صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں
کھٹی میٹھی یادیں
حیدر قریشی
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
گراموفون سے سی ڈی تک
رحیم یار خاں میں قیام کے زمانے میں، ہمارے بچپن میں جب ہمارے گھر میں بجلی آئی تو بجلی سے چلنے والا ریڈیو بھی آ گیا۔ تا ہم گھر میں ریڈیو آنے سے پہلے ہم بابا جی کے ہاں خانپور میں گراموفون مشین سے متعارف ہو چکے تھے۔ آپی اور میں، ہم دونوں گانا سننے کی بجائے گانا گانے والوں کو ڈھونڈا کرتے تھے۔ کبھی مشین کے بکس کو کھٹکھٹاتے تھے، کبھی اس کے ساتھ منسلک بھونپو کے اندر جھانک کر گانے والوں کو تلاش کرتے تھے۔ ریڈیو کے معاملے میں بھی ہم اسی طرح حیران ہوئے اور پھرا س کے عادی ہو گئے۔ ایک بار بابا جی اپنی ایک گراموفون مشین رحیم یار خاں لے آئے، وہاں انہوں نے پتہ نہیں کس تکنیک سے مشین کا کنکشن ریڈیو سے جوڑ دیا۔ ایک کمرے میں مشین رکھ دی گئی دوسرے میں ریڈیو، مشین پر کوئی گراموفون ریکارڈ چلایا جاتا تو ریڈیو سے وہی گانا سنائی دیتا۔ بچپن کی حیرت انگیز باتوں میں یہ ہمارے لئے ایک اور حیرت انگیز بات تھی۔۔۔ ایک بار بابا جی گراموفون مشین کے پاس بیٹھے تھے، انہوں نے اپنے سامنے بہت سارے گراموفون ریکارڈز پھیلا رکھے تھے۔ شاید اپنی پسند کے بعض ریکارڈز الگ کر رہے تھے۔ اسی دوران پتہ نہیں کسی کام سے وہ تھوڑی دیر کے لئے اٹھے تو میں انہیں کے انداز میں انہیں کی جگہ پر جا کر بیٹھ گیا اور کچھ سمجھے بوجھے بغیر ان ریکارڈز کو باباجی کی طرح غور سے دیکھنے لگا۔ پھر گھٹنوں کے بل ایک طرف بڑھا تو چار پانچ ریکارڈز میرے گھٹنوں کے نیچے آ کر ٹوٹ گئے۔ اسی دوران بابا جی آ گئے۔ اس نقصان سے تھوڑا سے پریشان تو دِکھے لیکن مجھے ڈانٹا نہیں۔۔۔ ایک عرصہ بعد بابا جی میری اسی غلطی کو یوں مزے سے بتایا کرتے جیسے میں نے کوئی کارنامہ سرانجام دیا تھا۔ زندگی بھر تو مجھ سے ڈھنگ کا کوئی کام نہیں ہو سکا تا ہم اتنا تو میں کہہ سکتا ہوں کہ میں نے اپنے بچپن میں ہی چار پانچ ریکارڈز توڑ دیئے تھے۔ یہ غالباً58 ۔1957 کا زمانہ تھا۔
اب یہاں جرمنی میں ایک بار میری بڑی بیٹی ہمارے ہاں آئی ہوئی تھی، میرا نواسہ رومی کھیل رہا تھا، سامنے ٹی وی بھی چل رہا تھا۔ اچانک ٹی وی پر ایک نیم برہنہ سا اشتہار آ گیا۔ ڈھائی سال کے رومی کی نظر ادھر پڑی تو کھیلنا چھوڑ کر ٹی وی کی طرف متوجہ ہو گیا۔ میں نے فورا ریموٹ کے ٹیکسٹ کا بٹن دبا دیا۔ رومی کو لگا کہ میں نے ٹی وی کے ساتھ کچھ کر دیا ہے۔ اس نے مڑ کر میری طرف دیکھا تو میں بالکل انجان بن گیا۔ تب وہ دوڑ کر ٹی وی کے قریب گیا اور جھک کر یوں سکرین کے نیچے سے دیکھنے لگا جیسے ٹیکسٹ کی عبارت کے نیچے سے وہ نیم برہنہ خواتین تھوڑی سی دکھائی دے جائیں گی۔ میں اس کی اس حرکت پر بے اختیار مسکرا دیا۔ تب ہی مجھے احساس ہوا کہ بچپن کی معصومیت کا انداز بے شک وقت بدلنے کے ساتھ بدل جاتا ہے لیکن بچپن کی معصومیت بہر حال معصومیت ہی رہتی ہے۔
خانپور منتقل ہونے تک ہمارے گھر کے اقتصادی حالات کافی بگڑ چکے تھے۔ بابا جی کا گراموفون مشینوں کا شوق بھی ٹھنڈا پڑ چکا تھا۔ ایک دو مشینیں کباڑ کی طرح گھر کے کسی کونے میں پڑی ہوئی تھیں۔ میرا جی چاہتا تھا کہ ایک مشین ٹھیک ہو جائے اور میں اس پر ریکارڈ لگا کر سن سکوں۔ بابا جی سے بات کی تو پتہ چلا ایک مشین ٹھیک ہے۔ اسے جھاڑ پونچھ کر چلانا چاہا تو پتہ چلا بعض پرزوں کو تیل کی ضرورت ہے۔ تیل گھر میں ہی موجود تھا، سو یہ مسئلہ بابا جی کی مدد سے حل ہو گیا لیکن پھر ایک بڑا مسئلہ سامنے آ گیا۔ ریکارڈ چلانے کے لئے مخصوص سوئیوں کی ضرورت تھی۔ سوئیاں بازار سے خریدی جا سکتی تھیں لیکن پیسے کہاں سے آئیں ؟ یہ گہرا مسئلہ تھا۔۔۔ مجھے لڑکپن سے ہی گھر کے حالات کا احساس ہو گیا تھا اس لئے امی جی، ابا جی یا بابا جی سے ایسی فرمائش کرنا ہی زیادتی لگتی تھی۔ لیکن ادھر گراموفون مشین پر ریکارڈز سننے کی شدید خواہش تھی۔ مشین موجود تھی، ریکارڈز بھی موجود تھے لیکن سارا معاملہ مشین کی سوئی پر اٹک گیا تھا۔ یہ خواہش، حسرت میں تبدیل ہونے ہی والی تھی کہ قدرت نے دستگیری فرما دی۔ لیکن سوئیوں کے حصول کی داستاں اب ذرا بعد میں۔۔۔ پہلے خانپور کا ہی ایک اور واقعہ بیان کرنا چاہتا ہوں۔
ہمارے گھر کے مغربی اور جنوبی اطراف میں سیال فیملی کے گھر تھے۔ یہ فیملی کئی بھائیوں اور کزنز اور پھر آگے ان کی اولادوں کے گھروں پر مشتمل تھی۔ ان سب کے گھر دور تک ایک دوسرے سے جڑے ہوئے تھے۔ ہمارے گھر کے جنوبی (عقبی ) جانب منیر سیال کا گھر تھا۔ عمر میں یہ مجھ سے سات اٹھ سال بڑے تھے۔ ان کے والد فوت ہو گئے تھے۔ بیوہ ماں تھی اور منیر سیال تھے۔ صبح سویرے منیر سیال دال چھولے کی چھابڑی لگاتے تھے۔ جو کچھ کماتے لا کر ماں کے ہاتھ میں رکھ دیتے۔ گھر کا خرچہ چل رہا تھا۔ دراصل منیر کے والد یہی کام کیا کرتے تھے۔ ان کی وفات کے بعد اپنی ماں کو سہارا دینے کے لئے منیر کو اپنے والد کی چھابڑی سنبھالنی پڑی۔ جب ہم لوگ خانپور میں رہنے لگے تو مجھے اور میرے چھوٹے بھائی اکبر کو ایک ساتھ سکول جاتے آتے دیکھ کر منیر سیال کے دل میں بھی پڑھنے کی دبی ہوئی خواہش نے سر اٹھایا۔ غالباً چوتھی جماعت کے بعد انہوں نے اسکول چھوڑ دیا تھا اور اس بات کو چار پانچ سال گز ر چکے تھے۔ منیر سیال نے اپنی ماں سے کہا کہ میں پھر سے پڑھنا چاہتا ہوں۔ ماں نے اسے برا بھلا کہا کہ تم پڑھو گے تو گھر کا خرچ کیسے چلے گا۔ سیال برادری کے بعض دیگر بزرگ خواتین و حضرات کو پتہ چلا تو وہ سارے لوگ جو اپنی اولاد کو زیور تعلیم سے اراستہ کر رہے تھے، انہوں نے بھی منیر کی پڑھائی کی مخالفت کی اور یہاں تک کہہ دیا اس کا باپ پڑھا تھا جو یہ بدبخت پڑھے گا۔ مگر وہ’’بدبخت ‘‘ تو اپنی ضد پر اڑ گیا تھا۔ روزانہ ماں بیٹے میں ہونے والے جھگڑے کی آوازیں ہمارے گھر تک سنائی دیتیں۔ آخر ایک دن امی جی نے منیر کی ماں سے پوچھ لیا کہ آپ کے گھر میں کیا جھگڑا ہوتا رہتا ہے ؟۔ منیر کی ماں نے منیر کو برا بھلا کہتے ہوئے اس کے دوبارہ پڑھائی شروع کرنے کے ’’مذموم ارادے ‘‘ کی بابت بتایا تو امی جی نے انہیں سمجھایا کہ اگر وہ تعلیم حاصل کرنا چاہتا ہے تو یہ بہت اچھی بات ہے۔ امی جی کے سمجھانے کا منیر کی ماں پر مثبت اثر ہوا اور انہوں نے آخر کار منیر کو پڑھنے کی اجازت دے دی۔
منیر نے ابتدا میں چھابڑی بھی لگائے رکھی اور گھر پر پڑھائی کرنے لگا۔ اس دوران انہوں نے مجھ سے ٹیوشن کی مدد مانگی اور کہا وہ مجھے مناسب ٹیوشن فیس بھی دیں گے۔ میں نے انہیں بتایا کہ میں صرف ایک بار ٹیوشن فیس لوںگا، کیونکہ مجھے گراموفون مشین والی سوئیاں خریدنی ہیں اور یہ فیس صرف چار آنے ہو گی۔ منیر نے اسی وقت جیب سے چونی نکال کر فیس ادا کی اور میں انہیں پڑھانے کی بجائے سیدھا بازار کی طرف بھاگا۔ وہاں سے مطلوبہ سوئیاں خریدیں۔ گھر آ کر مشین پر گھسے ہوئے ریکارڈز کو لگا لگا کر سنتا رہا۔ گھسے ہوئے ریکارڈز کو اتنی بار سن لیا کہ مزید سننے کی تمنا نہ رہی۔ پھر اسی دن ہی میں نے گراموفون مشین کو اٹھا کر اس کے اصل مقام پر رکھ دیا۔
منیر سیال نے شروع شروع میں مجھ سے تھوڑی سی اردو پڑھی۔ پھر ہمارے اسکول کے ایک دو ٹیچر ان کی مدد کرنے لگے۔ سال ڈیڑھ سال میں انہوں نے اٹھویں جماعت کا بورڈ کا امتحان دیا اور کامیاب ہو گئے۔ پھر تین سال کے بعد پرائیویٹ طور پر ہی دسویں کے امتحان میں شرکت کی اور اس میں بھی کامیاب رہے۔ اس کے بعد انہوں نے سکول ٹیچر کا کورس ptc کر لیا۔ پھر ایف اے بھی کر لیا۔ ایک گاؤں میں ٹیچر لگ گئے، شادی خانہ آبادی بھی ہو گئی۔ منیر سیال کو میری اور اکبر کی وجہ سے تعلیم حاصل کرنے کا شوق ہوا تھا۔ مجھے دسویں جماعت پاس کرنے کے بعد ملازمت کے ساتھ ایف اے، بی اے اور ایم اے کرنے کی توفیق ملی تو اس شوق میں مجھے کچھ شعوری اور کچھ لاشعوری طور پر منیر کے کردار سے تحریک ضرور ملی تھی۔ شاید ایسے ہی چراغ سے چراغ جلتے ہیں۔
جب ہمارے حالات قدرے بہتر ہونے لگے تو بابا جی ایک سیکنڈ ہینڈ بلکہ تھرڈ یا فورتھ ہینڈ ریڈیو ٹرانزسٹر لے آئے۔ ہر سیٹ کی طرح اس سیٹ پر بھی دائیں بائیں KC--MC-MW-SW کے حروف لکھے ہوئے تھے۔ میڈیم ویو یا شارٹ ویو پروگراموں کی فریکوئنسی تلاش کرنے کے لئے ان سے راہنمائی ملتی ہے۔ اکبر تب چھٹی جماعت میں تھا۔ نئی نئی اے بی سی سیکھی تھی۔ چنانچہ وہ انہیں بڑی روانی کے ساتھ مؤ، سؤ، کک، مک پڑھتا تھا۔ ریڈیو کے پیچھے کا کور جب چاہتے کھول لیتے بلکہ اکثر کھلا ہی رکھتے۔ پرزوں کے اصل نام تو خدا جانے کیا ہوں گے۔ دیسی حساب سے بیشتر پرزوں کے نام ہمیں یاد ہو گئے تھے۔ کسی تار کا ٹانکا ٹوٹ جاتا تو بابا جی خود ہی ٹانکا لگا لیتے تھے، ایک بار ریڈیو کے سپیکر سے منسلک تار کا ٹانکا ٹوٹ گیا۔ بابا جی گھر پر نہیں تھے۔ مجھے پریشانی یہ تھی کہ میں نے آل انڈیا ریڈیو کی اردو سروس سے پروگرام’’ یک رنگ‘‘ سننا تھا۔ یہ پروگرام مجھے ویسے بھی اچھا لگتا تھا لیکن اس دن یک رنگ کا الوداعی پروگرام تھا۔ یک رنگ۔۔۔۔ یک رنگ کے نام تھا۔ تب میں نے تار کا ننگا حصہ اسپیکر کی متعلقہ جگہ پر انگلی کے ساتھ مسلسل چپکائے رکھا اور یوں وہ سارا پروگرام سنا۔ ٹانکوں کے مسئلے سے ہٹ کر بھی ریڈیو سیٹ کا طرز عمل ضدی بچوں جیسا تھا۔ چلتے چلتے کبھی آواز کا از خود بڑھ جانا اور کبھی بالکل خاموش ہو جانا۔ جب ریڈیو کا کوئی بٹن کارگر نہ ہوتا تب ایک دو تھپڑ لگانے سے ریڈیو عموماً ٹھیک ہو جاتا تھا۔ ایک بار جب مختلف پرزوں کو چھیڑنے سے لے کر تھپڑ لگانے تک کوئی نسخہ کار گر نہ ہوا تو باباجی نے یہ سمجھ کر کہ اب یہ بالکل ہی ختم ہو گیا ہے، پاؤں کا جوتا اٹھا کر غصے سے ریڈیو پر دے مارا۔ یقین کیجئے ریڈیو اسی وقت ٹھیک ہو گیا۔ ہم سارے گھر والوں کا ہنس ہنس کر برا حال ہو گیا۔ ابا جی کو ریڈیو سے صرف خبروں کی حد تک سروکار تھا۔۔۔۔ بابا جی کے اور میرے درمیان پسندیدہ اسٹیشن لگانے کی کشمکش چلتی رہتی تھی۔ بابا جی کو پاکستانی گانے اور خاص طور پر نورجہاں کے گانے بہت پسند تھے۔ قوالیاں بھی بڑے شوق سے سنتے تھے۔ مجھے اس زمانے میں صرف انڈین گانے اچھے لگتے تھے۔ بابا جی نے ریڈیو لاہور یا ملتان لگایا ہوا ہے۔ میں اٹھا اور آل انڈیا ریڈیو کی اردو سروس لگا دی۔ عصر کے بعد کبھی کبھار اکاش وانی بمبئی وودھ بھارتی و گیا پن کاری کرم بھی کیچ ہو جاتا۔ میرے لئے اس پروگرام کی کمرشلز بھی دلچسپ ہوتی تھیں۔
دراصل دلی، لکھنؤ، کلکتہ اور بمبئی جیسے شہروں کے بارے میں تاریخ اور اردو کی درسی کتابوں میں جتنا پڑھا تھا اس کی وجہ سے یہ شہر میرے لئے خوابوں کے شہر ہو گئے تھے۔ سو بمبئے ریڈیو سن کر میں جیسے اپنے خواب کی آوازیں سن رہا ہوتا تھا۔ جب مجھے دلی جانے کا موقعہ ملا تب خواب اور حقیقت کا فرق معلوم ہوا۔ میرے خوابوں والے دلی کی ہلکی سی پرچھائیں مجھے غالب کے مزار اور حضرت نظام الدین اولیاء کے دربار میں نظر آئی۔ جامع مسجد دہلی اور لال قلعہ کے علاقوں میں بھی ایسی پرچھائیوں کا ہلکا سا احساس ہوا لیکن دلی تو کیا سے کیا ہو چکی۔ دہلی سے Delhi ہو چکی۔ اب اگر کبھی لکھنؤ، کلکتہ اور بمبئے جانے کا موقعہ ملا تو ظاہر ہے مجھے یہ تجربہ تو ہو ہی گیا ہے کہ اپنے خوابوں والے شہر تو اب کہیں بھی نہیں ملیں گے، لیکن خوابوں کی ہلکی ہلکی پرچھائیاں تو کہیں نہ کہیں مل ہی جائیں گی۔
محمد رفیع اور لتا منگیشکر تو مشرقی موسیقی کے امر گلو گار ہیں۔ مکیش، مہندر کپور، طلعت محمود، آشا بھونسلے، گیتا دت، ہیمنت کمار، کشور کمار، سمن کلیان پور، مبارک بیگم اور منا ڈے کے بہت سارے گانے مجھے پسند ہیں۔ پاکستانی گلوکاروں میں سلیم رضا، زبیدہ خانم، مہدی حسن، مسعود رانا، احمد رشدی، مالا، نسیم بیگم، مسرت نذیر، اسد امانت وغیرہ کے گیت مجھے اچھے لگتے ہیں۔ ملکہ ترنم نورجہاں نے 1970 ء کے عرصہ تک بے حد عمدہ گیت گائے، لیکن مجھے لگتا ہے اس کے بعد ان کی آواز جیسے پھٹ گئی ہو۔ سمن اور مبارک بیگم نے بعض بے حد خوبصورت گانے گائے ہیں لیکن خدا جانے وہ فلم انڈسٹری میں کیوں نہیں ٹک پائیں۔ آشا بھونسلے مجھے کئی جہات سے اچھی لگتی ہیں لیکن حال ہی میں انہوں نے جو اپنے خوبصورت گیتوں کو پاپ میوزک سے آمیز کر کے البم نکالے ہیں ان سے مجھے ذاتی طور پر بے حد شاک لگاہے۔ یہ تو فلمی گلوکاروں کے بارے میں میری پسند کا ایک خاکہ سا تھا۔ پرائیویٹ گانے والوں میں مجھے سب سے زیادہ لوک گلوکار پسند ہیں۔ صوفیائے کرام کا کلام گانے والے گلوکار، پھر غزلیں گانے والے اور قوالیاں گانے والے بھی۔ حامد بیلا، نصرت فتح علی خاں، پٹھانے خاں، شوکت علی، عالم لوہار، ریشماں، غلام علی، جگجیت، چترا، پنکج ادھاس اور بے شمار دوسرے گلوکار میری پسند ہیں۔ کبھی کبھار سہگل کے اور اس دور کے گلوکاروں کے گانے سننے میں بھی مزہ آتا ہے۔ اگر میں اپنے پسندیدہ گانوں کی فہرست تیار کر نے بیٹھوں تو شاید ایک چھوٹی سی کتا ب تیار ہو جائے۔ یہاں میں دو گیتوں کا خصوصی ذکر کرنا چاہتا ہوں۔ پہلا گانا فلم خاموشی کا ہے اور اسے لتا جی نے گایا ہے
ہم نے دیکھی ہے ان کی آنکھوں کی مہکتی خوشبو ہاتھ سے چھو کے اسے رشتوں کا الزام نہ دو
یہ گانا میں نے پہلی بار جب سنا تو رات کا وقت تھا " تعمیل ارشاد " پروگرام لگا ہوا تھا۔ گرمیوں کا موسم، ہلکی ہلکی ہوا چل رہی تھی۔ یہ گیت شروع ہوا تو مجھ پر عجیب سا جادو طاری ہو گیا۔ یہ گانا میرے پسندیدہ ترین گانوں میں سے ایک ہے۔ دوسرا گانا بھی لتا جی کا ہے فلم ’’انوپما‘‘ سے : ’’کچھ دل نے کہا، کچھ بھی نہیں۔۔۔ !کچھ دل نے سنا، کچھ بھی نہیں۔۔۔ !ایسی بھی باتیں ہوتی ہیں۔۔۔۔۔۔ ‘‘
میں ریڈیو کی سوئی گھما رہا تھا کہ یہ گیت سنائی دیا۔ آخری انترا چل رہا تھا۔ ادھر ریڈیو بھی مستی سی کر رہا تھا۔ لیکن تیر تو نشانے پر لگ چکا تھا۔ میں نے مکھڑا ذہن نشین کر لیا تب فلم کا نام معلوم نہیں تھا اور پھر مجھے اس گیت کی تلاش ہی رہی۔ جب حالات بہتر ہوئے، اپنا کیسٹ پلے ئر آ گیا تب میں نے اس گانے کی تلاش تیز کر دی۔ لیکن جس سے بھی گانے کی بابت پوچھتے وہ دوکاندار ہنس دیتا کہ جی یہ بھی کوئی گانا ہو گا۔
کچھ دل نے کہا، کچھ بھی نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ 1993 میں جب میں دلی میں تھا تب زی ٹی وی کی نشریات ختم ہونے کے بعد رات کو گانوں کی ایک ہی آڈیوکیسٹ مسلسل اس چینل سے نشر ہوتی رہتی تھی۔ ان گانوں میں یہ گانا بھی شامل تھا۔ مجھے یہ گانا کیا ملا، کوئی کھویا ہوا خزانہ مل گیا تاہم بات صرف ان گیتوں پر ختم نہیں ہوتی لیکن یہاں یہ باتیں کچھ زیادہ ٹھیک نہیں رہیں گی۔
گراموفون اور ریڈیو کے زمانے میں گویا ایک نقاب سا حائل تھا۔ ٹی وی نے آ کر پہلے تو یہ نقاب اتارا، پھر اور بھی بہت کچھ اتار دیا۔ سیٹلائٹ نے کثرت کا ایسا تماشہ دکھایا کہ چینل کا انتخاب کرنا مشکل ہو گیا۔ گراموفون کے زمانے میں فلم بھی تھی لیکن میرے لئے اس کا ہونا ، ’’نہ ہونے ‘‘ کے برابر تھا۔ میں نے تیس سال کی عمر تک فلم نہیں دیکھی۔ سینما ہاؤس میں جا کر اب بھی نہیں دیکھی، وی سی ار، ایشیا نیٹ اور زی ٹی وی کے ذریعے اتنی فلمیں دیکھ لی ہیں کہ زندگی کے ابتدائی تیس برسوں کی کسر بھی نکال دی ہے اور آنے والے کئی برسوں کا کوٹہ بھی پورا کر لیا ہے۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے اتنی فلمیں دیکھ لی ہیں کہ اب فلم دیکھنے کی خواہش ہی نہیں رہی۔ کبھی کوئی بہت اچھی فلم سننے میں آئے تو اسے دیکھ لیتا ہوں۔ کبھی کبھی سوچتا ہوں وہ گیت جوریڈیو پر اچانک سننے کو ملتے تھے اور عجیب جادو سا کر دیتے تھے۔ ٹیپ ریکارڈر آنے کے بعد پوری طرح ہماری دسترس میں آ گئے ہیں۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ آ ب گانا سننے کے لئے ریڈیو کے سہارے کی ضرورت نہیں رہی۔ جب جی چاہے کیسٹ لگائیں اور پسندیدہ گانا سن لیں لیکن نقصان یہ ہوا کہ کتنے ہی خوبصورت گانے بار بار سن کر وہ سرور گم ہو گیا ہے جو ریڈیو پر وہی گیت اچانک سننے سے ملتا تھا۔
شروع میں گراموفون کے ریکارڈ میں ایک طرف ایک گانا ہوتا تھا دوسری طرف ایک اور گانا ہوتا تھا۔ ہر گانے کے بعد ریکارڈ کو تبدیل کرنا پڑتا تھا، مشین کی چابی بھرنا ہوتی تھی۔ اور اب سی ڈی کا زمانہ آ گیا ہے۔ سی ڈی پلے ئر پر بیک وقت تین سی ڈی لگی ہیں۔ لگ بھگ پچاس گانے آپ کے ہاتھ میں ہیں۔ مرضی کا گانا سنتے رہیں۔ اٹھ کر سی ڈی پلے ئر کے کسی بٹن کو چھیڑنے کی ضرورت نہیں ہے، ریموٹ سے کنٹرول کیجئے اور اپنی پسند کے گانے سنتے رہئے۔ ٹیپ ریکارڈ ر کی طرح یہ مجبوری بھی نہیں ہے کہ چھ یا اٹھ گانے ہیں اور ریکارڈ ڈ ترتیب کے مطابق باری باری آتے جائیں گے۔ بس مطلوبہ سی ڈی کا نمبر دبائیں ، پسندیدہ گانے کا نمبر دبائیں اور اطمینان سے اپنی پسند کا گانا سن لیں۔ میں کفران نعمت کو بدترین گنا ہوں میں شمار کرتا ہوں۔ زندگی کے تلخ ترین حالات سے گزرنے کے بعد خدا نے اس قسم کی آسائشیں اور سہولتیں عطا کی ہیں تو ان کے لئے تہہ دل سے خدا کی شکر گذار ی کرتا رہتا ہوں۔ گراموفون مشین اور سی ڈی پلے ئر میں اتنا فرق ہے جتنا بیسویں صدی کی پہلی ربع صدی اور آخری ربع صدی میں فرق ہے۔ زمانہ وہی ہے، صدی وہی ہے، بس گراموفون مشین اب سی ڈی پلے ئر کا روپ اختیار کر گئی ہے۔ اور ہاں۔۔۔۔ میری ذاتی زندگی بھی تو گراموفون سے سی ڈی جیسی ہو گئی ہے۔فالحمدللہ علی ذلک۔
٭٭٭٭٭٭٭٭