔ یعنی سڑکوں تک کا احترام ملحوظ رکھا جاتا تھا۔ بڑی بات یہ کہ نہ غنڈوں کا خوف تھا نہ چھُرا بازوں کا ، نہ لٹیروں کا نہ مسجدوں سے جوتیاں چُرانے والوں کا، نہ مکھیوں کا نہ مچھروں کا۔ اس قسم کے لوگوں یا کیڑے مکوڑوں کو جرأت ہی نہ ہوتی تھی کہ کراچی کا قصد کریں۔ پورے شہر میں دو سٹی میجسٹریٹ ہوتے تھے __ رچرڈسن اور تلاتھی پارسی __ جو زیادہ تر ٹریفک، سڑک کی رکاوٹوں یا جانوروں کے ساتھ بے رحمی کے متعلق معمولی مقدمے چلایا کرتے۔ جانوروں کا ذکر آیا ہے تو یہ بھی سن لیجیے کہ کراچی کے جانوروں کے حقوق کا بھی احترام کیا جاتا تھا۔ کسی گاڑی والے کی مجال نہ تھی کہ مقررہ تعداد سے زیادہ سواریاں بٹھائے یا بیمار یا زخمی جانور گاڑی میں جوتے۔ جانوروں کے ساتھ بے رحمی کے واقعات روکنے کے لیے باقاعدہ سوسائٹیاں ہوتی تھی اور ان کے عہدے دار اور آنریری میجسٹریٹ روز شہر میں گھومتے تھے۔ زخمی جانوروں کے علاج کے لیے ایک بڑا اسپتال تھا اور ان کی پیاس بجھانے کے لیے ہر چوک پر ایک فوّارہ بنوایا گیا تھا جس سے رات دن ٹھنڈا پانی نکلا کرتا۔ یہ فوّارے زیادہ تر مالدار پارسیوں نے اپنے مرحوم بزرگوں کی یاد قائم رکھنے کے لیے بنوائے تھے۔ ہندوؤں نے گئوشالا کھول رکھی تھی جس میں بیمار یا ریٹائرڈ گائیں، بیل اور بھینسیں رہتی، کھاتی پیتی اور زندگی کے باقی ماندہ دن پورے کرتی تھیں۔ دو واقعات کراچی والوں کی انسانیت اور رحم دلی کے مثال کے طور پر سناتا ہوں۔ مسٹر جمشید مہتا کراچی میونسپلٹی کے صدر تھے اور سالہا سال بلا مقابلہ اس عہدے پر منتخب ہوتے رہے۔ ۱۹۳۰ کے آس پاس مَیں بندر  روڈ سے گزر رہا تھا۔ دیکھا کہ جمشید مہتا پیدل ایک زخمی گدھے کو لے کر اسپتال کی طرف جا رہے ہیں۔ ان کی موٹر ان کا ڈرائیور پیچھے پیچھے چلاتا آ رہا تھا۔ تماشا دیکھنے کے لیے میں بھی اسپتال کے برآمدے میں جا کھڑا ہوا۔ جمشید نے اپنے سامنے گدھے کی مرہم پٹّی کرائی اور ڈاکٹر سے بار بار کہتے رہے کہ زخم کو آہستہ صاف کرے تاکہ بے زبان کو ایذا نہ پہنچے۔ مرہم پٹی ختم ہوئی تو ڈاکٹر کو ہدایت کی کہ گدھے کو ان کے ذاتی خرچ پر اسپتال میں رکھا جائے ، اور دانے گھاس کے لیے کچھ رقم بھی اسپتال میں جمع کرا دی۔ دوسری طرف گدھے کے مالک سے بھی کہا کہ جب تک گدھے کا علاج پورا نہ ہو جائے اور وہ کام کرنے کے قابل نہ ہو جائے ، تب تک وہ اپنی مزدوری کا حساب اُن سے لے لیا کرے ، اور یہ کہتے ہوے کچھ نوٹ پیشگی ہی اسے دے دیے۔
    دوسری بار میں نے ایک اَور سربرآوردہ پارسی جہانگیر پنتھکی کو دیکھا کہ وہ الفنسٹن اسٹریٹ پر ایک کرائے کی وکٹوریا گاڑی کو پولیس کی مدد سے روکے کھڑے ہیں اور کوچوان سے بحث کر رہے ہیں۔ بحث کا موضوع یہ تھا کہ گھوڑا بہت لاغر اور بیمار ہے ، اس لیے مناسب ہے کہ گھوڑے کو گاڑی سے الگ کر کے دو چار دن اس کا علاج کرایا جائے اور دانہ گھاس کھلا کر اسے کام کے قابل بنایا جائے۔
    کوچوان کہیں باہر سے آیا ہوا تھا۔ اسے کراچی کا دستور معلوم نہ تھا، اس لیے وہ پنتھکی کی بات سمجھ نہ سکا، ان سے تکرار کرتا رہا اور آخر غصّے میں آ کر چابک مار کر گاڑی آگے بڑھانے لگا۔ پنتھکی فرسٹ کلاس میجسٹریٹ بھی تھے۔ انھوں نے پولیس سے کوچوان کو گرفتار کرا کے جیل بھجوایا، گھوڑے کو اسپتال بھیجا اور گاڑی کو دھکیلوا کر صدر پولیس تھانے کے احاطے میں کھڑا کرا دیا۔
    یہ واقعات بیان کرنے کا مقصد یہ دکھانا ہے کہ کراچی کے حیوانوں کی بھی عزت اور شان تھی ، ان کے بھی قانونی حقوق تھے جن کا احترام کیا جاتا تھا۔
    کراچی سے میرا تعارف پہلی بار شاید ۱۹۱۷ کے لگ بھگ ہوا تھا۔ پہلی عالمی جنگ جاری تھی، مگر ہمیں فقط اخباروں کے وسیلے سے خبر پہنچتی تھی کہ ایسی کوئی جنگ ہو رہی ہے ، ورنہ روزمرہ کی زندگی پر اس کا کوئی اثر نہیں تھا، انگریز نے ایسا اچھا بندوبست کر رکھا تھا۔
    آج کل تو سواری کے تیز ذریعوں نے پوری دنیا کو سکیڑ دیا ہے ، مگر اُن دنوں کراچی کا سفر بھی بڑا سفر سمجھا جاتا تھا۔ لوگ بہت پہلے سے تیاریاں کرتے ، یار دوستوں کو اطلاع دیتے کہ آب و ہوا کی تبدیلی کے لیے کراچی کے سفر کا قصد ہے۔ کراچی کو انگریزی داں "کراچی" کہتے تھے اور عام گنوار لوگ "کاراچی"، کراچی ابھی "کِرانچی" نہیں بنا تھا۔
    اس سفر کے لیے موزوں موسم مئی، جون، جولائی کا ہوتا تھا جب بالائی سندھ میں گرمیاں اور مچھر لوگوں کی جان عذاب میں کر دیتے تھے۔ روپوں کی ریل پیل تب چھوٹے موٹے زمینداروں کے پاس بھی نہ ہوتی تھی۔ اُس زمانے میں وڈیرے کراچی تبھی جا سکتے تھے جب ربیع کی فصل اترے ، جنس بکے اور بیوپاری دھوتی کے پلّو سے نوٹوں کی گڈی اور سکوں کی تھیلی برآمد کر کے رقم ان کے حوالے کرے۔ بیوپاری بھی اُستاد ہوتے تھے ، انھیں خبر تھی کہ جب سخت گھُٹن ہو گی اور مچھر وڈیرے کی نیند حرام کر دیں گے ، اُس وقت وڈیرا کراچی جانے کے لیے بے تاب ہو کر جنس اونے پونے داموں ٹھکانے لگا کر بھاگ جائے گا۔ ان دو تین ہفتوں میں وڈیرے اور بنیے کے درمیان دلچسپ کھینچا تانی چلتی رہتی۔ آخر وڈیرا تنگ آ کر سستے داموں انبار بیچ کر کراچی جانے کے لیے کمر کس لیتا۔
