صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
کہوں کیا
خالد علیم
انتخاب اور ترتیب: نوید صادق اور اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
ایک آشوبیہ۔ اقتباس
تجھ سے میرے خدا کہوں کیا
حالِ دلِ مبتلا کہوں کیا
جس حال میں ہوں ، تجھے خبر ہے
بندہ ہوں میں ترا، کہوں کیا
میں ایک حصارِ عقل میں ہوں
تو سوچ سے ماورا، کہوں کیا
آتی ہے صدا پرندگاں کی
دیتی ہے ترا پتا، کہوں کیا
میں عجز سرشت، سر بہ خم ہوں
ہے عجز مری انا، کہوں کیا
تو لامتناہی و دوامی
زیبا ہے مجھے فنا، کہوں کیا
بے مایہ و کم نظر ہوں لیکن
تو جانتا ہے ، بھلا کہوں کیا!
جیسا ہوں اور جس قدر ہوں
خود کو خود سے سَوا کہوں کیا
ہو جاؤں نہ دھُول رہ گزر کی
کب سے ہوں شکستہ پا، کہوں کیا
ملتی ہی نہیں یقیں کی منزل
کیوں تنگ ہے راستہ، کہوں کیا
اس فکر میں ہوں کہ کھل نہ جائے
دل کا بندِ قبا، کہوں کیا
سب ایک سے ، سب ہی ایک سے ہیں
ناآشنا، آشنا کہوں کیا
ایک ایک کو دیکھتا ہوں لیکن
ایک ایک ہے آئنہ، کہوں کیا
جب سب کا مزاج سرد خو ہے
کیوں سب ہیں خدا نما، کہوں کیا
سینوں میں وہی فشار دَم کا
سب کچھ ہے وہی، نیا کہوں کیا
جب میری نگاہ دیکھتی ہے
پھر دوسروں سے سُنا کہوں کیا
سب لوگ ہیں اپنے حال میں گم
کس کاہے حال کیا؟ کہوں کیا
اس شہر میں کیا ہَوا چلی ہے
اور سب کی ہے کیا ادا، کہوں کیا
اس شہر پہ کیا گزر گئی ہے
اس شہر کا ماجرا کہوں کیا
یہ شہر اُجاڑ ہو گیا ہے
جنگل ہے ہرا بھرا، کہوں کیا
پت جھڑ ہو، یا بہار کا دَور
خوشبو ہے گریز پا، کہوں کیا
ہر پھول ببول ہو گیا ہے
یوں بھی یہ چمن کھِلا! کہوں کیا
کیوں چاک ہے دامنِ سحر گاہ
حیران ہے کیوں صبا، کہوں کیا
کم کم سی دِیوں میں جان کیوں ہے
ویرانیِ شب سرا کہوں کیا
دل کی ہے یا جہان کی ہے
کس کس کی ہے کیا خطا، کہوں کیا
گم کردۂ راہ پھر رہا ہے
ہر کوئی جدا جدا، کہوں کیا
٭٭٭