صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں
چوں کے باباکبیر
ڈاکٹر شکیل الرحمن
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
اقتباس
پیارے بچو، بابا کبیر نے ہمیشہ پیار محبت کی تعلیم دی، اُن کے نزدیک محبت سب سے بڑی نعمت ہے۔ انسان اور انسان کے رشتے میں وہ محبت ہی کو ایک مضبوط کڑی مانتے ہیں۔ محبت ہی کے ذریعہ اللہ تک پہنچ سکتے ہیں، اللہ وہاں ہوتا ہے کہ جہاں محبت ہوتی ہے، محبت کو پا لیا تو سمجھو سب کچھ پا لیا۔ بابا کبیر کہتے ہیں خود اپنی حفاظت میں مصروف رہو گے تو محبت یا پریم تک پہنچ نہ سکو گے . دیکھو نا پتھر مضبوط ہوتا ہے اور پھول ہمیشہ خطرے میں، ّپتھر مردہ ہے اور پھول زندہ، پھول کی خوشبو پھیلتی ہے، پتھر کے پاس خوشبو کہاں؟ پھول کوئی بھی کسی وقت توڑ سکتا ہے،پتھر کو پھول کی طرح کوئی نہیں توڑتا، کیا تم پتھر کی طرح رہنا چا ہو گے جو خوشبو نہیں دے سکتا، پیار کا رِشتہ باندھ نہیں سکتا،
محبت یا پریم پتھر نہیں پھول ہے اس سے بڑا خوشنما پھول کوئی پھول نہیں، اس سے زیادہ کسی بھی پھول میں خوشبو نہیں ہے، محبت تو زندگی کا نام ہے اور زندگی آزاد رہنا چاہتی ہے، پرواز کرنا چاہتی ہے، @ درخت کی جڑ ہے، درخت بڑا ہوتا ہے اس کی شاخیں نکلتی ہیں، غور کرو تو اس سچائی کو پالو گے کہ محبت جو درخت کی جڑ ہے وہ درخت کے اندر ہے اور اس کی شاخوں کے اندر جڑ کا جوہر موجود ہے۔ بابا کبیر کہتے ہیں کہ ڈال درخت کی جڑ کی تلاش میں ہے حالانکہ جڑ اس کے اندر ہے، ہر شخص اپنی جڑ کی تلاش میں جانے کہاں کہاں مارا پھر رہا ہے:
ڈال بھئی رے مول تے مول ڈال کے مانہہ
سبھی پڑے جب بھرم میں مول ڈال کچھ نانہہ
ڈالی جو ڈھونڈھے مول کا ڈال مول کے پاہینہ
آپ آپ کو سب چلے ملے مول سوں ناہینہ
ایک
جگہ بابا کبیر نے کہا ہے کہ محبت باغ میں نہیں
اُگتی، یہ بازار میں فروخت نہیں ہوتی، راجا پرجا جسے اس
کی ضرورت ہے اپنا سردے کر لے جائیں:
پریم نہ باڑی اوپجے پریم نہ ہاٹ بکائے
راجا پرجا جہیہ رچے سیس دیئے لے جائے
جو
لوگ اللہ بھگوان کی تلاش میں جنگلوں پہاڑوں پر
مارے مارے پھرتے ہیں اُن ہی سے مخاطب ہو کر
بابا کبیر نے کہا ہے:
تیرا سائیں تجھ میں جیوں پہپن میں باس
کستوری کا مرگ جیوں پھرپھر ڈھونڈے گھاس
یعنی
اللہ سائیں وجود میں اس طرح سمائے ہوئے ہیں
جیسے پھول میں خوشبو، کستوری کے ہرن کی طرح گھوم گھوم
کر گھاس میں خوشبو کیوں تلاش کر رہے ہو۔ بابا کبیر
نے بار بار کہا ہے کہ انسان کے وجود میں چمن زار
ہے، جلوۂ الٰہی اور صفاتِ الٰہی ہے، دِل کے اندر ہزار
پنکھڑیوں کا کنول ہے اس پر انسان بیٹھ جائے تو ساری
کائنات کا حسن و جمال دیکھ سکتا ہے اور اپنے مالک کو پا سکتا ہے:
باگوں ناجارے ناجا
تیری کایا میں گل جار
سہس کنول پر بیٹھ کر
تو دیکھے روپ پار
بابا کبیر نے کہا ہے کہ اللہ دریا ہے اور ہم اس کی لہریں ہیں، دریا اور لہر ایک دوسرے سے مختلف نہیں ہیں، دونوں میں فرق نہیں ہے:
دریاؤ کی لہر دریاوہے جی دریاو اور لہر بھن کویم
جو
لہریں اُٹھتی نہیں وہ تو پانی ہی ہیں یعنی جو
لہریں اُٹھتی ہیں وہ پانی ہی تو ہیں اور جو لہریں
بیٹھتی ہیں وہ بھی پانی ہیں، بتاؤ دوسرا کس طرح ہو گا:
اُٹھے تو نیر ہے بیٹھتا نیر ہے کہو کس طرح دوسرا ہویم
اسی نام کو دو بار کہو تو لہر ہے، لہر کہنے سے پانی کھو تو نہیں جاتا:
اُسی نام کو پھیر کے لہر دھار و لہر کے کہے کیا نیرکھویم
دُنیا
ہی برہم (اللہ) ہے اور برہم ہی دُنیا ہے۔ اے کبیر جو میں کہہ
رہا ہوں اُسے خوب جان کر، سمجھ کر اور دیکھ کر
کہہ رہا ہوں:
٭٭٭٭٭٭٭٭