صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں


جوئے لطافت

ابوالفرح ہمایوں

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

ڈھنڈ ورا شہر میں 

شادی کے بعد اچھا خاصا عرصہ ہم نے بیگم کے ناز اٹھانے میں ضائع کر دیا۔ طرح طرح کے چٹخارے دار اور مزے دار کھانے پینے کا جنوں ، سیر و تفریح اور ڈھیر ساری شاپنگ (بیگم کی!) غرض یہ کہ دنیا کی وہ کون سی جائز عّیاشی تھی، جو ہم نے نہیں کی۔ یہ حسین اور دل فریب شب و روز ہم پر بڑے مہربان تھے۔ ہم نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ ہر روز عید نیست کہ حلوہ خورد کسے کا وقت بھی آ سکتا ہے۔ پھر یوں ہوا کہ ایک دن وقت نے ہمارے دروازے پر دستک دے دی کہ خوابِ گراں سے جاگنے کے آ گئے ہیں دن۔ ایک ہی سال گزرا تھا، وہ برف کی طرح نامعقول رفتار سے پگھلتی چلی جار ہی تھی۔ اِن حالات میں ہمارے بیگم صاحب کچھ سوچ بچار میں پڑ گئیں اور اُن کی دل جوئی کی خاطر ہم یہ ظاہر کر نے لگے کہ رات کو سوچنے میں ہم بھی ان کے ساتھ شامل ہیں۔ ایک دانشور نے کہا تھا کہ دو دماغ ہمیشہ بہتر ہوتے ہیں۔۔۔۔۔ اگر تکیہ ایک ہو تو! بیگم کے ساتھ مل کر سوچنے سے فرق یہ پڑا کہ اب ہمارے دماغ نے بھی کام کرنا شروع کر دیا اور چند ہی دنوں میں ہم سوچنے کے معاملے میں خود کفیل ہو گئے۔

بیگم صاحبہ نے بہت سوچ بچار کے بعد اسراف پر روک ٹوک لگانے کا فیصلہ کیا، لیکن ہماری عقل کا فیصلہ زیادہ کارآمد اور شان دار تھا۔ بیگم صاحبہ نے بھی اِس تجویز کی داد دی اور ہمارے ذہنِ رسا کو پہلی بار سراہا (ایک ہم ہیں کہ جا بے جا بیگم کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتے نہیں تھکتے!)۔ ہمارا فیصلا یہ تھا کہ ہمیں جلد از جلد ایک مکان خرید لینا چاہیے، تاکہ کرائے کے مکان سے جان چھوٹے اور ہم دنیا والوں کے سامنے سر اٹھا کر کہہ سکیں کہ ہم بھی ایک عدد مکان کے مالک ہیں۔ یہ فیصلہ ہو جانے کے بعد میدانِ عمل میں کود پڑے اور مکان تلاش کرنے کے لیے باقاعدہ دوڑ دھوپ شروع کر دی۔ دوستوں سے کہا، رشتے داروں سے کہا، تمام ملنے جلنے والوں سے کہا اور دفتر کے ایک ایک کارکن سے کہا۔ غرض کہ ہر جگہ ڈھنڈ ورا پیٹ دیا کہ ہمیں جلد از جلد ایک مکان خریدنا ہے۔

اب ہمیں کھانے کا ہوش تھا، نہ پینے کا۔ بس ایک ہی دھن سر پر سوار تھی کہ کسی اچھی سی جگہ پر اچھا سا مکان خریدنا ہے۔ ہمارے ایک دوست عبدالحکیم صاحب نے ایک روز کہا کہ کل صبح میرے گھر آ جاؤ، ایک مکان تمہیں دکھا دوں گا، شاید پسند آ جائے۔ دوسرے دن اتوار تھا۔ ہم صبح ہی صبح یعنی بارہ بجے کے قریب اُن کے مکان پر جا دھمکے گھنٹی بجائی، ملازم نے جھانکا اور اطلاع دی کہ صاحب ابھی ابھی اٹھ کر غسل خانے کی جانب تشریف لے گئے ہیں۔ اُنہوں نے ہدایت کی ہے کہ آپ ڈرائنگ رو۴ میں انتظار کریں۔ اندر بیٹھ کر ’’بیکار مباش کچھ کیا کر‘‘ کے مصداق ہم نے اِدھر اُدھر نظر دوڑانی شروع کر دی۔ کچھ غائب کرنے کی نیّت سے نہیں ، بلکہ دہ دیکھنے کے لیے کہ ہمارے دوست کی مالی حیثیت کیا ہے۔ اگر کبھی قرض مانگنے نوبت آ گئی تو کتنی امداد مل سکتی ہے۔ یکا یک ہماری نظر ایک کتاب پر جا پڑی۔ وقت گزاری کی خاطر ہم نے اِس کا مطالعہ شروع کر دیا۔ یہ کتاب مختلف شاعروں کے مزاحیہ قطعات اطہر شاہ خان جیدی کا تھا۔ ہم نے زمین کے قطعے کا خیال چھوڑا اور جیدی صاحب کے قطعے میں کھو گئے:

