صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں
جسم و جاں کے تمام رشتے
عبید اللہ علیم
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
غزلیں
ایک میں بھی ہوں کُلہ داروں کے بیچ
میرؔ صاحب کے پرستاروں کے بیچ
روشنی آدھی اِدھر، آدھی اُدھر
اک دیا رکھا ہے دیواروں کے بیچ
میں اکیلی آنکھ تھا کیا دیکھتا
آئینہ خانے تھے نظاروں کے بیچ
ہے یقیں مجھ کو کہ سیارے پہ ہوں
آدمی رہتے ہیں سیاروں کے بیچ
کھا گیا انساں کو آشوبِ معاش
آ گئے ہیں شہر بازاروں کے بیچ
میں فقیر ابنِ فقیر ابنِ فقیر
اور اسکندر ہوں سرداروں کے بیچ
اپنی ویرانی کے گوہر رولتا
رقص میں ہوں اور بازاروں کے بیچ
کوئی اس کافر کو اس لمحے سنے
گفتگو کرتا ہے جب یاروں کے بیچ
اہلِ دل کے درمیاں تھے میرؔ تم
اب سخن ہے شعبدہ کاروں کے بیچ
آنکھ والے کو نظر آئے علیمؔ
اک محمد مصطفے ٰ ساروں کے بیچ
٭٭٭
وہ زمین غالب کی لکھوں جس میں ہے تکرار دوست
میں بھی کھینچوں قامت جاناں یہ ہے اسرار دوست
دیکھ کر قد قیامت سوچ کر زلفیں دراز
اپنی ہی رفتار کے نشے میں ہے رفتار دوست
ہاتھ اٹھے ہوں دعا کو اس طرح اس کا بدن
قتل عاشق کو بہت ہے قامت تلوار دوست
ہائے وہ کاجل بھری آنکھیں وہ ان کا دیکھنا
ہائے وہ نور حیا سے آتشیں رخسار دوست
جیسے ہم آغوشیِ جاں کے زمانے ہوں قریب
ان دنوں ایسے نظر آتے ہیں کچھ آثار دوست
اک محبت سے محبت ہی جنم لیتی رہی
ہم نے اس کو یار جانا جس کو دیکھا یار دوست
روح و تن نے ہر نفس اک آنکھ چاہی تب کھلا
دیکھنا آساں ہے مشکل ہے بہت دیدار دوست
سب سخن کے جام بھرتے ہیں اسی سرکار سے
جس پہ اب جتنا کھلے میخانۂ گفتار دوست
بس یوں ہی موجیں بھریں یہ طائران خدوخال
بس یوں ہے دیکھا کریں ہم گلشن گلزار دوست
٭٭٭