صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں
کلیم احسان بٹ اور ’حیرت باقی رہ جاتی ہے‘
مختلف ادباء
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
حیرت کا سفر
کلیم احسان بٹ ادبی و شعری تاریخ کا وہ ستارہ ہے جس نے جلالپور جٹاں کو اس کی پہچان دی۔ کلیم نے ۵ دسمبر ۱۹۶۴ء کو اس عالم نا پائیدار میں آنکھ کھولی تھی کہ ننھیال اور دودھیال کو علمی و ادبی خزانے سے مالا مال پایا۔ ننھیال میں معروف روحانی شخصیت بابا قادر شاہ ؒ کے گدی نشین غلام محی الدین ؒ کلیم کی والدہ کے تایا تھے۔انہوں نے کئی کتابیں تصنیف کیں۔ اپنے وقت کے معروف صاحب دیوان شاعر عبدالطیف مضطر رشتے میں ان کے ماموں تھے۔دودھیال میں ’’گنہ گار‘‘ ان کے قریبی رشتہ دار تھے۔ کہا جا سکتا ہے کہ شاعری کلیم کے خمیر میں موجود تھی۔ کلیم احسان بٹ نے ابتدائی تعلیم جلالپور جٹاں سے حاصل کی۔ پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے اردو میں طلائی تمغہ حاصل کیا۔ عملی زندگی کا آغاز مادرِ علمی گورنمنٹ زمیندار کالج میں بطور لیکچرر کیا۔ سال ہا سال کی خدمات کے بعد۲۰۱۰ سے راولپنڈی میں تدریسی خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ کلیم کی تدریسی شعبے سے وابستگی نے اسے وسیع المطالعہ بنا دیا جس سے اس کا مشاہدہ عمیق اور فکر میں گہرائی اور سوچ میں پختگی آتی گئی۔ مطالعہ، مشاہدہ اور فکر یہ تین چیزیں کسی بھی ہوشمند انسان کو شاعری سے دور نہیں رکھ سکتیں۔ تعلیمی و تدریسی عمل سے منسلک ہونے کے تھوڑے عرصہ بعد تنقید و تحقیق کی جستجو نے کلیم احسان بٹ کو ’’گجرات میں اردو شاعری‘‘ جیسی لازوال کتاب کا مصنف بنا دیا۔ اس کا پہلا شعری مجموعہ ’’موسم گل حیران کھڑا ہے‘‘ کے نام سے منصہ شہود پر آیا۔ تھوڑے وقفے کے بعد دوسرا مجموعہ ’’چلو جگنو پکڑتے ہیں ‘‘منظر عام پر آگیا۔ تنقیدی و تحقیقی کتابیں ابرِ رحمت جلد اول ، جلد دوم اور تفہیم و تحسین اس کے علاوہ ہیں۔
’’حیرت باقی رہ جاتی ہے‘‘ اس کا تیسرا شعری مجموعہ ہے۔ عنوان اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ حیرت کا جو سفر موسم گل سے شروع ہوا تھا وہ ہنوز جاری و ساری ہے۔ اس کی شاعری معاشرتی ظلم، جبر اور نا انصافی کے خلاف ایک فکری اور فطری ردِ عمل ہے۔ وہ سنت حسین ؒ پر عمل پیرا ہے:
میں جانتا تھا مجھے پیاس مار ڈالے گی
میں بس حسینؓ کی سُنت میں جنگ کرتا رہا
حمد و نعت میں غزل کی ہیئت استعمال کی ہے۔ اس نے حمد میں بھی جدت کا رنگ اختیار کیا ہے۔
سر مستوں کو تُو نے سر افراز کیا
سچّل بھیجنے والے تیرا نام ہے سچ
ہجر ، فراق ، وصال سے لذت یاب کیا
سانول بھیجنے والے تیرا نام ہے سچ
کلیم احسان کے فن کی بنیاد غزل ہے۔ وہ حمد و نعت اور سلام کو بھی
غزل کی ہیئت میں پروتا چلا جاتا ہے۔ اسکی غزل میں روایت سے وابستگی ہے
روایت کا اعادہ نہیں۔ پرانی اینٹیں اسے یاد تو آتی ہیں لیکن اس کی شاعر ی
کی عمارت جدید طرزِ تعمیر پر استوار ہے۔ اس کی شاعری میں خیال آفرینی اور
فکرِ تازہ ہے۔ وہ روایتی حسن و عشق اور عارض و گل کا شاعر نہیں حقیقی
زندگی کا عکاس ہے۔اس نے اپنے مضامین حقیقی زندگی سے کشید کیے ہیں اور
متنوع موضوعات کو شعری پیراہن عطا کیا ہے۔اس کے ہاں غزل کے روایتی حسن کے
ساتھ فرحت بخش تازگی کا احساس ہوتا ہے جو شعر و ادب کا اولیں مقصد
ہے۔
تم فقط شخص مار سکتے ہو
کیا کرو گے مری علامت کا
مٹی کو مری چاک پہ رکھا تو گیا ہے
میں کیا ہوں کسی دستِ ہنر ور سے کھلے گا
میں دوستانہ مراسم بڑھانا چاہتا تھا
میں دشمنوں کی حمایت میں جنگ کرتا رہا
میں جانتا تھا مجھے پیاس مار ڈالے گی
میں بس حسینؓ کی سُنت میں جنگ کرتا رہا
میری آنکھوں میں چمکتا آنسو
کسی مسجد میں دیا ہے شاید
شعر فہمی اور زبان و بیان پر عبور نے اس کی شاعر ی کو زیادہ نکھار
دیا ہے۔اس کا ہر شعر تاثیر سے بھر پور ہے۔اس کے ہاں عامیانہ پن نہیں
ہے۔یہاں محسوسات اور جذبات کی دنیا ہی کچھ اور ہے۔ یہ اُن تجربات کی شاعری
ہے جن کا تعلق وجدان سے ہے۔
رقصاں ہے اس کے عشق میں ہر قافیہ، ردیف
یعنی مرے کمال کی دنیا ہی اور ہے
ہمارا درد کا رشتہ تھا بھیرویں سے کلیمؔ
ہماری سُر سے نہ سرگم سے آشنائی تھی
کہاں تاثیر ہوتی ہے غزل میں
دلِ صد چاک سے رس کھینچتا ہوں
ایک رشتہ ہے درد مندی کا
آپ رویا، اسے رُلا آیا
کلیم کی شاعری محض اپنی ذات کا اظہار نہیں بلکہ عوام و خواص کی
زندگی کے متنوع پہلوؤں کی ترجمان ہے۔ اسے کسی خاص طبقہ یا فکر کا شاعر
نہیں کہا جا سکتا۔وہ ہر قسم کے انسانی جذبات کو اپنی شاعر ی کا موضوع
بناتا چلا جاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس کا شعر معیار کی کسوٹی پرہی پورا نہیں
اترتا ہے بلکہ اثر انگیز بھی ہوتا ہے۔
میری آنکھوں کو یہ سزا دی ہے
صرف دیدار کر نہیں سکتا
دربار میں کہا تھا ستارہ شناس نے
ہارے گا وہ غلام خریدہ سے جنگ میں
٭٭٭