صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں
ایک جگنو ہی سہی
سعد اللہ شاہ
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
غزل، نظم
ایک جگنو ہی سہی، ایک ستارا ہی سہی
شبِ تیرہ میں اجالوں کا اشارا ہی سہی
اک نہ اک روز اُتر جائیں گے ہم موجوں میں
اک سمندر نہ سہی اس کا کنارا ہی سہی
ہیں ابھی شہر میں ناموس پہ مرنے والے
جینے والوں کے لیے اتنا سہارا ہی سہی
جب یہ طے ہے کہ ہمیں جانا ہے منزل کی طرف
ایک کوشش ہے اکارت تو دوبارہ ہی سہی
اک تغیر تو ضروری ہے، کسی سمت بھی ہو
کچھ منافع جو نہیں ہے تو خسارا ہی سہی
ہم کو جلنا ہے بہر رنگ سحر ہونے تک
اک تماشا ہی سہی، ایک نظارا ہی سہی
اب کے ایسا بھی نہیں ہے کہ گنوا دیں سب کچھ
ہم کو حکمت میں کوئی بات گوارا ہی سہی
سعدؔ ہم ساتھ ہیں تیرے کسی مجبوری سے
کچھ نہیں ہے تو کوئی درد کا مارا ہی سہی
٭٭٭
بے صدا آہٹ
میں خود کو اس کے قابل کب سمجھتا تھا
تھا کس میں حوصلہ اتنا کہ اپنے خواب کو چھُو لے
مگر اک بے صدا آہٹ پہ جب یہ خواب ٹوٹا تو
مناظر اور ہی کچھ تھے
نہ وہ گلنار سا چہرہ، نہ وہ خوابیدہ سی آنکھیں
نہ سایہ دار وہ پلکیں، نہ خوشبو میں رچی سانسیں
نہ شہد آگیں سے لب اُس کے
نہ اُن پر حرفِ گل کوئی
مکمل اک نیا چہرہ
مکمل اک نیا لہجہ
وہ اس کا یوں بدل جانا تو اس کی اک ضرورت تھی
کھلا مجھ پر کہ اس کے پاس جینے کی فقط یہ ایک صورت تھی
وگرنہ اس میں کیا شک ہے، اُسے مجھ سے محبت تھی
٭٭٭٭٭٭٭٭