صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
جھنگا پہلوان نے کرکٹ کھیلا
ایم مبین
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
جھنگا پہلوان نے کراٹے سیکھا
جھنگا پہلوان تین بنی پر اپنی مخصوص کھاٹ پر بیٹھے تھے اس وقت للو ایک ۱۸ ، ۲۰ سال کے نوجوان کو لیکر۔
’’استاد ان سے ملئے ان کا نام ہے رندھیر سنگھ۔ ‘‘
’’ ہیلو ‘‘، کہتے نوجوان نے مسکراتے ہوئے اپنا ہاتھ جھنگا پہلوان کی طرف بڑھا۔ پہلوان نے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیا اور عادت کے مطابق اس کا ہاتھ زور سے دبایا۔
یہ پہلوان کی عادت تھی جو بھی ان سے ہاتھ ملاتا تھا اس کا ہاتھ اتنی زور سے دباتے تھے کہ وہ درد سے چیخ اٹھتا تھا۔
لیکن رندھیر کا ہاتھ دباتے ہی وہ چونک پڑے۔
ان کے ہاتھ دبانے کا رندھیر پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ لیکن ان کو ایسا لگا جیسے انہوں نے کوئی پتھر ہاتھ میں لیکر اسے دبایا ہو۔
رندھیر سنگھ کا ہاتھ اتنا سخت تھا، پتھر کی طرح سخت، صورت و شکل سے وہ کوئی نیپالی یا چینی یا جاپانی لگتا تھا۔
’’استاد یہ جوڈو ، کراٹے اور کنگ فو کے ماہر ہیں تین بلیک بیلٹ یافتہ ہیں۔ اور لوگوں کو جوڈو کراٹے سکھاتے ہیں۔ ‘‘ للو نے رندھیر کا آگے تعارف کرایا ’’آپ سے ملنا چاہتے تھے۔ سو میں آپ کے پاس لیکر آیا۔ ‘‘
’’ آپ سے مل کر بے حد خوشی ہوئی‘‘، رندھیر بولا۔ ’’ میں نے آپ کے بہت چرچے سنے ہیں۔ میں روٹری کلب کے ہال میں لوگوں کا جوڈو کراٹے سکھاتا ہوں۔ کبھی تشریف لائیے۔ ‘‘
’’ضرور آؤں گا۔ ‘‘ پہلوان بولے،’’ تمہارے ہاتھ بہت سخت ہیں۔ ‘‘
’’جوڈو کراٹے میں اگر ہاتھ سخت نہ ہو تو پھر جوڈو کراٹے کا استعمال ہی نہیں کیا جاسکتا۔ اس فن میں سب سے پہلے ہاتھوں کو مضبوط بنایا جاتا ہے۔ ‘‘ رندھیر بولا۔
پھر ادھر ادھر کی باتیں ہونے لگی۔ باتوں باتوں میں رندھیر نے بتایا وہ نیپال کا رہنے والا ہے۔ اس نے جوڈو کرائے کی تعلیم تبت میں حاصل کی۔ گذشتہ کچھ دنوں سے اسی شہر میں لوگوں کو کراٹے سکھا رہا ہوں۔
پہلوان نے کراٹے کے بارے میں بہت سن رکھا تھا۔ جس طرح پہلوانی اگر ہندوستانی فن تھا تو چین جاپان کا یہ فن تھا۔ اس کا ماہر اکیلا چالیس پچاس لوگوں سے لڑ سکتا تھا۔
اگر وہ بھی اس فن کو سیکھ جائیں تو یہ فن ان کا جسم اور طاقت وہ کسی چھوٹی موٹی فوج کا مقابلہ بھی اکیلے کر سکتا ہے۔
یہ سوچ کر انہوں نے جوڈو کراٹے سیکھنے کی دل میں ٹھان لی۔ دوسرے دن وہ روٹری کلب ہال پہنچ گئے۔
رندھیر سنگھ وہاں لوگوں کو تعلیم دے رہا تھا۔ پہلوان کو دیکھ کر بہت خوش ہوا۔
’’ آئیے آئیے پہلوان جی، آپ ہماری کلاس میں آئے ہیں۔ ہماری تقدیر جاگ گئی۔ ‘‘ اس نے جھنگا پہلوان کا استقبال کیا۔
