صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں


کراچی

زینت حسام

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                       ٹیکسٹ فائل

اقتباس

    مجھے میٹھادر کے اس گھر کا صرف لکڑی کا وہ زینہ یاد ہے جس پر چلنے سے دھمک پیدا ہوتی تھی۔ ہم بچے اس پر کود کود کر چڑھتے اترتے اور وہ دھمک ایک گونج میں بدل جاتی۔ یا پھر پرانی وضع کے خوبصورت نمونے والے ٹائلوں سے بنا چمکدار فرش۔ میٹھادر کے بازار میں واقع اس چھوٹے سے چار منزلہ مکان کے نچلے حصے میں جوتوں کی دکان تھی اور ہر منزل پر دو کمروں پر مشتمل ایک فلیٹ۔ پہلی منزل پر دادا دادی اور دادا کی پہلی مرحوم بیوی کی اولاد، جنھیں سب بچے محمود بھائی کہتے تھے ، دوسری منزل پر بڑے ابا کا کنبہ، تیسری منزل پر امی ابا اور ہم بہن بھائی (اس وقت ہم دو بہنیں اور دو بھائی تھے ) اور چوتھی منزل پر چچا کا کنبہ۔ میں اسی گھر میں پیدا ہوئی تھی۔ ۱۹۵۲ میں۔ کھارادر کے میٹرنٹی اسپتال میں کام کرنے والی ایک عیسائی نرس کی نگرانی میں۔

    ابا بیس سال کی عمر میں، ستمبر ۱۹۴۷ میں، کانپور سے کراچی آئے تھے ، امی اور ایک سالہ ضیاء (بھائی)، اور محمود بھائی کے ساتھ۔ پھر چچا اور تایا کا کنبہ آیا اور اس کے بعد دادا دادی کو بلایا گیا۔ چھوٹے تایا کانپور چھوڑنے کو تیار نہ ہوئے اور نہ ہی کوئی پھوپھا۔ لہذا چاروں پھوپھیاں بھی اور ان گنت رشتے دار وہیں رہے۔ نانی نانا اور ماموں ممانی امی کی خاطر پاکستان آ گئے تھے۔ دادا، حاجی نظام الدین، کا شمار مسلمانوں کے محلے کرنل گنج کے معزز لوگوں میں ہوتا تھا۔ دادا کا کپڑوں کی چھپائی، بلاک پرنٹنگ، کا ایک چھوٹا سا کارخانہ تھا۔ دادا نمازی پرہیز گار تھے۔ اور بیٹوں کو بھی دین کی طرف راغب کیا۔ ایک مولوی بچوں کی تعلیم پر مامور تھے۔ بچے اسکول بھی جاتے لیکن زور دینی تعلیم پر رہا۔ مولوی صاحب مغربی تعلیم کے سخت خلاف تھے اور دادا کو، بقول ابا، بھڑکایا کرتے ، کہ بچوں کو اسکول بھیجنے کی کیا ضرورت ہے۔ ابا باغی نکلے۔ مسجد سے بھاگتے۔ مولوی سے چڑتے۔ ابا کا کہنا ہے کہ ان خاندانی مولوی نے ابا کو دین کی طرف راغب کرنے کے لیے اتنا زچ کیا کہ ابا کا دل دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ دنیاوی تعلیم سے بھی اچاٹ ہو گیا۔ چھٹی پاس کرنے کے بعد ابا نے اسکول کا دوبارہ رخ نہ کیا۔ کاروبار سے بھی ابا کو رغبت نہ تھی۔ ان کے مشغلے تھے : فلمیں دیکھنا، کتابیں پڑھنا دوستوں میں رہنا، گھومنا پھرنا، کباڑیوں کی دکانوں میں جانا، انوکھی چیزیں،خاص طور پہ پرانے کیمرے خریدنا اور تصویریں بنانا۔ تقسیم ہند سے پہلے ابا نے اپنی کھینچی ہوئی ایک تصویر السٹریڈڈ  ویکلی آف انڈیا، کے ایک انعامی مقابلے میں بھیجی تھی جس کو انعام بھی ملا تھا۔ابا کے پاؤں میں چکر تھا۔ دل میں جنوں۔ لڑکپن ہی میں ہندوستان کے کئی شہر گھوم چکے تھے۔ اکثر دادا سے جھگڑ کر گھر چھوڑ جاتے۔ دوسری جنگ عظیم کے زمانے میں جب جرمنی نے برما پر حملہ کیا تو آسام خالی ہونے لگا۔ ابا نے ٹرین پکڑی اور آسام روانہ ہو گئے۔ ابا بتاتے ہیں اس ٹرین میں واحد مسافر ابا تھے۔ لڑکپن میں عشق ہو گیا تھا۔ ابا نے دھمکی دی کہ اگر اس لڑکی سے ان کی شادی نہ ہوئی تو وہ زہر کھا لیں گے۔ لیکن دادا بھی ضد کے پکے تھے۔ ابا اس بات پر بھی گھر چھوڑ کر چلے گئے تھے۔ پھر ایک سال بعد امی سے ان کا بیاہ کر دیا گیا۔ امی دادا کی پسند تھیں۔

    کراچی میں میٹھادر کے قریب کاغذی بازار میں نظام سلک ہاؤس کے نام سے بنارسی ساریوں ،کمخواب، زربفت کا مشترکہ کاروبار شروع کیا گیا۔ دکان میں ایک دو چھتی ہوا کرتی تھی۔ ابا کو اب تک دکانداری سے دلچسپی نہ ہوئی تھی۔ انھوں نے دو چھتی پر دیوار سے لگے لکڑی کے کھانچوں پر اپنی جمع کی ہوئی کتابیں سلیقے سے جمائیں۔ جب ابا کراچی آئے تھے تو کتابوں سے بھرے کئی صندوق کانپور کی کسی لائبریری کو دے دیے تھے اور صرف تین چار صندوق ہی ساتھ لا سکے تھے۔ دو چھتی میں فرش اور چاندنی بچھائی گئی تھی اور گاؤ تکیے رکھے ہوے تھے۔ دکان کی یہ دوچھتی دوپہر کے کھانے اور قیلولے کے لیے استعمال ہوتی تھی۔ ابا یا تو دکان میں پائے ہی نہ جاتے۔ آتے بھی تو سب سے گپ شب کر کے دوچھتی میں بیٹھ کر کتابیں پڑھا کرتے تھے۔ گھر چھوٹا تھا اس لیے وہاں دو چار کتابوں سے زیادہ نہ رکھتے تھے۔ کتابوں کا ذخیرہ اردو ادب اور شاعری کے نسخوں، دیوانوں، ادب لطیف، عالمگیر، ہمایوں، ساتھی اور دوسرے رسالوں کے انبار پر مشتمل تھا۔ پچاس کی دہائی میں پاکستان سے نکلنے والے تمام رسالے ، سویرا، نقوش، داستان گو، لیل و نہار، نصرت وغیرہ کے تمام شمارے ابا محنت سے سنبھال کر رکھتے تھے۔ اکثر رسالوں کی خود نیلے رنگ کی جلد بناتے اور اپنا نام emboss کرتے۔ یہ کام ابا کانپور میں بھی کرتے تھے۔ کتابوں کی دنیا سے میرا پہلا تعارف کاغذی بازار کی دکان کی اسی دوچھتی میں ہوا۔

    میں جب پانچ برس کی ہوئی تو یہ مشترکہ خاندان میٹھادر سے اٹھ کر پیر الہٰی بخش کالونی کے ایک دو منزلہ مکان میں منتقل ہو گیا تھا جس میں لگے امرود کے پیڑوں کی پھل دار شاخیں دوسری منزل کے کمرے کی کھڑکی اور جچھے تک آتی تھیں۔ ہم بچے چلچلاتی دوپہر کی خاموشی میں کچے امرود توڑ توڑ کر کھاتے اور پیر کالونی کی خاک آلود گلیوں میں کھیلا کرتے۔ ایک سال بعد پھر نقل مکانی ہوئی۔ دادا کا انتقال ہو چکا تھا۔ محمود بھائی اپنے کنبے کے ساتھ ملیر جا بسے تھے۔ اب ہم سب لوگ شہید ملت روڈ سے متصل پنجابی سوداگران ہاؤسنگ سوسائٹی میں واقع کرایے کے دو منزلہ مکان میں اٹھ آئے تھے جس میں چار فلیٹ تھے۔ ایک فلیٹ میں دہلی کا ایک مختصر سا خاندان تھا (والدین اور دو لڑکے ، مسعود، ہارون)۔ باق تین فلیٹوں میں بڑے ابا، چچا، اور ابا اپنے اپنے ڈھیر سارے بچوں کے ساتھ رہائش پذیر ہوئے۔ یہ ۱۹۵۹ کی بات ہے۔

    تب کراچی کی زمین ہم بچوں کے لیے ایک وسیع کائنات تھی۔ سوسائٹی میں اکا دکا مکانات تھے۔ ہماری گلی میں صرف تین مکان تھے۔ ہمارے مکان سے متصل مالک مکان، تقی صاحب، کا گھر، اور گلی کے سرے پر ایک اور مکان۔ باقی پلاٹ خالی تھے۔ دوسری گلیوں میں بھی یہی صورت حال تھی۔ ہر گھر کے احاطے میں، اور احاطے سے باہر مختلف طرح کے پیڑ پودے ہوتے تھے۔ امرود، آم، شریفے ، گلاب، چمبیلی، موتیا احاطے کے اندر۔ اور باہر بادام، جامن، املی، نیم، گل مہر، بوگن ولا۔ ہمارے گھر کے عین مقابل ایک کھنڈر نما تھا۔ غالباً کسی نے چار دیواری اٹھائی تھی پھر کسی وجہ سے دیواریں منہدم کر دی گئی تھیں۔ اینٹوں کے ملبے ، ٹوٹی ہوئی دیواروں اور خودرو جھاڑیوں میں چھپکلیاں اور گرگٹ رینگا کرتے۔ احتشام بھائی جان اور انعام بھائی (میرے تایا زاد بھائی) گنیں لیے ان گرگٹوں کا شکار کیا کرتے۔ مجھ سے چھ برس بڑے ضیاء بھائی کا وقت انعام بھائی کے ساتھ گزرتا۔ نور الصباح، عائشہ، احترام (تایا زاد)، صبیحہ (چچا زاد)، میں، عذرا اور ریاض، ہم بچوں کا غول زیادہ وقت باہر ہی منڈلاتا رہتا۔ ہم سب بہن بھائیوں کو باہر گھومنے کی یکساں آزادی تھی۔ ہم گلیوں اور سڑکوں سے سگریٹوں کے خالی پیکٹ اکٹھا کر کے ان کے قلعے اور مینار بناتے ، جن کو بنانے سے زیادہ ڈھانے میں لطف آتا۔ کانچ کی چوڑیوں کے ٹکڑے چن کر انھیں آگ دکھا کر زنجیریں تیار کی جاتیں۔ تب کراچی میں کوڑے کرکٹ کے ڈھیر نہ ہوتے تھے۔ پلاسٹک کی تھیلیوں کا رواج نہ تھا۔ کاغذ کی پڑیوں یا پھر سلے ہوئے کپڑوں کے تھیلوں میں سودا آتا۔ سڑکوں پر کاغذ، سگریٹوں کے ڈبے اور ٹوٹی پھوٹی چیزیں پڑی تو ہوتی تھیں، لیکن گیلا کچرا نہ ہوتا تھا۔

    کراچی میں تتلیاں بھی بے تحاشا ہوتی تھیں۔ خاص طور پر برسات کے بعد۔ ہم بچوں نے تتلیوں کو مختلف نام دیے ہوئے تھے۔ سبز اور سیاہ بادشاہ تتلی، نارنجی پروں پر سیاہ و سفید دھبے والی ملکہ تتلی، نقرئی جامنی شہزادی تتلی۔ انعام بھائی نے ایک چھوٹا سا جالی کا ڈبہ بھی بنایا تھا جس میں وہ تتلیوں کو پکڑ کر بند کرتے۔ مجھے اور نور الصباح کو تتلیاں چھونے کا بڑا شوق تھا۔ ہم منت سماجت کر کے ڈبے سے تتلی نکلواتے پھر فخر کے ساتھ انگلیوں پر یہ اترے رنگ ایک دوسرے کو دکھاتے۔ بارش کے بعد میدان میں بیر بہوٹیاں امنڈ آتیں اور سب بچے ماچس کی خالی ڈبیائیں لیے بیر بہوٹیوں کو پکڑنے میں شام کر دیتے۔ پھر اپنی اپنی ڈھونڈی ہوئی بیر بہوٹیاں گنی جاتیں اور پھیلی ہوئی ہتھیلیوں پر رکھی سرخ مخملی مخلوق پر انگلیاں پھیری جاتیں۔ آج ۱۹۹۵ میں یہ بات یاد کرتے ہوئے بھی عجیب سا محسوس ہوتا ہے کہ کراچی میں کبھی بچے تتلیاں اور بیر بہوٹیاں پکڑا کرتے تھے۔ یا یہ کہ کبھی یہاں قدم قدم پر بڑے بڑے سبز پتوں والے بادام کے پیڑ ہوتے تھے اور زمین پکے ہوئی سرخ باداموں سے پٹی رہتی تھی۔ رفتہ رفتہ کراچی سے بادام، امرود، جامن، شریفے اور املی کے پیڑ غائب ہوتے گئے اور شہر سفیدے کی لپیٹ میں آ گیا۔

    ابا اور امی دونوں ہی کو کتابیں پڑھنے کا شوق تھا۔ امی بتاتی ہیں جن دنوں مجھ سے دو سال چھوٹی بہن پیدا ہوئی، امی صالحہ عابد حسین کا ناول "عذرا" پڑھ رہی تھیں۔ میرے بڑے بھائی، میرا اور اس بہن کا نام مولانا احتشام الحق (جن سے دادا کے خاندانی مراسم تھے ) نے تجویز کیے تھے : ضیاء الدین، زینت النساء، طلعت النساء۔ طلعت ان دنوں تین چار ماہ کی ہو گی۔ نام ساتویں دن طلعت رکھ دیا گیا تھا۔ لیکن امی کو عذرا ناول اس قدر بھایا کہ انھوں نے طلعت کا نام بدل کر عذرا رکھ دیا! امی ہم بچوں کو کہانیاں پڑھ کر سنایا کرتیں۔ کتابیں خریدنے کا شوق ضیاء بھائی، مجھے اور عذرا کو بھی تھا۔ ہم لوگ جیب خرچ کا زیادہ حصہ کتابیں اور رسالے خریدنے میں صرف کرتے۔ اس زمانے میں بچوں کی (اردو) کہانیاں چار آٹھ آنے ، روپے دو روپے میں آتی تھیں۔ انگریزی کی Archie کامکس اور رنگین با تصویر، عمدہ نیوز پرنٹ پر چھپی Fairy tales ایک روپے میں ایک ملا کرتیں۔ یہ ۱۹۶۰ کی دہائی کی بات ہے۔ ہم بچوں کی کتابیں اور رسالے تو گھر ہی میں لڑھکتے پھرتے لیکن ابا اب تک اپنی کتابوں اور رسالوں کا ذخیرہ کاغذی بازار میں واقع نظام سلک ہاؤس کی دوچھتی ہی میں کر رہے تھے۔ دو کمروں کا تنگ فلیٹ تھا اور بچوں کی بڑھتی ہوئی تعداد۔ ابا صرف چند ایک کتابیں دیوار میں بنی الماری میں رکھا کرتے۔ جس کے پٹ ہمیشہ بند رہتے۔ رات کو سونے سے پہلے بستر پر لیٹ کر ابا مجھ سے الماری کھلواتے۔ جس کی کنڈی مجھے مونڈھے پر چڑھ کر کھولنی پڑھتی۔ پھر ایک کتاب نکلواتے مجھے صرف ایک کتاب یاد ہے ، ممتاز مفتی کی "علی پور کا ایلی"، یہ ایک بے حد ضخیم کتاب تھی۔ مجلد۔ اور سبز وخاکی ڈسٹ کور پر غالباً ٹڈے بنے ہوئے تھے۔ میں یہ کتاب مونڈھے پر چڑھ کر احتیاط سے نکال کر ابا کو دیتی۔ ٹڈے کی سرورق پر بنی تصویر دیکھ کر ایک دفعہ میں نے پوچھا "ابا، کیا یہ ٹڈے کی کہانی ہے ؟ اور ابا نے ہنس کر کہا تھا "ہاں،۔ ابا سے مجھے ایک شکایت تھی۔ وہ اس کتاب کے دوچار یا آٹھ دس صفحے پڑھ کر۔ نشان لگا کر مجھ سے واپس رکھوا دیتے۔ مجھے یہ بے صبری کہ آخر ابا اسے فوراً پوری کیوں نہیں پڑھ ڈالتے۔