یا رب دلِ جیدی میں اک زندہ تمنّا ہے

تو خواب کے پیاسے کو تعبیر کا دریا دے

اِس بار مکاں بدلوں تو اسی پڑوسن ہو

جو قلب کو گرما دے اور روح کو تڑپا دے

ہمارے ذہن میں پھلجڑیاں سی چھوٹنے لگیں۔ اچّھی پڑوسن کا تصوّر ہمیں کسی اور ہی دنیا میں لے گیا۔ ہمیں لمحہ بہ لمحہ اچھّے پڑوسی کی اہمیت اور افادیت کا احساس ہونے لگا۔ جیسے جیسے اِس بارے میں غور کرتے گئے، ہم پشیمان ہوتے چلے گئے کہ اِس سے پہلے یہ بات ذہن میں کیوں نہ آئی۔ پڑوسی کے بارے میں مختلف احادیث بھی ہمارے ذہن میں گردش کرنے لگیں اور اسلامی تہذیب کے حوالے سے سوچتے سوچتے ہم مزید مسلمان ہوتے چلے گئے۔

بظاہر تو ایسا نظر آتا تھا کہ شاعر کا روئے سخن پڑوسن کے حسن و جمال کی جانب ہے، لیکن ہم نے شاعر کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے اِس الزام سے بری کر دیا۔ شاید اُن کے افکار کچھ اونچے درجے کے ہوں اور ہم ہی اپنی کور ذوقی کی بدولت بس ایک ہی نکتے پر اٹک کر رہ گئے ہوں۔ کافی غور و خوض کرنے کے بعد ہم نے چند اور پہلو دریافت کیے۔ شاعر کا نکتۂ نظریہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ پڑوسن ہنس مکھ اور ملنسار ہو، شاعر یا افسانہ نگار ہو، اداکارہ یا گلوکارہ ہو۔ اِن کے علاوہ ڈاکٹر بھی ایک اچھا انتخاب ہے۔ وقت بے وقت ضرورت پڑتی رہتی ہے۔ یا پھر کھانا پکانے میں یکتا ہو، ایسی کہ انگلیاں چبا جانے کو دل چاہے (پکانے والی کی!)۔ ہمارے ایک دوست کہتے ہیں کہ عمدہ اور لذیذ کھانا کھا کر اُن کا جی چاہتا ہے کہ وہ اُس برتن کو بھی توڑ کر کھا جائیں ، جس میں ایسا کھانا پکا ہے، لیکن ہماری نظر میں یہ بد ذوقی کی انتہا ہے۔ کہاں وہ ککڑی جیسی نرم و نازک انگلیاں اور کہاں وہ سخت اور کرخت المونیم یا اسٹیل کی بدوضع دیگچیاں۔ چہ نسبت خاک رابا عالمِ پاک!

غور و فکر کا یہ سلسلہ اُس وقت ٹوٹا جب عبدالحکیم صاحب ایک گھنٹے کے بعد ناشتے وغیرہ سے فارغ ہو کر وارد ہوئے اور حکیم دیا کہ آؤ چلیں ، بہت دیر ہو گئی ہے، میں نے مالک مکان کو بارہ بجے کا وقت دیا تھا۔ عجب بے ہودہ اور بدتمیز دوست تھا۔ خود تو مرزے سے کھا پی کر آگیا اور ہمیں پانی تک بھی نہ پوچھا، حالاں کہ ہم سخت بھوکے تھے۔ صبح سے ایک کھیل تک اُڑ منھ میں نہ گئی تھی۔ گیارہ بجے صبح جب ہم نے بیگم صاحبہ کو اٹھایا کہ ہمیں ایک دوست سے ملنے جانا ہے، کچھ ناشتا وغیرہ دے دو تو وہ خوافنا ک لہجے میں ’’ کیوں تنگ کرتے ہیں ‘‘ کہتے ہوئے دوبارہ نیند کی وادی میں کھو گئیں اور ہم صبر کے گھونٹ پی کر چپ چاپ باہر نکل آئے۔ ہمیں اطمینان تھا کہ دوست کے پاس جا رہے ہیں ، کچھ نہ کچھ تو مل ہے جائے گا۔ ہمیں کیا معلوم تھا کہ یہاں بھی کھانے کو محض صبر کا پھل ہی ملے گا۔ نا چار ہم اٹھ کھڑے ہوئے۔ عبدالحکیم صاحب ہمیں پیدل گھسیٹتے ہوئے دو تین کلو میٹر دور واقع ایک مکان تک لے گئے۔ ایک اچھّا خاصا مکان تھا، قیمت بھی اچھی خاصی تھی۔ تھوڑی سی جدوجہد کے بعد ہم اِس مکان کے مالک بن سکتے تھے۔ لیکن اچھی پڑوسن کا سودا ابھی تازہ تازہ ہمارے دل و دماغ میں سمایا تھا، لہٰذا تھوڑا سا وقت مانگ لیا کہ ایک دو دن میں بتائیں گے۔ ہم نے چھان بین میں ایک ہفتہ لگا دیا۔ بالآخر ہمارے جستجو رنگ لائی۔ ہم یہ پتا چلانے میں کامیاب ہو گئے کہ ’’زیرِ تحقیق‘‘ مکان کے عقب والے مکان میں ہر روز ایک ہنگامہ برپا رہتا ہے۔ ساس اور بہو زبان کے چٹخارے لینے کی خاطر ایک دوسرے پر وہ وہ الزام تراشیاں کرتی ہیں کہ الاماں۔ آس پاس کے رہنے والوں کو بھی تمام مکالمے ازبر ہو گئے ہیں۔ بلکہ اب محلّے کی لڑکیاں بھی ’’ساس بہو، ساس بہو‘‘ کا کھیل کھیلا کرتی ہیں۔ ہم نے دور اندیشی سے کام لیتے ہوئے سوچا کہ اگر ہم یہاں رہے تو ہماری بہو پر ناخوش گوار اثرات مرتّب ہو سکتے ہیں۔ یہ سوچ کر ہم کسی اور جگہ مکان دیکھنے کی فکر میں لگ گئے۔

دوسرا مکان جو ہمیں پسند آیا، وہ بھی پڑوسن کی وجہ سے مار کھا گیا۔ داہنی طرف جو دو منزلہ مکان تھا، اس میں ایک انگلش میڈیم اسکول کی خوب رُو پرنسپل اپنے تین کمر عمر بچّوں کے ساتھ رہائش پذیر تھیں۔ ہماری تحقیق کے نتیجے میں یہ معلوم ہوا کہ مکان اُن کے بھائی کا ہے، جو برسوں سے امریکا میں رہ رہے ہیں اور واپسی کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔ پرنسپل صاحبہ نے اپنے شوہر سے علاحدگی اختیار کر رکھی ہے۔ اِس کی وہ احساسِ برتری کا زعم تھا، کیوں کہ اِن کے شوہر قابلیت اور جسامت میں اِن کے ہمسر نہیں ہیں۔ وہ مہینے میں ایک بار چھٹی والے دن آتے ہیں اور بچّوں کے ساتھ چند گھنٹے گزار کر چلے جاتے ہیں۔ ہمیں اِن کی یہ بات ذرا بھی اچھی نہ لگی کہ شوہر کے ہوتے ہوئے وہ تنہا رہیں اور بچّے باپ کی شفقت و محبت سے محروم۔