استاد تھوڑی دیر ایک کرسی پر بیٹھ کر کلاس میں کراٹے سیکھنے والے طالب علم اور ان کے استاد رندھیر سنگھ کا جائزہ لیتے رہے۔
دونوں منہ سے طرح طرح کی آوازیں نکالتے اور ایک دھکے سے خاص پوزیشن میں آ جاتے تھے۔ کبھی ہاتھ آگے پیر پیچھے تو کبھی پیر آگے ہاتھ پیچھے۔ یہ تمام حرکتیں منہ سے ایک خاص قسم کی آوازیں نکلنے کے ساتھ ہوتی تھیں۔
پہلوان کی سمجھ میں نہیں آیا۔ ان حرکتوں سے ہاتھ کی مضبوطی کا کیا تعلق ہے۔ ان کے ذہن میں تو رندھیر کا پتھر کی طر ح سخت مضبوط ہاتھ بیٹھا ہوا تھا۔ وہ ہاتھ پتھر کی طرح سخت مضبوط کس طرح ہوتا ہے۔ پہلوان یہ جاننا اورسننا دیکھنا چاہتے تھے۔
’’ایک منٹ سب رک جائیے اور اپنی جگہ بیٹھ جائیے۔ ‘‘ رندھیر نے اپنے شاگردوں کو بیٹھنے کا اشارہ کیا ’’ہماری کلاس میں شہر کے مشہور پہلوان جھنگا پہلوان تشریف لائیے ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ ان کے سامنے اپنے فن کا مظاہرہ کروں۔ ‘‘
سب نے تالیاں بجا کر رندھیر کی اس بات کا استقبال کیا۔
پہلوان کو صدر کی کرسی پر براجمان کر دیا گیا۔
اور ان کے سامنے رندھیر نے اپنے فن کا مظاہرہ کرنا شروع کر دیا۔ ایک ٹیبل پر ایک اینٹ لا کر رکھی گئی۔
رندھیر نے منہ سے ایک عجیب قسم کی آواز نکالی اور اپنے ہاتھ کا وار کر کے اس اینٹ کے دو ٹکڑے کر دیئے۔
اس کے بعد رندھیر نے دو اینٹیں توڑ دیں۔
اس مظاہرے کے بعد ایک بڑی برف کی سل لائی گئی۔
اس سل کو بھی رندھیر نے اپنے ہاتھوں کے ایک ہی وار سے ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے۔ پھر ایک اسٹو لایا گیا ایک برتن میں ریت ڈالی گئی ریت کو گرم کیا گیا اتنی گرم کہ کوئی اسے چھو بھی لے تو اس کے ہاتھوں میں پھپھولے پڑ جائے اور اس کے بعد رندھیر سنگھ آسانی سے اس گرم گرم ریت میں اپنے دونوں ہاتھ دھنسا کر ریت نیچے اوپر کرنے لگا۔
پہلوان کی آنکھیں یہ نظارہ دیکھ کر حیرت سے پھیل گئیں۔
اس کے بعد رندھیر نے ایک اور کرتب دکھایا۔ وہ زمین پر لیٹ گیا اور اس کا ایک شاگرد اس کے اوپر سے موٹر سائیکل لیکر چلا گیا رندھیر کو کچھ نہیں ہوا۔
ان مظاہروں نے جھنگا پہلوان کو فن کراٹے کا معترف بنا دیا۔ انہوں نے فوراً رندھیر کے سامنے اس بات کا اعتراف کرتے کہا۔
’’ میں بھی اس فن کو سیکھنا چاہتا ہوں۔ ‘‘
’’استاد آپ جیسے لوگ ہماری کلاس میں آئیں گے تو ہماری کلاس اور اس فن کی شان بڑھے گی۔ مجھے پورا یقین ہے۔ اگر آپ نے یہ فن سیکھا اور دو تین بلیک بیلٹ بھی حاصل کر لیے تو آپ میں وہ طاقت اور صلاحیت ہے کہ آپ جاپان کے بلیک بیلٹ مقابلوں میں حصہ لے سکتے ہیں۔ ‘‘
رندھیر کی اس بات کو سن کر جھنگا پہلوان کی آنکھیں چمکنے لگیں۔
اگر وہ یہ آرٹ سیکھ گئے تو وہ جاپان جا سکتے ہیں جاپان کے مقابلوں حصہ لیکر اپنا نام روشن کرسکتے ہیں۔
انھوں نے فوراً کہا کہ وہ کل سے کلاس میں آئیں گے۔
دوسرے دن جب وہ کلاس میں پہنچے تو رندھیر نے انھیں نیچے سے اوپر دیکھا۔
کیا بات ہے ،پہلوان نے رندھیر سے پوچھا
’استاد یہ لنگی میں کراٹے سیکھا نہیں جاسکتا۔ ‘‘
’ہم نے آج تک کبھی لنگی نہیں اتاری۔ ‘
’کراٹے سیکھنے کیلئے آپ کو لنگی اتارنی پڑے گی اور کراٹے کا مخصوص لباس پہنا پڑیگا۔
کافی بحث و تکرار کے بعد پہلوان لنگی اتارنے کے لئے راضی ہو گئے۔
مشق شروع ہوئی۔
پہلے منہ سے آوازیں نکال کرجسم کی مختلف شکلوں میں ڈھالنا تھا۔
پہلوان کو لگا یہ کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ لیکن جب وہ عملی طور پر یہ کام کرنے لگے تو محسوس ہونے لگا کہ یہ کتنا مشکل کام ہے۔
وہ منہ سے آواز نکال نہیں پا رہے تھے۔ آواز منہ نکلتی تو جھٹکے سے اپنے جسم کووہ شکل نہیں دے پا رہے تھے جو کراٹے میں مطلوب تھی۔
اور اسجھٹکیاورپھرتی سے تو بالکل نہیں جو اس فن کو سیکھنے کے لئے چاہئے دو تین بار جب انھوں نے ایسا کرنے کی کو شش کی تو کمر میں موچ آ گئی۔
کمر کی کوئی رگ دوسری رگ پر چڑھ گئی تھی جس سے جسم سے جان نکلتی ہوئی محسوس ہوئی اور وہ درد سے چیخنے لگے۔
رندھیر سنگھ کو اسطرح کی شکایتوں کا علاج معلوم تھا۔ اس نے فورا پہلوان کے کمر کی مالش کر کے ایک رگ کو دبایا پہلوان کو فورا راحت مل گئی۔
اور ان کی مشق دوبارہ شروع ہوئی۔
جھٹکیسے جسم کو لہرانے کی وجہ سے تھوڑی دیر میں ہی ان کے جسم کا ایک ایک حصہ دکھنے لگا۔ وہ سر تا پاؤں پسینے میں نہا گئے۔ دوسرے لوگ بڑے آرام سے یہ مشق کر رہے تھے مگر پہلوان کے لئے ہاتھ اٹھانا مشکل ہو رہا تھا۔
’’کوئی بات نہیں استاد ‘ رندھیر بولا ’’یہ آپ کا پہلا دن ہے۔ آپ کو شش کرتے رہئے پہلے دن تھوڑی سی تکلیف ہو گی۔ دو چار دن بعد یہ تکلیف دور ہو جائیگی۔ ‘‘
پہلے دن جب پہلوان گھر آئے تو ان کا برا حال تھا۔
جسم کی بوٹی بوٹی دکھ رہی تھی۔ آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا رہا تھا۔
من چاہ رہا تھا وہ بستر پر گرے اور سوجائے۔
وہ جو بستر پر گرے تو سویرے کی خبر لی۔
وہ یوں تورات بھر سوتے رہے لیکن اصلیت یہ تھی کہ وہ رات بھر سو نہیں سکے۔
سارا جسم دکھ رہا تھا۔ اور درد سے جسم ایک دکھتا پھوڑا بنا جا رہا تھا۔
دوسرے دن کراٹے کی کلاس میں جائے یا نہ جائے ؟
وہ سوچنے لگے۔
لیکن معاملہ عزّت کا تھا۔ اگر ایک دن میں وہ بھاگ جائیں گے تو لوگ کہیں گے۔
اتنا بڑا پہلوان اور ایک دن میں ہی کلاس چھوڑ کر بھاگ گیا۔
اس لیے وہ نہ چاہتے ہوئے بھی دوبارہ کلاس میں پہونچے۔
اور پھر مشق شروع ہوئی۔
دو گھنٹے کی مشق وہ مشکل سے آدھا گھنٹہ کر سکے۔ دس منٹ مشق کرنے کے بعد جان نکلتی محسوس ہوتی تھی اور وہ ستانے کے لئے ایک کونے میں بیٹھ جاتے تھے۔
انہیں بار بار محسوس ہو رہا تھا یہ ان کے جیسے بھاری بھرکم والے موٹے تگڑے آدمی کا کام نہیں ہے اس کے لیے رندھیر سنگھ جیسا دبلا پتلا لڑکا چاہئے۔
گھر آئے تو دوسرے دن بھی وہی کیفیت رہی۔
تیسرے دن کلاس میں آئے تو انہوں نے رندھیر سنگھ سے صاف کہہ دیا۔
’’ وہ یہ مشق کرنا چاہئے۔ وہ اس کی طرف اپنے ہاتھ مضبوط پتھر کی طرح سخت بنانا چاہتے ہیں انہیں ہاتھ مضبوط ، پتھر کی طرح سخت کرنا چاہئے۔ ‘‘
’’ ٹھیک ہے؟ استاد میں آپ کو ہاتھ مضبوط کرنے کی مشق بتاتا ہوں۔ لیکن یہ کافی سخت ہے۔ ‘‘
’’ ہم سخت مشقوں سے نہیں ڈرتے‘‘، پہلوان نے جواب دیا۔ ’’ پہلوانی کیا کم سخت جاں کام ہے۔ ‘‘
رندھیر نے دو پتھر لا کر پہلوان کے سامنے رکھ دیئے اور کہا۔
’’ان پتھروں پر پہلے دھیرے دھیرے بعد میں زور زور سے وار کیجئے۔ ہتھیلی ہاتھ مضبوط کرنے کی مشق کا آغاز یہ ہے۔ ‘‘
پہلوان ان پتھروں پر اپنے دونوں ہاتھوں سے وار کرنے لگے۔
پہلے دھیرے دھیرے پھر زور زور سے۔
دھیرے دھیرے وار کرتے تو ایسا محسوس ہوا جیسے وہ صرف حرکت کر رہے ہیں۔ ان کے جسم ہاتھ پر کوئی اثر نہیں ہو رہا ہے۔
زور سے وار کرتے تو ہاتھوں سے درد کی ایک لہر اٹھتی اور پورا جسم لہرا جاتا اور منہ سے ایک چیخ نکل جاتی۔
’’کیا کریں ؟ ‘‘کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔
زور سے مار کر وہ درد مول لینا نہیں چاہتے اور زور سے مارنے سے ہی کچھ حاصل تھا۔
جیسے جیسے پریکٹس کا وقت ختم ہوا تو رندھیر سنگھ نے کہا۔
’’ استاد آپ اپنے گھر میں اس مشق کو جاری رکھیں۔ سامنے جو سخت چیز دکھائی دے اس پر وار کیجئے۔ ‘‘
پہلوان کلاس سے واپس آئے لیکن ذہن میں رندھیر سنگھ کی بات بیٹھ گئی تھی راستے میں جو سخت چیز دکھائی دے اس پر وار کر کے مشق کیا کریں۔
انہیں سامنے ایک کار کھڑی دکھائی دی۔ اس کار کی سخت باڈی کو دیکھ کر استاد کو رندھیر سنگھ کی بات یاد آئی۔
انہوں نے اس کی باڈی پر اپنے ہاتھوں سے وار کیا۔
ساتھ میں ان کے جسم کی پوری طاقت بھی تھی۔
کار کی باڈی لوہے کی نہیں تھی پترے کی تھی۔ وار کا پہلوان کے جسم پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ لیکن پہلوان کی طاقت کا اثر سے کار کا پترا پچک گیا۔
کار کے مالک نے پہلوان کو جو ایسا کرتے دیکھا تو آ کر انہیں دبوچ لیا۔
’’ ارے ، میری کار خراب کر دی۔ اب اسے درست کرنے میں پانچ ہزار روپیہ خرچ آئیں گے۔ پانچ ہزار روپیہ۔ ‘‘
’’میرے پاس پیسہ نہیں ہے۔ ‘‘ پہلوان نے کہا تو کار والے نے چیخ چیخ کر سارے بازار کے لوگوں کو جمع کر لیا اور ان کوساری بات بتائی۔
’’ اس پہلوان نے میری کار خراب کی اور اب اس کے بنوانے کے پیسے بھی نہیں دے رہا ہے۔ ‘‘
سب لوگ پہلوان کو کہنے لگے کہ’’ تم نے اس کی کار خراب کی اس کے بنانے کا خرچہ تو دینا پڑے گا۔ ‘‘
بڑی مشکل سے کار والا ایک ہزار روپیہ لیکر معاملہ رفع دفع کرنے پر راضی ہوا۔
پہلوان اسے پیسہ دے کر گھر آئے تو سوچنے لگے۔ یہ تو بہت مشکل سودا ہے۔
شام کو ایک آدمی سے جھگڑا ہو گیا۔
انہوں نے اس پر اپنا پہلوانی داؤ آزمانے کے بجائے رندھیر سنگھ کا سکھایا ہوا داو آزمانے کا سوچا۔
اور انہوں نے اپنے ہاتھوں سے اس بازو پہ وار کیا۔
اس کے بازو پہ پہلوان کا وار پڑتے ہی وہ چیخ کر بے ہوش ہو گیا۔
آس پاس کھڑے لوگوں نے اسے اٹھا کر اسپتال لے گئے، وہاں اسے دیکھ کر ڈاکٹر نے اعلان کر دیا۔
’’بازو کی ہڈی چور چور ہو چکی ہے۔ پلاستر لگانا پڑے گا۔ ہڈیوں میں لوہے کی سلاخیں ڈالنی پڑے گی۔ تب ٹھیک ہونے کے چانس ہیں۔ ورنہ اس کا بازو کاٹنا پڑے گا۔ کیونکہ ہڈیاں چور چور ہو گئی ہے اور ہڈیاں چور ہونے سے گوشت میں زخم پیدا ہو گیا ہے۔ زخم میں مواد اور بعد میں زہر پیدا ہو سکتا ہے۔ اس علاج پر کم سے کم پچاس ہزار روپیہ خرچ آئے گا۔ ‘‘
اس شخص کے رشتہ داروں نے پولیس میں رپورٹ درج کرے گی۔ پولس پہلوان کو اٹھا کر پولس اسٹیشن لائی۔ پولس انسپکٹر جب پہلوان کو دیکھا تو کہا۔
’’پہلوان آپ جانے پہچانے ہیں لیکن شکایت پر ہمیں کاروائی تو کرنی پڑے گی۔ بہتر ہے آپ معاملہ آپس میں نپٹا لیں۔ ورنہ مجھے آپ کو حوالات میں ڈالنا پڑے گا۔ ‘‘ اس شخص کے رشتہ داروں سے معاملہ نپٹانے کی بات کی تو انہوں نے کہا۔
’’ ہمیں بھی معاملہ آگے نہیں بڑھانا ہے۔ پہلوان اسپتال کا بل ، علاج کا سارا خرچ دے دیں۔ ہم شکایت واپس لیتے ہیں۔ ‘‘
اگر پچاس ہزار نہیں دیتے تو حوالات میں جاتے۔ کیس چلتا اور اس کے بعد ہاف مرڈر کے جرم میں جیل بھی ہو سکتی تھی۔
انہوں نے پچاس ہزار روپیہ دیکر معاملہ ختم کرنے میں عافیت سمجھی۔
اتنا بڑا معاملہ ہو جانے کے بعد کراٹے سیکھنے کا جنون ان کے ذہن سے نہیں نکلا۔
انہوں نے رندھیر سنگھ سے کہا کہ وہ انہیں کوئی اور آسان راستہ بتائے جس سے ان کے ہاتھ سخت ہو۔
رندھیر سنگھ نے راستہ بتایا۔
’’ایک تھیلے میں دھیرے دھیرے ریت گرم لیجئے اور اس گرم گرم ریت میں دھیرے دھیرے اپنے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں اور ہتھیلی کو بار بار ڈالیے اور نکالیے ریت کی گرمی سہنے کے جب ہاتھ کی انگلیاں عادی ہو جائیں گی تو خود بخود پتھر کی طرح سخت ہو جائیں گی۔
انہیں یہ طریقہ پسند آیا۔
انہوں نے اس طریقہ پر عمل کرنے کی ٹھان لی۔
گھر آ کر انہوں نے ایک اسٹو پہ ایک گھمیلہ رکھا اس میں ریت ڈالی اور اسٹو جلایا۔
دھیرے دھیرے گھمیلے کی ریت گرم ہونے لگی تو وہ اس گرم ریت میں اپنی انگلیاں گھمانے اور نکالنے کی مشق کرنے لگے۔
گرم گرم ریت میں انگلیاں گھمانے اور نکالنے سے تکلیف تو ہوتی تھی لیکن رندھیر سنگھ کا یہ طریقہ بہت پسند آیا۔
انہیں یقین ہو گیا کہ ریت کی گرمی اور گرم ریت میں اس مشق سے بہت جلد ان کے ہاتھ انگلیاں نہ صرف گرمی سہنے کے عادی ہو جائیں گے بلکہ رندھیر سنگھ کی طرح پتھر کی طرح سخت بھی ہو جائیں گے۔
اور ایک بار ہاتھ پتھر کی طرح سخت ہو گئے تو پھر ان سخت ہاتھوں کے ساتھ اپنی طاقت کا استعمال کر کے دنیا کے طاقتور سے طاقتور انسان کو زیر کر سکتے ہیں اکیلے سینکڑوں لوگوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔
یہی سوچتے وہ مشق کر رہے تھے کہ کسی نے باہر سے آواز دی۔
باہر آئے تو ایک پہچان والا آدمی ایک مسئلہ لے کر آگیا۔
وہ کافی قریبی آدمی تھا اس کا مسئلہ ان کا مسئلہ تھا اس مسئلہ کا حل نکلنا بہت ضروری تھا۔
دیر تک اس مسئلے پر گفتگو ہوتی رہی۔
اس درمیان ایک دو آدمی آ کر اس بحث میں شامل ہو گئے اور اپنی رائے دینے لگے۔
گھنٹوں تک وہ بحث چلتی رہی۔
آخر اس مسئلے کا حل نکل آیا۔
وہ آدمی اس حل کو ماننے اور اس پر عمل کرنے کے لئے تیار ہو گیا۔
پہلوان کا شکریہ ادا کر کے وہ چلا گیا۔
اس کے جانے کے بعد پہلوان گھر میں آئے۔
’’بیکار میں مشق کا وقت خراب کیا۔ اتنی دیر میں میں کتنی مشق کر لیتا۔ خیر ابھی بھی کیا بگڑا ہے۔ دوبارہ مشق شروع کرتا ہوں۔ اب بھی میرے پاس کافی وقت ہے۔ ایک گھنٹہ تو یہ مشق روز کروں گا۔ چاہے کچھ بھی ہو جائے۔ ‘‘ سوچتے انہوں نے اپنے دونوں ہاتھ گرم ریت میں ڈال دیئے۔
دوسرے ہی لمحے ان کے منہ سے ایک فلک شگاف چیخ نکل گئی۔ گھر کر دونوں ہاتھ گرم ریت سے باہر نکالے تو ان کے ہاتھوں میں انگلیوں کی بجائے جلے ہوئے گوشت کے لوتھڑے تھے۔
ایک گھنٹے میں ریت گرم ہو کر دہکتا ہوا انگارہ بن گئی تھی۔
پہلوان کو اس بات کا اندازہ نہیں تھا۔ اس لیے جیسے ہی انہوں نے اپنے ہاتھ اس دہکتی ہوئی ریت میں ڈالی، ریت نے ان کے دونوں ہاتھوں کو جلا ڈالا۔
درد سے وہ چیخنے لگے۔ ان کی چیخیں سن کر محلے والے جمع ہوئے اور انہیں فوراً اسپتال لے جایا گیا۔
جہاں ڈاکٹر نے ان کے ہاتھوں پر پٹیاں باندھی اور کہا۔
ہاتھ کو صحیح حالت میں آنے، اچھا ہونے میں مہینوں لگ جائیں گے۔ اور پہلوان اس دن کو سنے لگے جب ان کے دل میں کراٹے سیکھنے کا خیال آیا تھا۔
***