    ابا کو گاڑی چلانے کا بڑا شوق تھا۔ ابا سیکنڈ ہینڈ گاڑی خریدتے اور ہر سال گاڑی تبدیل کرتے۔ کبھی آسٹن، کبھی ہل مین۔ فورڈ کی سفید اسٹیشن ویگن کی یاد بے حد واضع ہے۔ وہ ہم بچوں کو بہت پسند تھی۔ پچھلے حصے میں بیٹھ کر ڈکی کا دروازہ کھلا رکھا جاتا۔ خاندان کے تمام بچوں کو گاڑی میں بھر کر ابا سیر کرانے لے جاتے۔ کلفٹن میں کوٹھاری پریڈ ہم بچوں کی پسندیدہ جگہ تھی۔ ہم سب گنبد نما کھلی عمارت کے اطراف جودھ پوری  پتھر کی بنی چکنی ڈھلان پر چڑھ کر پھسلا کرتے۔ اتوار کے اتوار ہاکس بے ، سینڈز پٹ اور پیرا ڈائز پوائنٹ کا چکر لگتا۔ اکثر شام کو صدر میں واقع کیفے جارج میں ہم بچوں کو آئس کریم کھلانے لے جاتے۔ منگھو پیر بھی ایک دو دفعہ گئے۔ سٹی ریلوے اسٹیشن اور ایئر پورٹ بھی تفریح کی غرض سے جایا کرتے۔ ابا کے ایک دوست تھے ، M.F آئیس کریم فیکٹری کے مالک۔ ہم بچے اکثر ابا کے سر ہو جاتے کہ ہمیں ان کی فیکٹری کی سیر کرائیں۔ فیکٹری ملیر کے مضافات میں تھی اور آس پاس ان کے امرود کے باغات ہوا کرتے تھے۔ پہلے باغ جا کر جی بھر کر امرود کھائے جاتے۔ پھر فیکٹری کی سیر کرتے۔ آئس کریم کی لالچ میں۔ آئس کریم سے نہ صرف وہیں خاطر تواضع کی جاتی بلکہ M.F آئس کریم کے ڈبے تحفے میں ملتے۔

    سال میں ایک دفعہ ایک تفریح کا موقع بندر روڈ پر بھی ملتا۔ یہ دس محرم کو نکلنے والے تعزیے اور الم کے بڑے جلوسوں اور ماتم کے دیدار کا موقع ہوتا۔ یہاں ہم ماموں کے ساتھ جایا کرتے۔ نانا، نانی، ماموں اور ممانی اور میری ہم عمر خالہ ملیر میں رہتے تھے۔ یہ شیعہ محلہ تھا۔ آٹھ دس گھر سنیوں کے بھی تھے۔ ہم بچے آٹھ محرم سے نانی کے گھر رہنے آ جایا کرتے۔ محلے میں ہونے والی مجلسوں میں شریک ہوتے۔ چھریوں کا ماتم اور ذوالجناح دیکھنے کے چکر میں نو اور دس محرم کی راتوں کو جاگتے رہنے کی کوشش کرتے۔ جب نیند سے آنکھیں بوجھل ہونے لگتیں تو امی، نانی، یا ممانی کو تاکید کر کے کہ ہمیں جلوس کے وقت ضرور اٹھائیے گا، صحن میں بچھی چار پائیوں پر پڑ کر سو جاتے۔ واقعتاً ہمیں جلوس نکلنے پر جھنجھوڑ جھنجھوڑ کر جگایا جاتا اور ہم بچے دروازے کھول کر دہلیزوں پر کھڑے ہو جاتے۔ تنگ گلیوں سے جب جلوس اور ذوالجناح گزرتے تو یہ سب اتنے قریب سے دیکھنے کی عجب خوشی ہوتی۔ بندر روڈ پر البتہ گھروں کی چھتوں پر چڑھ کر ماتم دیکھا جاتا۔ اس زمانے میں لوگ گھروں کے دروازے کھلے ہی رکھتے تھے۔ اور بندر روڈ پر رہنے والے اتنے مہمان نواز ہوتے تھے کہ سب کو چھتوں اور منڈیروں پر ٹک کر جلوس دیکھنے کی بخوشی اجازت دے دی جاتی تھی۔ خاص طور پر بچوں کو۔

    اسی زمانے میں ابا نے سراج الدولہ روڈ کے اس پار دارالامان ہاؤسنگ سوسائٹی میں زمین خریدی۔ مکان کی تعمیر شروع ہوئی۔ اب ہم بچوں کی آوارہ گردی کا دائرہ وسیع تر ہو گیا۔ پلاٹ پر جانے کے بہانے ہم آس پاس کی گلیوں اور تھوڑے فاصلے پر واقع پہاڑی تک جانے لگے۔ یہ پہاڑی، جواب ہل پارک کہلاتی ہے ، بڑے بڑے پتھروں، جنگلی جھاڑیوں، خود رو پودوں اور گھاس پھوس سے ڈھکی ہوتی تھی۔ پہاڑی پر دو تین پگڈنڈیاں ہوتی تھیں جسے لوگ سوسائٹی کے دوسرے حصے تک پہنچنے کے لیے استعمال کرتے۔ لیکن پہاڑی پر ہم بچے کبھی اکیلے جانے کی ہمت نہ کر پائے۔ احتشام بھائی جان کے پیچھے پڑتے کہ پہاڑی پر چلیں۔ اور سب بچے ان کے پیچھے پیچھے بھاگتے دوڑتے پہاڑی پر چڑھتے۔

۔۔۔ اقتباس

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                       ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول