صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
جھیل جیسی آنکھوں میں
انور گل
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
غزلیں
چشمِ حیرت تو بتا کیسا تماشا ہو گیا
کِس نے چھوڑا ہے تجھے اور کون تیرا ہو گیا
دے گیا دریائے دل کو ایک صحرا کا وجود
میرے دل کے راستے سے کون پیاسا ہو گیا
تذکرہ تھا شہر میں خاموشیوں کی لہر کا
کہ اچانک ہی گلی میں شور برپا ہو گیا
شہر کو بھی آ گیا چہرہ بدلنے کا ہُنر
مان لو کہ شہر بھی اب آپ جیسا ہو گیا
کس کی شہرت تھی تمھارے شہر میں بالائے بام
کون پستی میں گرا ہے؟ کون رُسوا ہو گیا
بارہا ایسا ہوا کہ سانس بھی رکنے لگی
بارہا ایسا ہوا کہ حوصلہ سا ہو گیا
جب تلک دل میں رہا تو شبنمی انداز تھا
قطرۂ خوں آنکھ میں آیا تو دریا ہو گیا
دل تڑپ اٹھتا ہے ترکِ دوستی کے نام پر
ہم بہ ظاہر تو یہی کہتے ہیں ’’اچھا ہو گیا‘‘
کس لیے حرکت میں ہیں یہ ہم نوایانِ یزید
کیا کوئی پھر جانبِ کوفہ روانہ ہو گیا
کاٹ ڈالی ہم نے انور اپنے جذبوں کی زباں
جس سے دل کی بات کرتے تھے وہ بہرا ہو گیا
* * * *
جب کبھی کوچۂ جاناں سے گزر کر دیکھا
میں نے ہر شخص اٹھائے ہوئے پتھر دیکھا
تیری ہر بات زمانے سے نرالی دیکھی
تیرا دستور جدا سب سے ستم گر دیکھا
آہ! اے شومیِ قسمت کہ نشاں تک نہ ملا
حسرتِ دید میں جا کر اسے گھر گھر دیکھا
یہ بتا مجھ کو پیامی! کہ مرے نامے کو
اس نے کچھ دیر پڑھا بھی تھا کہ فَرفَر دیکھا
اتفاقاً جو سرِ راہ کبھی مل بھی گیا
احتراماً نہ کبھی تجھ کو مکرّر دیکھا
اور کیا اِس سے بڑی خوبیِ قسمت ہوگی
موسمِ گل میں رخِ ماہِ منوّر دیکھا
***