صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
کہانی
ثناء اللہ ظہیر
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
غزلیں
ذرا اشارہ ہوا آسماں کے اندر سے
دعا پہنچ بھی گئی خاکداں کے اندر سے
کہانی پھیل رہی ہے اُسی کے چاروں طرف
نکالنا تھا جسے داستاں کے اندر سے
مجھے پڑاؤ میں خطرہ سفر سے بڑھ کر ہے
کہ راہزن ہے مرے کارواں کے اندر سے
تو مجھ میں آ کے مکیں ہو گیا تو ہر آسیب
نکل گیا ہے مرے جسم و جاں کے اندر سے
میں صرف دیکھنے آیا ہوں رونقِ بازار
غرض نہیں ہے کسی بھی دکاں کے اندر سے
نئے سرے سے بنانا پڑا ہے اب خود کو
تلاش کر تے ہوئے رائگاں کے اندر سے
ترے خلاف گواہی جو بن گئے ہیں ، وہ لفظ
لیے گئے ہیں ترے ہی بیاں کے اندر سے
میں درمیاں ہوں الاؤ کے اور مری آواز
تو سن رہا ہے اسی درمیاں کے اندر سے
لگا رہا تو کسی دن کشید کر لوں گا
نئی زبان۔ ۔ ۔ پرانی زباں کے اندر سے
ابھی تو یہ درودیوار جانتے ہیں مجھے
ابھی تو میں نہیں نکلا مکاں کے اندر سے
ظہیرؔ، پار اترنے کا فیصلہ جو کیا
کنارہ مل گیا آبِ رواں کے اندر سے
***
تھلوں میں چشمۂ برفاب کی طرح ہوں میں
خود اپنے واسطے اک خواب کی طرح ہوں میں
نکل چکا ہوں میں تجھ سے مگر مرے دریا
اب ایک ماہیِ بے آب کی طرح ہوں میں
مرے بغیر تشخص ترا بھی ہے مشکوک
تو لفظ ہے، ترے اعراب کی طرح ہوں میں
خوش آمدید بغیر امتیازِ نسل و زباں
مزاجِ خطۂ پنجاب کی طرح ہوں میں
کوئی بھی شکل ہو میں روشنی بکھیرتا ہوں
کبھی دیے،کبھی محراب کی طرح ہوں میں
مجھے گرفت میں رکھ مجھ کو چاہنے والے
تو جانتا ہے، کہ سیماب کی طرح ہوں میں
رقیب پڑھ نہ سکے گا تری کتابِ حیات
کہ اس میں ایک حسیں باب کی طرح ہوں میں
مجھے بھی یاد ہے بچپن کی رنجشوں کی طرح
وہ شخص جس کے لیے خواب کی طرح ہوں میں
ظہیرؔ وہ مری اک لہر کو ترس رہے ہیں
جنہیں گلہ تھا کہ سیلاب کی طرح ہوں میں
***
***
انا کا تنگ لبادہ اتار کر تو بھی
ہماری وسعتِ دل اختیار کر تو بھی
اِدھر بھی آکہ اِدھر بھی تو لوگ زندہ ہیں
مری گلی سے گزر خود کو مار کر تو بھی
تمام عمر ترے اِنتظار میں رہا ہوں
دو چار سال مرا انتظار کر تو بھی
کبھی تو مل، مرے سورج ، مری زمین کے ساتھ
اس آسمان سے خود کو اُتار کر تو بھی
ترے لیے میں فراغت کا ایک لمحہ تھا؟
چلا گیا مجھے یوں ہی گزار کر تو بھی!
ظہیرؔ اسے کبھی تنہائی میں یہ کہنا ہے
میں چاہتا ہوں تجھے، مجھ سے پیا ر کر تو بھی
***