صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
جینا تو پڑے گا
عبد البسم اللہ
ترجمہ: اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
اقتباس
جون کی چلچلاتی ہوئی گرمی اور بھری دو پہر کا وقت۔ دہرے بدن اور درمیانی قد کا ایک آدمی ڈھیلی موہری کا سفید جھک پاجامہ اور ڈھیلا ڈھالا کرتہ پہنے، ہاتھ میں کاپی پینسل لئے گاؤں میں گھوم رہا تھا۔ وہ گھر کی کنڈی كھٹكھٹاتا اور جو بھی دروازہ کھول کر باہر جھانکتا اس کے آگے اپنے کاپی پینسل بڑھا دیتا۔ کہتا، 'اس پر دستخط کریں۔'
گاؤں میں وہ آدمی پہلی بار دکھائی پڑا تھا،
اس لئے لوگ اسے شک کی نگاہ سے دیکھ رہے تھے۔ ہو نہ ہو یہ کوئی سرکاری
جاسوس ہے، جو گاؤں میں پیش آیا کسی واقعہ کی تفصیلات حاصل کرنے کے لئے
بھیجا گیا ہے۔ لوگ دماغ دوڑاتے تو گزشتہ سال گاؤں میں ہوئی ایک قتل، ایک
لڑکی کے بھاگ جانے کا کیس اور چك بندی میں کی گئی دھاندلی جیسی کئی واقعات
انہیں یاد آ جاتیں۔ اور وہ اس آدمی کو اس کی کاپی پینسل لوٹاتے ہوئے
ہاتھ جوڑ دیتے۔ کہتے، 'نا بابا نا، دستخط ہم نہیں کریں گے۔ آگے بڑھو۔ '
تقریباً
ہر گھر میں اس آدمی کو یہی جواب ملا، مگر کسی سے اس نے کوئی جرح بحث
نہیں کی۔ لو کے تھپیڑے چل رہے تھے۔ چہرے پر آنچ جیسی محسوس ہو رہی تھی۔
کپڑے پسینے میں تر ہو گئے تھے۔ پیاس سےحلق سوکھا جا رہا تھا لیکن وہ آدمی
اپنے کام میں مشغول تھا۔
اب اسے پیاس برداشت نہیں
ہو رہی تھی۔ لہذا اگلے گھر کی کنڈی کھٹکھٹانے کے بعد دروازے پر جو شخص نظر
آیا اس کے آگے اس نے کاپی پینسل نہیں بڑھائی۔
اقتباس
٭٭٭