صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں


کہیں کچھ کھو گیا ہے

انجم عثمانی

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

                             اغوا

        جہاز کے اغوا کی خبر پھیلتے ہی کا شانۂ کاظمی میں لوگ جمع ہونا شروع ہو گئے تھے کیونکہ اغوا شدہ جہاز میں مسٹر کاظمی بھی تھے اور مسز کاظمی شہر کے اس دولت مند علاقے میں بہت مقبول تھیں۔

    مسز کاظمی کی ذات اپنے آپ میں ایک انجمن تھی۔ ان کی مقبولیت کی وجہ صرف یہی نہیں تھی کہ وہ مسٹر کاظمی جیسے دولت مند کی بیوی تھیں ،بلکہ اس میں ان کے حسن کے علاوہ سلیقے کو بھی بڑا دخل تھا۔اس پا ش علاقے میں مسٹر اور مسز کاظمی کی وجہ سے کاشانۂ کاظمی کی اپنی الگ اور نمایاں حیثیت تھی اور مسز کاظمی کی دعوتیں اور آئے دن سجائی جانے والی محفلیں اپنا مخصوص رنگ رکھتی تھیں۔

    بات بات پر دعوتیں ،کسی نہ کسی بہانے عیش و عشرت کے مواقع فراہم کرنا یوں بھی اس سوسائٹی کی عادت ہے،جس میں مسز کاظمی گزشتہ کئی برسوں سے سرگرم تھیں۔

    مسز کاظمی شروع سے ایسی نہ تھیں بلکہ وہ تو ایسے خاندانسے تھیں جنھیں جہیز میں دیگر قیمتی چیزوں کے ساتھ دعائیں اور بہشتی زیور، بھی ضرور دیا جاتا تھا جسے کہیں رکھ کر وہ کب کا بھول چکی تھیں اور اب تو شاید انھیں یہ بھی یاد نہیں ہو گا کہ وہ گھر کے کس کونے میں رکھا ہے، حالانکہ وہ گھرکو سجانے میں کافی سلیقہ مند مشہور تھیں۔ سلیقہ مند نہ ہوتیں تو ہمہ وقت مسابقت کے اس ماحول میں ایسی نمایا ں جگہ کیسے بنا پاتیں کہ ہر قسم کے دولت مند ان کے گرد منڈلاتے رہتے۔ یہی وجہ تھی کہ علاقے کا شاید ہی کوئی ایسا با رسوخ شخص ہو گا جو مسز کاظمی کو دلاسا دینے اور ہمت بندھانے نہ آیا ہو۔

    ملا قاتیوں کا تانتا لگا ہوا تھا، مسز کاظمی اتنے زبردست حادثے کے باوجود سب سے ملتیں اور فکر مندی کو ایک رنج بھری متانت کے ساتھ جھیلتی آ رہی تھیں ،ان کی خوبصورت آنکھوں میں دکھ کی پرچھائیاں اور مستقبل کے خدشوں کی دہشت کے باوجود آنسو نہیں تھے کہ جذبوں سے عاری رہنے کی عادت نے انھیں اس سوسائٹی کا پختہ فرد بنا دیا تھا جس میں جذباتی ہونا کمزوری سمجھا جاتا ہے۔

    مسز کاظمی نے اگرچہ روز کے مقابلے میں کافی حد تک سادہ کپڑے پہن رکھے تھے مگر عادتاًاس بات کا خیال رکھا تھا کہ جاذبیت میں کمی نہ آئے۔ وہ ہندی فلموں کی ایسی غم زدہ ہیروئن سی لگ رہی تھیں جس میں غم سے زیادہ الم زدہ حسن کا خیال رکھا جاتا ہے۔

    آج بھی مسز کاظمی ڈرائنگ روم میں اپنی مخصوص ادا کے ساتھ ملنے والوں کا شکریہ ادا کر رہی تھیں مگر اب جب کہ باہر کے تقریباً سبھی لوگ جا چکے تھے مسز کاظمی تھک کر ڈرائنگ روم کے صوفے پر ڈھیر ہو گئی تھیں۔

    صوفے پر پسرے پسرے ان کی آنکھوں نے اپنے گھر کا جائزہ لینا شروع کر دیا۔ہر چیزسلیقے سے سجی ہوئی جگہ پر تھی۔ ان کی نگاہیں مسٹر کاظمی کی تصویر پر ٹک گئیں اور ان کی آنکھیں فرطِ غم سے بھر آئیں اور اچانک ان کے ذہن نے یاد کرنا چاہا کہ وہ کون سی دعا تھی جس کے بار بار پڑھنے سے کھوئی ہوئی چیز مل جاتی ہے۔وہ کون سی دعا تھی۔۔۔۔۔۔۔۔کون سی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مسز کاظمی نے بے بسی کے ساتھ ذہن پر زور ڈالا مگر دعائیں تو وہ کب کی بھلا چکی تھیں۔

    اگلی صبح کے اخبار میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اغوا شدہ جہاز کے تمام مسافروں کی محفوظ رہائی کی خبریں سرخیوں میں تھیں جن میں مسٹر کاظمی کے بخیر و عافیت پہنچنے کے علاوہ اغوا کی کہانی مسٹر کاظمی کی زبانی اور مسز کاظمی کے ردِ عمل کی تفصیلات درج تھیں۔ مگر کاشانۂ کاظمی کے مکینوں کے دلوں سے جو کچھ بہت پہلے اغوا ہو چکا ہے اس کا کہیں تذکرہ نہ تھا۔

 ٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول