صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں


کپکپاتی ہوئی یاد

(اشفاق چغتائی کی یاد میں)
منصور آفاق


ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

اقتباس

کچھ یادیں ایسی بھی ہوتی ہیں جنہیں اکثر اوقات آنکھیں آنسوؤں سے دھوتی رہتی ہے ، تاکہ کہیں کوئی گزرا ہوا لمحہ وقت کے گرد و غبار میں گم نہ ہو جائے۔۔میں اس وقت انہی کپکپاتی ہوئی یادوں کے دئیے جلا رہا ہوں ، باطنی روشنی کیلئے۔شاید اِسی عظیم یاد نے مجھے روحانی طور پر زندہ رکھا ہوا ہے۔یہی مجھے گیان اور نروان عطا کرتی رہتی ہے وگرنہ پچھلے سات آٹھ سال سے میں جس دنیا میں رہتا ہوں وہاں ماضی عجائب گھروں میں سجا یا ہے اور باطنی روشنی کے بلب شراب خانوں میں جلائے جاتے ہیں
اجتماعی بادشاہت کے جزائر ﴿ برطانیہ ﴾ جن کی بہشت گناہ آباد میں ، میں مقیم ہوں وہاں اکثر اوقات گردش ِ سرمایہ سے اکتائے ہوئے دوست احباب مجھ سے پوچھتے ہیں کہ یہ جو تیرے باطن کی بانسری سے نور و نکہت کے نغمے نکلتے ہیں یہ کہاں سے آئے ہیں۔  بظاہر تو ترے ماضی اور حال میں کوئی ایسا سُر نہیں دکھائی دیتا جس میں روحانیت کا سرگم موجود ہو۔یہ سب کچھ کہاں سے ملا ہے تجھے۔۔۔۔تو مجھے مجبور کہنا پڑتا ہے کہ یہ لازوال گیت ، یہ الوھی نغمے میرے نہیں ہیں میں تو اپنے بھائی محمد اشفاق ؒ چغتائی کے لفظوں کی جگالی کرتا ہوں۔

گذشتہ دنوں مجھ سے ایک ایسے دوست نے سوال کیا جس کے صرف برطانیہ میں کئی ہزار مرید ہیں کہ تم جب بھی اپنے بھائی کا نام لیتے ہو تو اس کے ساتھ رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہو کیا تمہارے بھائی کوئی برگزیدہ ہستی تھے۔۔ میں نے کہا ۔یہ تو میں نہیں جانتا مگر میں نے اپنی زندگی میں ان کا کوئی ایسا عمل نہیں دیکھا جو سنتِ نبوی کے خلاف ہو اور مجھے یقین ہے کہ انہیں جاننے والے بھی میری اس بات کی تصدیق کریں گے۔ اسی حوالے داتا گنج بخش کا ایک مشہور واقعہ ہے کہ کوئی شخص ان کے پاس آ کر سال بھر رہا اور جب جانے لگا تو اس نے داتا صاحب سے کہا کہ میں بڑی امید لے کر آیا تھا مگر سال بھر میں نے آپ کی کوئی کرامت نہیں دیکھی اس لئے واپس جا رہا ہوں تو داتا صاحب نے پوچھا کہ یہ بتاؤ تم نے میرا کوئی ایسا عمل دیکھا ہے جو سنت نبوی کے مطابق نہ ہو اس نے کچھ سوچا اور کہا نہیں تو داتا صاحب نے فرمایا کہ اس سے بڑی اور کوئی کرامت نہیں ہو سکتی۔ مجھ سے اس دوست نے سوال کیا کہ وہ کس کے مرید تھے۔۔ میں نے کہا میں نہیں جانتا اس نے پوچھا ان کا سلسلۂ  طریقت کونسا تھا میں نے کہا مجھے یہ بھی معلوم نہیں۔۔اس پوچھا کہ کہیں سے تو انہوں نے روحانی فیض حاصل کیا ہو گا۔۔میں نے کہا میں صرف اتنا جانتا ہوں جتنا وہ بتا گئے ہیں اور پھر ان کے یہ اشعار انہیں سنا دئیے

ابن عربی کی مجالس میں ملاقات ہوئی
میرے منصور وہاں آتے ہیں سر مد میرے

پیر رومی سے بھی کچھ دیر وہاں بات ہوئی
بولتے مجھ سے رہے ہیں جدا ِ امجد میرے

کہہ دیا میں نے بھی جو کہنا نہیں تھا مجھ کو
کیا کروں حضرت اقبال ہیں مرشد میرے

اس نے کہا یہ تو شاعری ہے ان کی زندگی کن لوگوں کے ساتھ گزری تھے۔۔ میں نے کہا ان کی زندگی کا ایک طویل عرصہ مولانا عبدالستار خان نیازی کے ساتھ گزارا تھا اور ان کی نماز جنازہ پڑھاتے وقت مولانا نیازی نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ محمد اشفاق چغتائی ایک سچے عاشق ِ رسول تھے۔جب مجھے وزارت ملی تھی تو انہوں نے میرا ساتھ چھوڑ دیا تھا کہ آپ سرمایہ داروں کی حکومت میں شامل ہو گئے ہیں۔۔

اشفاق ؒ بھائی عمر میں مجھ سے چار سال بڑے تھے۔۔ بچپن سے بہت ذہین تھے ، مذہب سے گہرا لگاؤ تھا اور مجھ سے ہمیشہ نالاں رہتے تھے۔۔ میری مذہبی بے راہ روی کی وجہ سے میں زندگی کے ہر معاملے میں ان کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کرتا تھا۔۔ سوائے مذہبی معاملات کے۔۔۔۔ سو شاعری بھی انہی کی پیروی میں شروع کی۔۔ انہوں نے شروع شروع میں مجھے باز آ جانے کی بہت تلقین کی مگر میں بھی بہت ضدی تھا مجبوراً میرا ساتھ دینے لگے۔۔۔۔ میں نے جو پہلی غزل لکھی تھی۔۔ اسکی اصلاح اشفاق ؒ بھائی نے کی تھی اور پھر وہی غزل جب میں نے مشاعرے میں سنائی تو میانوالی کے ایک بزرگ شاعر انوار ظہوری نے کہا ’’ یہ لونڈا اتنی اچھی غزل کس سے لکھوا کر لے آیا ہے ‘‘ میں نے اس وقت تو بزرگ سے کچھ نہیں کہا مگر غصے سے کھولتا ہوا جیسے ہی گھر پہنچا تو اشفاق بھائی کے سامنے اس بزرگ شاعر کی ایسی تیسی کر دی اشفاق بھائی نے میرا غصہ ٹھنڈا کرنے کیلئے مجھے مشورہ دیا کہ شاعر جب کسی کو گالی نکالتے ہیں تو وہ بھی شعر کی زبان میں ہوتی ہے اور پھر مجھے فردوسی کا واقعہ سنایا کہ محمود غزنوی نے اسے شاہنامہ فردوسی لکھنے کا کہا اور ساتھ یہ آفر بھی دی ہے کہ ہر شعر کے عوض اسے ایک اشرفی دے گا فردوسی نے کئی ہزار شعر کہہ دیے مگر محمود نے اپنا وعدہ پورا نہیں کیا جس پر فردوسی کو بہت تکلیف ہوئی اور اس نے محمود غزنوی کی ایک ہجو لکھی جس میں کہا کوؤں کے انڈے بازوں کے نیچے رکھ دئیے جائیں تو کو ے ہی پیدا ہوتے ہیں۔۔ وغیرہ وغیرہ میں نے فوراً اس بات کو گرہ میں باندھ لیا اور فردوسی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے انوار ظہوری کے خلاف ایک ہجو لکھ دی مگر اب اشفاق بھائی اسے درست کرنے پر تیار نہیں تھے۔۔ گھر میں مسئلہ پیدا ہو گیا۔۔ ہم دونوں میں انتہائی سخت جنگ ہوئی۔۔ معرکۂ پورس و سکندر میں پورس فتح یا ب ہو گیا۔۔ یعنی میں نے زبردستی اشفاق بھائی سے وہ ہجو درست کرالی لیکن جو گالیوں بھرے مصرعے اشفاقؒ  بھائی نے اس میں سے نکال دئیے تھے۔۔ ان کا دکھ مجھے آج بھی ہے اس کی چند لائنیں جوا بھی تک یاد ہیں۔۔

اے عدد اے کم نظر اے تنگ دل اے فتنہ خو
شرم آتی ہے مجھے ہوتا ہے جب تو روبرو

تجھ کو کیوں اکسا رہی ہے تیری یہ زخمی انا
چاند پر جو تھوکتا ہے خود بھی ہوتا ہے فنا 
٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول