صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں


جونک او ر تتلیاں

طویل کہانی

سید اسد علی

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                  ٹیکسٹ فائل

اقتباس

کیا آپ یقین کرو گے کہ ایک بالشت بھر کی مچھلی پانچ کلو کی مچھلی کو کھا جائے اور اس طرح کہ اس کی ہڈیوں کی بھی خبر نہ رہے ۔ اور آخری چیز جو کوئی دیکھ سکے وہ بڑی مچھلی کی دم ہو جو بالشتیا کے منہ میں گم ہوتی نظر آتی ہو۔ میں بھی یقین نہیں کرتا تھا۔ اس وقت بھی نہیں جب وہ چھوٹی مچھلی میرے قریب آئی۔ تب تو خیر میں نے اسے اتنی اہمیت بھی نہ دی تھی کہ اسے غور سے دیکھ ہی لیتا کہ وہ میرے لئے ایسی ہی بے حقیقت شئے تھی مگر جب اس نے اپنے دانتوں کو میرے جسم میں پیوست کر دیا اور درد کے پیام بر بڑی بڑی مشعلیں لئے میرے جسم میں دوڑنے لگے تو میں نے پہلی بار اسے غور سے دیکھا۔ وہ تب بھی اتنی ہی بے حقیقت تھی کہ اسے خود سے علیحدہ کرنا بھی ایک کارِ بے کار لگتا تھا۔ آخر وہ کیا کر لے گی؟یہ تھا وہ سوال جس نے مجھے چند لمحے اور غفلت کی گود دے دی۔ اور یہ تو ہونا ہی تھا۔ وقت نے مجھے کبھی ایسے مقابلے کے لئے تو تیار کیا ہی نہ تھا۔ میں تو مچھلیوں کے جھنڈ میں تیرتا تھا اور زندگی نے مجھے سکھایا تھا تو صرف اتنا کہ مجھے اس سفر میں محتاط رہنا ہو گا ان بڑی مچھلیوں سے جو کبھی کبھار کسی انجانی سمت سے ہم پر آ لپکتی ہیں ۔ اور میں بہت محتاط تھا۔ مچھلیوں کے غول کے بیچ ایسی محفوظ جگہ تیرتا تھا جہاں کسی بھی حملے کی صورت میں بچ کر نکل سکوں ۔ مگر محفوظ جگہ کوئی نہیں ہوتی اور یہی میری عجیب کہانی کا واحد نکتہ ہے جو منطقی نتیجے کے طور پر ہم آگے لے کر چل سکتے ہیں ۔ وگرنہ باقی سب تو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ باقی سب تو بس اتنا نہ سمجھ میں آنے والا ہے کہ ایسی کہانی کو بھول جانا ہی بہتر ہے ۔

میں جیسے رنگین تتلیوں میں گھرا ایک ننھا خرگوش تھا جو گیت گاتے پرندوں اور نرم گھاس کی کونپلوں کے بیچ بھاگا پھرتا تھا۔ میرے پاس سب کچھ تھا سوائے ایک مقصد کے اور پھر ایک دن کچھ ہوا۔ ایک زوردار دھماکہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ شاید کوئی گولی چلی اور سب کچھ بدل سا گیا۔ وہ ساری تتلیاں ، وہ سارے پرندے کسی خاموش،پرسکون دیس کی کھوج میں پر پھڑپھڑاتے اڑ گئے اور میں ایک کاٹ دینے والی تنہائی سے لڑنے کو اکیلا رہ گیا۔

اور اس دن میں پہلی بار اسے محسوس کیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ جونک جو نجانے کب سے میری پشت پر اپنے پنجے گاڑے بیٹھی تھی۔ پہلی مرتبہ میں نے ایک جونک کے وجود میں چھپی نعمت کو محسوس کیا۔

میں اکیلا نہیں تھا۔ کوئی تھا جو انتہائے خوف کی ان گھڑیوں میں بھی میرے ساتھ تھا۔ گویا وہ میرے بدن کا حصہ ہو۔ میری آنکھیں تشکر سے بھیگ گئیں ۔ مجھے لگا کہ خوف کی چادر پھینک کر مجھے پھر سے زندگی کی دوڑ میں شامل ہونا ہے ۔ اس لئے نہیں کہ مجھے یکایک زندگی سے کوئی لگاؤ ہونے لگا تھا۔ نہیں مجھے تو شاید اس جونک کے وجود سے محبت ہو گئی تھی۔ مجھے پہلی بار لگا کہ کسی کو کتنی شدت سے میری ضرورت ہے ۔ تو میں اب سالوں زندہ رہنا چاہتا تھا صرف اس لئے کہ جونک کو تازہ خون ملتا رہے ۔

میں نہیں کہہ سکتا کہ یہ کہانی کہاں سے شروع ہوتی ہے کیونکہ اس کا آغاز تو میری پیدائش سے بھی بہت پہلے ہو گیا تھا۔ مگر وہ سب واقعات ہیں ، اعداد و شمار ہیں جن میں کوئی ربط نہیں ہے ۔ مگر پھر ایک واقعہ ہوا جس نے میری پوری زندگی کے بکھرے موتیوں کو گویا ایک لڑی میں پرو دیا۔ تو میں اسی واقعہ سے آغاز کرتا ہوں ۔

 یہ کہانی ایک گھر سے شروع ہوتی ہے ۔ ایک گھر جو بہت خوبصورت، نہائیت شاندار تھا مگر نہ تو اسے بیچا جا سکتا تھا اور نہ کرائے پر دیا جا سکتا تھا۔ اور یہ سب اس لئے کہ آپ انسانیت پر ایک ٹکے کا بھی اعتبار نہیں کر سکتے ۔ یقین کیجئے کہ میں نے بہت کوشش کی مگر کیا کروں کہ ایک پورا شہر مل کر بھی مجھے ایک چھوٹی سی بات کا یقین نہیں دلا سکا کہ اس گھر کی ایک کھڑکی کو کھولا نہیں جائے گا۔ اس گھر میں درجنوں کھڑکیاں تھیں اور صرف ایک کھڑکی تھی جسے نہیں کھولا جانا تھا مگر کیا کریں کہ انسان چیزوں کو عجیب ہی نظر سے دیکھتا ہے ۔ پوری جنت ایک طرف اور شجرِ ممنوعہ کا پھل ایک طرف ہو جاتا ہے ۔ اگر میں انسانیت کو صحیح سمجھا ہوں تو وہ چیزوں کو دو رنگوں میں دیکھتا ہے ۔ وہ جو اسے میسر ہیں اور وہ جو ابھی اس کی دسترس سے باہر ہیں ۔ جب تک ایک بھی شئے اس کی دسترس سے باہر ہے تو وہ میسر چیزوں سے بھی لطف اندوز نہیں ہو سکتا۔

آخری چارے کے طور پر میں نے خود اس میں رہنا شروع کر دیا۔ اور تکلیف کی بات یہ ہے کہ مجھے خود پر بھی یقین نہیں تھا کہ میرے ہاتھ کسی کمزور لمحے میں اس کھڑکی کو کھولنے سے رکے رہیں گے ۔ میں تقریباً دو سال وہاں رہا لیکن اس دوران میں ایک لمحہ بھی ایسا نہیں آیا جب میں مکمل اعتماد سے خود کو کہ پاتا کہ کم از کم آج کے دن میں یہ کھڑکی نہیں کھولوں گا۔ میں نے آخر میں وہ کھڑکی کھولی یا نہیں ؟یہ ایک آسان سوال ہے اور اس کا جواب بڑی آسانی سے ایک واقعہ بتاتے ہوئے دیا جا سکتا ہے ۔ اور میں آپ کو یہ بات بتاؤں گا بھی لیکن مجھے کہنے دیں کہ میں نے وہ کھڑکی کھولی یا نہیں یہ بالکل randomسا عمل تھا۔ یہ حقیقت آپ کو اس اسرار کے بارے میں کوئی بھی مفید چیز نہیں بتا پائے گی۔ اگر مجھے زندگی میں دوبارہ انہی حالات میں لا پھینکا جائے تو شاید میں اس کے بالکل مختلف،بالکل الٹا عمل کر گذرتا۔ لیکن اگر ہم زندگی کی سطحیت سے ذرا بلند ہو کر اس سب کو دیکھیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جہاں سے اس کھیل کے بڑے کھلاڑی خدا اور شیطان وغیرہ دیکھتے ہیں تو آپ کو سمجھ آئی گی کہ وہاں randomnessکی کوئی جگہ نہیں ہے ۔ وہاں ہر چیز کی ایک نہ جھٹلائی جانے والی وجہ ہوتی ہے ۔ تو میں اس کہانی میں اسی چھپی ہوئی وجہ کو کھوجنے کی کوشش کروں گا۔

میں جانتا ہوں کہ میں خود ہی اپنی چیزوں کو مشکل بنا رہا ہوں لیکن میری کتنی بیوقوفی ہو گی کہ اگر میں اس چیز کو آسان و سادہ بنانے کی کوشش کروں جسے فطرت نے پیچیدگی کے لئے تخلیق کیا ہے ۔ اسی طرح اس چیز کو ایک اور levelپر سمجھنے کی بھی ضرورت ہے کیونکہ اس کہانی میں کچھ بڑے کھلاڑی بھی ایک مقام پر شامل ہو جاتے ہیں (اور لامحالہ ان کے ساتھ وہ پوری higher dimensionبھی چلی آتی ہے )۔ میں خدا کے بارے میں کوئی حتمی بات نہیں کہ پاؤں گا(خدا کے بارے میں کب کوئی حتمی بات کہ پایا ہے ؟)ہاں مگر شیطان شاید ایک موقع پر اس کہانی میں آ وارد ہوتا ہے ۔ یہ وہ مقام ہے جہاں کہانی ’’کہانی کار‘‘ کو اپنے قبضے میں لے لیتی ہے ۔ یہاں روشنی ملگجے اندھیروں میں ڈھلنے لگتی ہے ۔ اس لئے میں کوئی وعدہ نہیں کر پاؤں گا کہ میں آپ کو ہر چیز اس کے صحیح رنگ میں دکھا پاؤں گا۔ ہاں مگر میں کوشش کروں گا کہ میں سب واقعات کو بڑے سیدھے اور آسان طریقے سے بیان کر دوں (شاید صرف حقائق ہی بیان کر دوں ) پر اصل کہانی ان سطروں کے کہیں بیچ میں چھپی ہو گی۔ میری واحد استدعا یہی ہو گی کہ ان سطروں سے گذرتے ہوئے اگر کسی کہانی کو پگڈنڈی پر بیٹھے دیکھیں تو اسے نظرانداز کرنے کی بجائے اپنی چھوٹی سی گاڑی میں بٹھا کر ساتھ لے چلیں ۔ 

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                  ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول