صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
جونک او ر تتلیاں
اور دوسری کہانیاں
سید اسد علی
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
سنگریزہ
میں چھوٹا آدمی ہوں ۔ اور میں چھوٹا آدمی اس لئے ہوں کہ میں کبھی چھوٹی چھوٹی چیزوں سے اوپر نہیں اٹھ سکا۔ میں تو وہ ہوں کہ تم مجھے اہرامِ مصر کے سامنے لے جاؤ تو بہت ممکن ہے میں اسے دیکھوں بھی نہیں (خیر یہ تو تھوڑا مبالغہ ہو گا۔ میں اہرام پر چند بھرپور نظریں ضرور ڈالوں گا لیکن اس کی عظمت، اس کی شوکت کبھی میرے دل میں نہیں اتر سکے گی)۔ میں اس کے سامنے گھنٹوں گذار دوں گا اور جانتے ہیں ان سارے گھنٹوں میں میں کیا دیکھ پاؤں گا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ایک چیونٹی جو ریت پر چلی جاتی ہے اس بات سے بے پرواہ کہ اس کے سامنے کیسا شاہکار کھڑا ہے ،سیاحوں کے ایک جوڑے کا بے معنی مشاہدہ جو شاید آج ہوٹل سے لڑ کر آئے ہیں اور اسی قبیل کی چھوٹی چھوٹی چیزیں ۔
مگر تم ایسی نہیں تھی۔ تم صرف بڑی بڑی چیزیں دیکھتی تھی۔ جیسے وہ دن جب تم سمندر کے کنارے چل رہی تھی۔ ایسے کہ تم سمندر کا نہ جدا کئے جانے والا حصہ دکھائی دیتی تھی۔ میں بھی تمہارے ساتھ چلتا تھا مگر میری نظریں سمندر کے ساحل پر بکھرے ہزاروں سنگریزوں پر پھسلتی تھیں اور میں سوچتا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
میں بھی شاید سمندر کے ساحل پر بکھرے لاکھوں سنگریزوں میں سے ایک سنگریزہ تھا۔ میری تراش، میری بناوٹ، میری قیمت کسی سے جدا نہیں تھی۔ میں اپنی ذات میں ’’ہونے ‘‘کے باوجود ’’نہیں ‘‘تھا۔
بس سمندر کے ساحل پہ بکھرے ہزاروں سنگریزوں کے بیچ ایک سنگریزہ تھا اور اپنے وجود میں شرمناک حد تک بے حقیقت تھا۔
اور پھر تم نے مجھے اٹھا کر اپنے گلے کی زینت بنا دیا۔ تم نے مجھے میری قیمت کی وجہ سے نہیں چنا۔ بس ویسے ہی گویا اس سمندر کی یادگار سمجھ کر اٹھا لیا اور یوں تم نے میری تخلیق کی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نئی تخلیق۔ پہلی بار ’’میں ‘‘نے جنم لیا(اس سے پہلے تو بس ’’ہم‘‘ تھے )۔ پہلی بار مجھ سے محبت کی گئی۔ پہلی بار مجھے سمجھا گیا۔ جیسے جیسے مجھ پر عنایتیں بڑھتی گئیں ویسے ویسے میرے اندر خوف بڑھتا گیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہیں تم مجھے پھر سے ساحل پر بکھرے سنگریزوں کے بیچ نہ پھینک دو۔ پھر وہی سمندر کا ساحل ہو گا۔ مگر اب ہزاروں ، لاکھوں سنگریزوں کے بیچ ایک سنگریزہ ایسا ہو گا جو شکل و شباہت اور ہر محسوس کئے جا سکنے والے معیار پر انہی جیسا ہو گا مگر ساتھ میں بہت مختلف بھی ہو گا۔ ’’ہم‘‘ کے ڈھیر میں ایک ’’میں ‘‘۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ایسا سنگریزہ جو اپنے آپ کو پہچانتا ہو۔ جو کبھی کسی حسینہ کے گلے کی زینت رہ چکا ہو۔
ایسے میں سمندر نے (کہ وہ راز دانِ کامل ٹھہرا) چپکے سے میرے کانوں میں یہ کہ دیا۔ اس ساحل پر بکھرا ہر سنگریزہ کبھی ’’میں ‘‘تھا۔ وہ کسی نہ کسی حسینہ کے گلے کی زینت رہ چکا تھا یا پھر کسی فال نکالنے والے بوڑھے جپسی نے اس کی مدد سے مستقبل کو دیکھا تھا یا پھر کسی بچے نے اسے اپنے ریت کے قلعے کی دیوار پر لگایا تھا۔ اس ’’ہم‘‘ کے سمندر میں سب ’’میں ‘‘ ہیں ۔ سب تنہا ہیں ۔ بہت اکیلے ہیں ۔ ایک سنگریزے کے لئے یہ ممکن نہیں کہ وہ ’’ہم‘‘ اور ’’میں ‘‘ کے اس کھیل کو سمجھ سکے ۔ ایک سنگریزے کا مقدر ہے کہ وہ ’’میں ‘‘ہوتے ہوئے ہم بن کر رہے تاکہ ساحل پر آنے والے سیاحوں کے پاؤں ان کی انفرادی اناؤں سے کچلے نہ جائیں اور وہ یہاں کی سحر انگیز ہوا کا لطف اٹھا سکیں ۔
٭٭٭