تیسرا مکان جو ہم نے دیکھا، وہ اگرچہ شہر کے ایک صاف ستھرے علاقے میں واقع تھا، لیکن نہ جانے کب سے غیر آباد اور سنسان پڑا ہوا تھا۔ اِس کی ویرانی دیکھ کر ایک ہیبت سی طاری ہو گئی۔ یہ مکان ہمیں خاصے رعایتی داموں میں مل رہا تھا۔ مرمّت اور صفائی وغیرہ پر تھوڑی بہت رقم خرچ ہوتی اور پھر ہم ایک بڑی جائیداد کے مالک بن جاتے، لیکن پڑوسن۔۔۔۔۔! بائیں طرف والے مکان میں جو صاحب رہائش پذیر تھے، اُن کے بارے میں معلوم ہوا کہ وہ بے حد زن مرید ہیں۔ بیگم کی ڈانٹ پھٹکار اور لعن طعن کا اُن پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ اُن کے ماتھے پر شکن تک نہیں آتی، بلکہ اُلٹا مسکرا دیتے ہیں اور بیگم کی خدمت کے لیے اپنا تن من دھن وارنے کو تُلے بیٹھے رہتے ہیں۔ اگرچہ یہ تمام خوبیاں ہم میں بھی بدرجۂ اتم موجود ہیں ، لیکن جب موصوف کے بارے میں سنا تو ہماری انا کو سخت ٹھیس پہنچی۔ ہم نے فیصلہ کیا کہ ہم اپنی انفرادیت کو قائم رکھانا پسند کریں گے۔ ایک محلّے میں دو زن مرید نہیں رہ سکتے!

ایک دن ہم ایک مکان پسند کر کے واپس آر ہے تھے کہ اتفاقاً اپنے سامنے والی پڑوسن سے مڈبھیڑ ہو گئی۔ آمنا سامنا تو اکثر و بیشتر ہو ہی جاتا تھا، لیکن بیگم کے خوف سے ہم کترا کر نکل جایا کرتے تھے۔ اُس روز بھی ہم دُم دبا کر نکلنا چاہ رہے تھے کہ محترمہ کی تیز اور کرخت آواز نے ہماری قدموں کی جان نکال دی:

’’ذرا میری بات سنیے!‘‘

اور ہماری سٹّی گم ہو گئی، اُن کا چہرہ دیکھنے کی ہمّت نہ ہوئی، لیکن اُن کی ایک اواز پر ہمارے قدم زمین میں گڑ کر رہ گئے۔ غیرتِ قومی سے نہیں ، بلکہ خود سے! غیرتِ قومی تو ہماری کرکٹ ٹیم میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے، جو گزشتہ نو سال سے تشکیلِ نو کے مرحلے سے نہیں گزر سکی اور ہر شکست کے بعد عوام کو آنکھیں دکھانا اپنا فرضِ عین سمجھتی ہے۔ خیر، اِس وقت پڑوسن ہمارے سر پر سوار تھی۔ ہم نے دل ہی دل میں اندازہ لگانے کوشش کی کہ آخر ہم سے کیا خطا ہو سکتی ہے، مگر کچھ سمجھ میں نہ آیا تو ہم مرے مرے قدموں سے چلتے ہوئے آگے بڑھے اور سر جھکا کر کھڑے ہو گئے۔ ہم گوش بر آواز تھے کہ دیکھیں کیا نادر شاہی حکم موصول ہوتا ہے۔ چند لمحوں بعد ایک پھنکارتی ہوئی آواز ہمارے کانوں میں آئی:

’’ آپ کے بچّے میرے بچّوں کو مارتے ہیں ، اگر آئندہ میں نے کو ئی شکایت سنی تو مجھ سے برا کوئی نہ ہو گا۔‘‘

آپ کا اپنے بارے میں یہ خیال سو فی صد درست ہے (یہ ہم نے دل میں سوچا) اور پھر نہایت عاجزی سے عرض کیا کہ محترمہ، ہمارے تو بچّے ہی نہیں ہیں۔ وہ سٹپٹا کر رہ گئیں ، لیکن شرمندہ ہونے کے بجائے بڑے طمطراق سے فرمایا:

’’پتا نہیں آپ جھوٹ بول رہے ہیں یا سچ، میں اپنے بچوں سے دوبارہ دریافت کروں گی کہ اُنھیں مارنے والے کون سے انکل کے بچے ہیں ؟‘‘

اتنا کہہ کر وہ کھسکنے کی کوشش کرنے لگیں تو ہم نے ہچکچاتے ہوئے درخواست کی کہ اگر برا نہ مانیں تو آج شام اپنے بچّوں سے تعارف کروا دیجیے گا۔ اِس کے بعد ہم دیکھ لیں گے کہ کون اُن کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی دیکھتا ہے۔ اُن کے ہونٹوں پر ایک ہلکی سی مسکراہٹ نمودار ہوئی، پھر اُنھوں نے ایک خاص ادا سے اپنے شانے اُچکائے اور آگے بڑھ گئیں۔ ہم دیکھتے ہی رہ گئے، اُن کو نہیں ، اپنے گھر کو کہ کہیں بیگم صاحبہ ہماری نگرانی نہ فرما رہی ہوں!

چند ہی دنوں بعد صبح صبح گھنٹی بجی۔ ہم نے جلدی سے جا کر دروازہ کھولا، مبادا بیگم صاحبہ کی نیند خراب ہو جائے۔ سامنے وہی سامنے والی کھڑی تھیں۔ ہم دل ہی دل میں بے حد خوش ہوئے کہ آج نہار منھ ایک اچھی شکل دیکھنے کو ملی۔ نیک شگون ہے، دن اچھا گز رہے گا۔ ہم نے اُنھیں انتہائی ادب سے سلا م کیا اور منتظر رہے کہ کیا حکم صادر ہوتا ہے۔ شاید بحیثیت پڑوسن پیاز، نمک، مرچ، چینی، دودھ یا کوئی اور چیز لینے آ گئی ہوں ، لیکن اچانک وہ گھنگھور گرج اور چمک شروع ہوئی کہ ہم ہکّا بکّا اُن کا منھ دیکھتے رہے گئے۔ اُس دن ہم پر یہ انکشاف ہوا کہ شیریں سخن اور غنچہ دہن لوگ کیسے ہوتے ہیں۔ وہ کہ رہی تھیں :

’’ تم لوگوں کو تو شرافت نام کی کوئی چیز چھوکر نہیں گزری۔ شہری شعور کیا ہوتا ہے، یہ جانے تمھاری جوتی۔ شرم و حیا اور تمیز تہذیب کا تو تم لوگوں سے کوئی واسطہ ہی نہیں۔ نہ جانے کہاں سے اُٹھ کر یہاں شریفوں کے محلّے میں آ گئے۔ کچھ پیسے کیا آ گئے ہیں کہ اپنے آپ کو نواب سمجھنے لگے۔۔۔۔۔‘‘

اُن کی یہ گل افشانیِ گفتار اِس تیزی سے آگے بڑھ رہی تھی کہ ہم نے سوچا، اگر اِس کے آگے بند نہ باندھا گیا تو یہ سیلابِ بلا ہمیں نہ جانے کہاں بہا کر لے جائے گا۔ بالآخر ہم نے قطع کلامی کی گستاخی کر ہی ڈالی اور انتہائی معذرت کے ساتھ دریافت کیا:

’’خاتون! آپ اِس قدر غصے میں کیوں ہیں ؟ ہمارا قصور تو بتائیے؟‘‘

ہمارا یہ پوچھنا غضب ہو گیا۔ وہ اتنی زور سے دھاڑیں کہ قریبی درختوں سے چڑیاں بھی گھبرا کر اُڑ گئیں۔

’’ تم نے اپنے گھر کا سارا کاٹھ کباڑ جمع کر کے ہمارے دروازے پر ڈال دیا ہے اور پھر پوچھتے ہو کہ ہمارا قصور کیا ہے؟‘‘ اُنھوں نے اپنے دروازے کے طرف انگشت نمائی کی۔ ہم نے دیکھا تو وہاں واقعی بوسیدہ اور گلی سڑی چیزوں کا ایک انبار پڑا ہوا تھا۔ ہمیں اپنی پڑوسن سے ہمدردی محسوس ہونے لگی:

’’ آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے۔ یہ کام ہم نے نہیں کیا۔‘‘ ہم نے دست بستہ عرض کیا۔

’’ تم نے نہیں کیا تو آخر کس نے کیا’ مجھے فلاں کے بچّے نے بتایا ہے کہ اِس مکان والے انکل نے میرے سامنے یہ سب گند یہاں ڈالا ہے۔ کیا وہ جھوٹ بول رہا ہے۔۔۔۔؟‘‘

’’ یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں ؟ ہم تو آپ کے بالکل بے ضرر اور انتہائی نیک دل پڑوسی ہیں۔‘‘ ہم روہانسے سے ہو گئے۔ ’’اگر آپ کہیں تو ہم کسی مزدور کو بلاکر گندگی کا یہ ڈھیر اُٹھوائے دیتے ہیں ، مزدوری آپ ادا کر دیجیے گا!‘‘

اُنھوں نے ہماری جانب کھا جانے والی نگاہوں سے دیکھا۔ خاتون کا چہرہ بالکل سرخ انگارے کی طرح دہک رہا تھا (بلکہ ہمارے خیال میں ’’دمک‘‘ رہا تھا)۔

’’بیکار کی باتیں مت کرو۔ میں خوب سمجھتی ہوں تم جیسے لوگوں کو۔ چلو۔

اُٹھاؤ یہ سب گند بلا اور سامنے والے میدان میں پھینک کر آؤ۔‘‘

ہم نے عافیت اِسی میں جانی کہ وہ کہہ رہی ہیں اِس پر فی الفور عمل درآمد کر دیا جائے، ورنہ محلّے والے بیدار ہو کر آ گئے تو لینے کے دینے پڑ جائیں گے۔ پھر سب سے بڑا خطرہ تو ہماری بیگم صاحبہ کی طرف سے تھا، جو ابھی تک خوابِ خرگوش کے مزے لے رہی تھیں۔ اگر شیطان نے اُن کے کان میں کچھ پھونک دیا تو وہ زور کا رَن پڑے گا کہ اﷲ کی پناہ، اور ہم مفت میں مارے جائیں گے۔ ہم نے فوراً ایک بورے کا بندوبست کیا اور یہ سوچ کر جلدی جلدی وہ کاٹھ کباڑ اُس میں بھر نے لگے کہ ہو سکتا ہے ہمارا یہ نیک عمل پڑوسن کو پسند آ جائے اور وہ ہمیں اپنے پسندیدہ لوگوں کی فہرست میں شامل کر لیں ، مگر مڑ کر دیکھا تو وہ اُسی طرح برقِ تپاں بنی ہمیں گھور رہی تھیں۔ پھر یکایک ہمارے ذہن میں ایک جھماکا سا ہوا اور ہماری عقل پر پڑا پردہ ایک دم سے چھٹ گیا۔ ہم نے تو کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ ایسی نعمتِ غیر مترقّبہ ہمیں بیٹھے بٹھائے مل جائے گی۔

پڑوسن کی آگ بگولا آنکھیں دیکھ کر اور زہر اگلتی ہوئی باتیں سن کر ہمیں اپنی بیگم بہت اچھی لگنے لگیں۔ صبر و شکر کا صحیح مقام کیا ہے، اب ہمارے سمجھ میں آگیا! ہمارے منھ سے بے ساختہ ایک قہقہہ اُبل پڑا۔ پڑوسن ہمارے یہ حالتِ زار دیکھ کر چکھ گھبرا سی گئیں۔ اُنھیں شک گزرا کہ شاید ہمارا دماغ چل گیا ہے۔ اُنھوں نے ترحم آمیز انداز میں ہماری جانب دیکھا۔ پڑوسن کی نگاہوں میں ہمارے لیے ہمدردی کے جذبات جاگے تو، خواہ کسی وجہ سے سہی۔ ہمارا دماغ آسمان پر اُڑنے لگا۔ ہم نے آناً فاناً فیصلہ کر لیا کہ ہم اب اِسی مکان میں رہیں گے۔ مالک مکان اگر اِسے فروخت کرنے پر آمادہ نہ ہوا تو کرائے پر رہ لیں گے، لیکن اِسے چھوڑیں گے نہیں۔۔۔۔۔

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول