صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں


کاجل کی لکیر

یاسمین حبیب

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                       ٹیکسٹ فائل

غزلیں

صبح کی پہلی کرن سی روشنی تھی ، کیا ہوئی

نور بِکھراتی ہوئی خوش قسمتی تھی ، کیا ہوئی


جھِلملاتے قمقمے جلتے رہے چاروں طرف

شب زدہ کی رات اِک تاروں بھری تھی، کیا ہوئی


بھر کے اپنی آنکھ میں کوئی سلگتی آرزو

سرد رُت میں آنچ اِک حدت بھری تھی ، کیا ہوئی


اِک طلسمِ خوش ادا آنکھوں کو میری سونپ کر

سُرخیوں سے جھانکتی جادو گری تھی ، کیا ہوئی


دھوپ تنہائی کی اِس لمحے تمازت خیز ہے

بس ذرا سی دیر کی موجودگی تھی ، کیا ہوئی


کیا ہوئے وہ حرف جو تھے عمر بھر کے واسطے

لوح پر تحریر جو لکھی ہوئی تھی، کیا ہوئی


کیا ہوئے معمول اپنے ، کیا ہوئے وہ روز و شب

سادہ سی، معصوم سی اِک زندگی تھی، کیا ہوئی


ڈھونڈتی رہتی ہوں میں کمرے میں اپنے آپ کو

میز پر تصویر جو میری پڑی تھی ، کیا ہوئی


اب جنوں سے واسطہ کوئی نہ کچھ تیشے سے ہے

وہ بھی دن تھے ہر طرف دیوانگی تھی، کیا ہوئی


یاد کچھ کچھ ہے مگر اب یاد شاید کچھ نہیں

اِس سڑک کے اُس طرف جو اِک گلی تھی کیا ہوئی


کُھردرے دھاگے اُٹھاتی پھر رہی ہوں فرش سے

اِک ملائم اون سے خواہش بُنی تھی، کیا ہوئی

٭٭٭

لمسِ تشنہ لبی سے گزری ہے
رات کس جاں کنی سے گزری ہے

اس مرصع نگار خانے میں
آنکھ بے منظری سے گزری ہے

ایک سایہ سا پھڑپھڑاتا ہے
کوئی شے روشنی سے گزری ہے

لُوٹنے والے ساتھ ساتھ رہے
زندگی سادگی سے گزری ہے

کچھ دکھائی نہیں دیا ، شاید
عمر اندھی گلی سے گزری ہے

شام آتی تھی دن گزرنے پر
کیا ہوا کیوں ابھی سے گزری ہے

کتنی ہنگامہ خیزیاں لے کر
اک صدا خامشی سے گزری ہے

آنکھ بینائی کے تعاقب میں
کیسی لا حاصلی سے گزری ہے


٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                       ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول