صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
کہانی اک ستارے کی
علی ارمان
جمع و ترتیب: اعجاز عبید
لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
غزلیں
یہ دریا چل رہا ہے یا کنارا چل رہا ہے
کہ ان دونوں کو لے کر کوئی دھارا چل رہا ہے
دعا کیجے یونہی چلتی رہے غم کی تجارت
ابھی تک تو محبت میں خسارہ چل رہا ہے
تری روتی ہوئی آنکھیں ابھی تک ہیں وہیں پر
ترے رخسار پر اب تک ستارا چل رہا ہے
وگرنہ کب کے پیلے ہو کے جھڑ جاتے یہ منظر
مری حیرت کے بل بوتے نظارا چل رہا ہے
ہٹی ہے اب کہیں جا کر مری آنکھوں سے پٹی
یہ دل اُس پہلے رستے پر دوبارہ چل رہا ہے
نمو پرور بہت دلکش ہیں تیرے ہونٹ لیکن
تری باتوں سے میرے دل پہ آرا چل رہا ہے
تری آنکھوں کی لو اب تک بدن میں بہہ رہی ہے
لہو میں آج بھی وُہ اک اشارا چل رہا ہے
ہوں اپنے عہد کے دکھ کی سبھی سمتوں سے واقف
سو حیرت کیا جو میرا استعارہ چل رہا ہے
طبیعت میں ودیعت ہے وُہ بے چینی کا شعلہ
رگوں میں ایسا لگتا ہے کہ پارا چل رہا ہے
ابھی تک دل نہیں ٹھہرا کسی اک راستے پر
علی ارمان اب تک استخارہ چل رہا ہے
٭٭٭
میں تو اس خوف میں ہوں رات کی جاگیر سمیت
ٹوٹ جائے نہ ستارا مری تقدیر سمیت
کس مصور نے بنائی ہے یہ تصویر حیات
راہ دلدل میں اترتی ہوئی رہگیر سمیت
اے مرے حرف کے امکان میں رہنے والو
مجھے بستی سے نکالو مری تحریر سمیت
راہِ اظہار کے رہزن ہیں معانی کے سراب
لفظ پہنچے نہ ورق تک کبھی تاثیر سمیت
مجھ سے دیکھی نہیں جاتی ہے اداسی اس کی
مجھے مٹی میں اتارو مری زنجیر سمیت
تیرگی اگتی ہے اُس کو ہِ سحر سے اب تک
خواب مصلوب ہوا تھا جہاں تعبیر سمیت
٭٭٭