    صدر کے علاقے میں انگریز رہتے تھے ، اس لیے بے ادبی کے ڈر سے وہ صدر  [کینٹ ] اسٹیشن پر نہ اُترتا، سیدھا سٹی اسٹیشن پر جا کر سامان اتارتا۔ دو آنے قلی کو دے کر بستر بند میں لپٹی رَلی اور لوہے کا صندوق باہر نکلواتا اور آٹھ آنے کرائے پر وکٹوریا گاڑی کر کے بندر روڈ پر مولو (مولے ڈنا) مسافر خانے میں جا اترتا۔ وہاں خاص کمرہ لے تو آٹھ آنے کرایہ اور عام کمرہ لے تو نامِ مولا مفت! سخت گرمی سے نکل کر ٹھنڈی آب و ہوا میں آنے کی وجہ سے پہلے دوچار دن تو نزلے زکام میں الجھ کر وہیں پڑا رہتا۔ بہت ہمت کرتا تو مولانا حکیم فتح محمد سیوہانی مرحوم کے دوا  خانے تک چلا جاتا۔ وہاں زکام کی پھیکی گولیاں پہلے سے موجود ہوتیں۔ حکیم صاحب مٹھی بھر کر گولیاں دیتے اور ہدایت کرتے کہ جب تک زکام ختم نہ ہو جائے باہر نہ نکلے ، مبادا نمونیا ہو جائے۔
    غرض یہ تھا خاکہ اُن حالات کا جس کے تحت سندھ کے دیہات کے لوگ کراچی کی زیارت یا سیّاحت کے لیے آتے تھے۔
    خوش قسمتی سے ان حالات کا اطلاق ہمارے گھر پر نہ ہوتا تھا۔ کراچی کے بڑے بڑے بیوپاری اور مالدار میمن ہمارے بزرگوں کے مرید تھے۔ گرمیوں کا زمانہ آتا تو وہ خود پہلے سے سارا بندوبست کر لیا کرتے۔ فقط ہمارے پہنچنے کی دیر ہوتی۔ کراچی پہنچنے پر رہنے کے لیے محل ماڑیاں، سواری کے لیے دو گھوڑوں والی گاڑیاں (بعد میں موٹریں) اور کھانے پینے کے لیے ہر روز ہر کھانے پر سات غذائیں تیار۔ کھاؤ پیو، گھومو پھرو، خدا کا احسان مانو اور بڑوں کے کیے کمائے کے لیے ان پر صلواة و سلام بھیجو۔
    ہماری روانگی گاؤں کے ریلوے اسٹیشن نصرت سے شام کے وقت ہوتی۔ کراچی کے تصوّر میں دل اُچھلتا کہ ابھی جنگل کے جہنّم سے نکل کر کراچی کی جنّت میں پہنچے جاتے ہیں۔ بارہ گھنٹے کا سفر ہوتا تھا۔ سیکنڈ کلاس کے ڈبے اکثر ہمارے اسٹیشن سے خالی گزرتے تھے اور فقط لاڑکانے پہنچنے پر دوسرے مسافر ان میں سوار ہوتے۔ (فرسٹ کلاس میں سوار ہونے کا سوال ہی نہ تھا، کیوں کہ اس میں انگریز افسر سفر کرتے تھے اور ان کے ساتھ سفر کرنے میں بے ادبی کا پہلو پیدا ہوتا تھا۔)
    جھنگ شاہی سے آگے نکلتے تو ٹھنڈی ہوا کے جھونکے جسم کو چومنا شروع کر دیتے۔ دابے جی پہنچنے تک جلد سے دانے ، خارش کے نشان اور مچھر کے کاٹے کی تمام شہادتیں مٹ چکی ہوتیں۔ بدن میں تازگی اور توانائی محسوس ہونے لگتی۔ پوری دنیا گھوم کر دیکھ لی، ایسی صاف، خوشبودار اور میٹھی ہوا سے پھر کہیں سابقہ نہ پڑا۔ پرانے کراچی کی یہ ٹھنڈی ہوا کیا تھی، اس کا اندازہ لگانا آج کل کے حالات میں ناممکن ہے۔ تمام ماحول موافق تھا، آسمان میں چھوٹے چھوٹے بادل، ہلکی ہلکی پھوار، بیچ میں کبھی کبھی بارش کا چھڑکاؤ، اور اس پر اس میٹھی ہوا کی سرسراہٹ! اس میں غیر صحت بخش اجزا کی ملاوٹ کا سوال ہی نہ تھا۔ پورا شہر صاف ستھرا تھا، نہ گندگی نہ کوڑا کرکٹ، نہ ننگے تالاب نہ گندے پانی کے جوہڑ، نہ کھلے ہوے گٹر نہ گٹروں کے ڈھکن چرائے ہوے ، نہ کچی بستیوں کا وجود نہ سڑکوں پر بول و براز کی آزادی، نہ موٹروں، بسوں اور رکشاؤں کا دھواں نہ پچاس لاکھ لوگوں کی تحلیلِ ریاح کا مسئلہ، نہ سڑکوں پر سگریٹ کے ٹکڑے نہ دیواروں پر پان کی پیکیں۔ پھر کراچی کی ہوا صاف کیوں نہ رہتی؟
    صدر ریلوے اسٹیشن کے قریب پہنچنے پر داہنے ہاتھ دور ہی سے وائرلیس کے کھمبے دکھائی دینے لگتے۔ اُس زمانے میں لوگوں کی سمجھ ہی میں نہ آتا تھا کہ بغیر تار کے پیغام کیوں کر آ جا سکتے ہیں۔ گاڑی پلیٹ فارم پر رکتی تو سیکنڈ کلاس کے ڈبوں میں قلی داخل ہو جاتے۔ وہ ایک آنہ مزدوری لے کر سامان باہر کھڑی وکٹوریا گاڑیوں میں رکھ دیتے۔ گاڑیاں زیادہ ہوتیں، مسافر کم۔ کسی دھکم پیل کے بغیر آرام سے گاڑی میں بیٹھ کر فریئر ہال کی سڑک سے صدر کی طرف جایا جاتا۔ پہلے کارلٹن ہوٹل آتا، جس کے کھنڈر آج بھی نظر آتے ہیں، مگر اُس زمانے میں وہ صرف انگریزوں کے رہنے کے لیے مخصوص تھا۔ بہت برس گزرنے کے بعد اس میں فیشن ایبل دیسیوں کو بھی رہنے کی اجازت ملی، یا جرأت ہوئی۔ کارلٹن کے سامنے والی سڑک کے بائیں ہاتھ پر ابھی مکانات نہیں بنے تھے ، خالی میدان پڑا تھا۔ صرف بیچ میں ایک چھوٹی سی مارکیٹ ہوتی تھی جہاں سے آس پاس کے بنگلوں میں رہنے والے سبزی ترکاری لیا کرتے۔
    آگے بڑھتے تو فریئر ہال کے پاس سے گزر ہوتا۔ چاروں طرف وسیع باغ، ملکہ اور بادشاہ کے بُت اور خود عمارت کا عجیب طرز دیکھ کر لوگ دانتوں میں انگلیاں داب لیتے۔ (آزادی کے بعد یہ مجسمے ہماری بُت شکنی کی نذر ہو گئے یا کہیں چھپا دیے گئے !) اس کے بعد فلیگ اسٹاف ہاؤس آتا جس میں فوج کا کمانڈنگ آفیسر رہتا تھا۔ دروازے کے باہر سڑک پر دو توپیں کھڑی تھیں۔ توپوں میں سے جان تو نکل چکی تھی، صرف نمائش کے لیے رکھی ہوئی تھیں، پھر بھی گاڑی والے کو ہدایت کی جاتی کہ توپوں سے ذرا ہٹ کر چلے ، کیا پتا!
    الفنسٹن اسٹریٹ کی "چھاپیں" (shops) دیکھ کر لوگوں میں احساسِ کمتری پیدا ہوتا تھا۔ میمنوں کی دوچار دکانوں کے سوا باقی سب دکانیں انگریزوں، پارسیوں اور ہندو عاملوں کی تھیں، مگر صدر کی دکانوں کا مہندار تب بھی میمن حاجی ڈوسل ہوتا تھا۔ سب سے بڑی دکان، ہر قسم کا سامان، عمدہ دھاگے سے لے کر اعلیٰ درجے کی بندوقوں تک، اس ایک ہی دکان سے مل جاتا تھا۔ البتّہ دکان میں داخل ہونے سے پہلے بوٹ صاف کرائے جاتے ، کوٹ کے بٹن بند کیے جاتے اور داڑھی مونچھوں کو ہاتھ پھیر کر درست کیا جاتا، کیوں کہ اندیشہ ہوتا کہ اندر داخل ہونے پر کسی انگریز افسر سے سامنا نہ ہو جائے۔ سندھیوں کو اپنے سے اونچے لوگوں کے ادب کے تقاضے ہر وقت اور ہر جگہ یاد رہتے ہیں۔
    ڈوسل کی دکان ایک ادارہ تھی۔ سندھ کے تقریباً تمام وڈیرے ، میر اور پیر اس دکان کے مقروض ہوتے تھے اور فصل کٹنے پر سال بھر کی کمائی کا بڑا حصّہ انھیں ڈوسل کا اُدھار چکانے میں صرف کرنا پڑتا تھا۔ ان لوگوں کی مار بندوقوں، کارتوسوں، ولایتی بسکٹوں اور خوشبودار صابن پر ہوتی تھی، اور ان جنسوں کی ڈوسل کے پاس کوئی کمی نہ تھی۔ دکان میں رکھا ہوا دوسرا سامان اکثر ان کی سمجھ ہی میں نہ آتا تھا، اس لیے اس کے قریب نہ پھٹکتے۔ کچھ چنیدہ بڑے آدمی شام کے وقت ڈوسل کی دکان کے باہر چبوترے پر بید کی کرسیاں ڈال کر بیٹھ جاتے کہ کوئی افسر یا اس کی میم گزرے تو اٹھ کر اسے سلام کریں۔ ایک لحاظ سے ڈوسل کی دکان کے سامنے بیٹھنا خود عزت کی نشانی سمجھا جاتا تھا۔
    ہور نامی ایک انگریز درزی کی دکان، اسی الفنسٹن اسٹریٹ پر، نئے فیشن کے دلدادہ وڈیروں کی دل چسپی کا مرکز ہوتی تھی۔ سندھی پڑھے ہوے لوگ فقط قمیص میں بو ٹائی لگانے پر اکتفا کرتے ، انگریزی کے دوچار درجے پڑھے ہوے ہوتے تو ہور سے سوٹ سلوا کر پہنتے ، مگر انگریز اہلکاروں کے پاس اکثر سوٹ پہن کر نہ جاتے مبادا صاحب کو خیال گزرے کہ وڈیرا انگریزوں کی ہمسری کر رہا ہے۔ اس سے کچھ آگے جے بلِس کی دکان تھی جہاں انگریزی دواؤں کے علاوہ اعلیٰ ترین ولایتی سینٹ، صابن وغیرہ مل سکتے تھے۔ فیشن ایبل لوگ وہاں کا بھی چکر لگاتے۔ دکان کے باہر بڑے بڑے شیشے لگے ہوے تھے۔ زیادہ تر لوگ باہر کھڑے ہو کر شیشے میں سے اندر کا نظارہ کرتے اور کہتے : "واہ رے انگریز واہ!" دکان یوروپی طرز میں آراستہ کی گئی تھی۔ ایک بار سندھ کے ایک بزرگ کوئی چیز لینے اس دکان میں داخل ہوے۔ مریدوں کو معلوم ہوا تو وہ لاٹھیاں لے کر آ پہنچے اور بلِس کی دکان کے شیشے توڑ کر اس کے ٹکڑے تبرّک کے طور پر اپنے ساتھ لے گئے۔ بزرگ نے بلِس کو اس نقصان کا معاوضہ دیا (مبادا بلِس، جو انگریز تھا، سندھ کے کمشنر صاحب سے جا کر شکایت کر دے ) اور شاید یہ وعدہ بھی کیا کہ آئندہ اس دکان میں داخل نہیں ہوں گے۔ اسی طرح کی ایک دکان اسپیچلی نامی انگریز کی بھی تھی۔ وہاں بھی دوائیں اور خوشبو کا سامان ملتا تھا۔

۔۔۔ اقتباس

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                       ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول