صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
کافر
احمد نسیم کھرل
ترجمہ : آفاق صدیقی
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
اقتباس
مولوی صاحب نے کہا،
"بابا ! تم اپنی خوشی سے دینِ محمدی
قبول کرنا چاہتے ہو ناں ! "
========================
جس
دن ستیل اوڈو اور اس کی گھر والی کو مسلمان ہونا تھا اس دن مسجد میں اتنے
نمازی آئے کہ مسجد کے باہر بھی تین چار صفیں قائم ہو گئیں۔ اس سے پہلے یا
تو عید پر اتنا ہجوم ہوتا یا کوئی مال دار آدمی اپنے مرحوم باپ کی مغفرت
کے لئے بریانی کی دیگ چڑھاتا تو لوگ کھنچے چلے آتے۔
مسجد کے پیش امام
مولوی امیر علی نے بھی ستیل کے قبولِ اسلام کی بڑی تشہیر کی تھی۔ لوگوں کو
قرآن و حدیث کی روشنی میں بتایا تھ کہ ایسا موقع عیدوں سے بھی زیادہ مبارک
ہوتا ہے۔
گوٹھ کے باشندے بھی کچھ دینی جذبہ رکھتے تھے، اس لئے بہت سوں نے سر پر پیچ دار پگڑی باندھی اور مسجد میں آ گئے۔
مولوی
صاحب خود بھی اچھی خاصی آن بان میں دکھائی دیئے ۔ سر پر ہری مونگیا دستار
، جسم پر سفید بے داغ شلوار کُرتا اور پاؤں میں نئی جوتی۔ ہاتھوں میں
نقشیں عصا جس کے نچلے سرے میں لوہے کی شام لگی ہوئی تھی۔ وہ محراب کے قریب
کچی زمین میں اپنا عصا اس طرح گاڑتے جیسے دین کا جھنڈا ہو۔
مولوی
صاحب اس دن خطبے کی جو کتاب لائے وہ بھی نئی تھی۔ کچھ قرآنی آیات کی تلاوت
کے بعد جب وہ سندھی نظم کے اس قصے پر پہنچے جہاں چاروں اصحاب پاک کی ثنا
تھی تو نمازیوں کی آنکھیں بھیگنے لگیں۔
٭٭٭