صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں
جونک
اور دوسرے ڈرامے
اوپندر ناتھ اشکؔ
ترتیب: سید معز الدین احمد فاروق، اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
جونک
اوپندر ناتھ اشکؔ
افراد :بھولا ناتھ
پروفیسر آنند
بنواری
کملا
ایک پنجابی، ایک ہندوستانی، ایک مارواڑی
اور کچھ دوسرے لوگ
پہلا منظر
(وقت:دس بجے دن۔ جگہ بھولا ناتھ کے مکان کا ایک کمرہ)
(کمرہ بہت بڑا نہیں اور نہ بہت کشادہ ہے۔ کمرے میں دو چار پائیاں بچھی ہوئی ہیں اور دو کرسیاں اور ایک چھوٹی سی میز بھی رکھی ہے۔ اس لئے اسے سونے کا کمرہ بھی کہہ سکتے ہیں اور ڈرائنگ روم بھی۔ کمرے میں سامان وہی ہے جو کسی عام کلرک، اخبارنویس یا ایسی ہی پوزیشن کے کسی شخص کے ہاں ہو سکتا ہے۔ پردہ اٹھنے پر ہم آنند کو میز کے پاس رکھی کرسی پر بیٹھے ایک اخبار کی ورق گردانی کرتے ہوئے دیکھتے ہیں۔
پروفیسر آنند شکل صورت سے پروفیسر معلوم ہوتے ہیں ، یہ بات نہیں۔ جب سے ہندوستان میں تعلیم کا رواج زیادہ ہوا ہے اور خوراک کا کم، تب سے کالجوں میں ایسے طلبا آنے لگے ہیں جنھیں بقول پطرس آسانی سے ان کی مائیں نصف ٹکٹ لے کر اپنے ساتھ زنانے ڈبے میں بٹھا سکتی ہیں۔ طالب علمی کے زمانے میں پروفیسر آنند شاید اسی قسم کے طالب علم تھے۔ حال ہی میں ایم اے کی ڈگری لے کر انھوں نے پڑھانے کا شغل اختیار کیا ہے اس لئے اس کی عمر یا شکل میں کچھ فرق نہیں ہوا۔ پہلی نظر میں انھیں بآسانی میٹرک کا طالب علم سمجھا جا سکتا ہے۔ اس وقت تو وہ پروفیسر کی پوشاک میں بھی نہیں ہیں۔ ایک تہمد اور قمیض پہنے ہوئے شاید حجامت بنا کر بیٹھے ہیں کیوں کہ صابن کی سفیدی ابھی تک ان کے چہرے پر لگی ہوئی دکھائی دیتی ہے اور میز پر پڑا ہوا حجامت کا کھلا ہوا سامان بھی اس بات کی گواہی دیتا ہے۔
پردہ اٹھنے کے کچھ لمحے کے بعد بھولا ناتھ دائیں طرف کے کمرے سے داخل ہوتا ہے جدھر شاید رسوئی ہے۔ شکل و صورت سے بھی بھولا ناتھ پروفیسر صاحب سے کچھ موٹا تازہ ہے لیکن پروفیسر صاحب کے چہرے سے جو دانشمندی ٹپکتی ہے اس کا وہاں فقدان ہے۔ سیدھا سا آدمی ہے۔ کندھے جھٹکنے کی عادت ہے۔ ایسے مردوں کو بار ہا لوگ زن مرید کہہ دیا کرتے ہیں۔ اس وقت اس کے چہرے پر گھبراہٹ جھلک رہی ہے۔ آنند بدستور اخبار دیکھنے میں محو ہے۔)
بھولا ناتھ :(پریشانی سے)یہ پھر آ گیا۔ تم میری مدد کرو۔ آنند۔ خدا کے لئے۔
آنند :(اخبار میزپر رکھ کر) آخر بات کیا ہے ؟گھبرائے ہوئے کیوں ہو؟
(بھولا ناتھ پریشان سا چارپائی پر بیٹھ جاتا ہے۔)
بھولا ناتھ :یہ ایک بار آ جاتا ہے تو جانے کا نام نہیں لیتا۔
آنند :آخر معلوم بھی ہو کون ہے ؟
بھولا ناتھ :ارے کون کیا ؟را ہوں کا بادشاہ ہے۔
آنند :را ہوں کا!پھر تو تمہارا ہم وطن ہوا۔
بھولا ناتھ :(طنز سے) اب را ہوں کے ہزاروں آدمی میرے ہم وطن ہیں اور کمرے (کندھے جھٹک کر) میرے پاس صرف یہی دو ہیں۔
(مجبور ہنسی ہنستا ہے۔)
آنند :(حیرانی سے)تو کیا ان سے جان پہچان بھی نہیں ؟
(اٹھ کر کمرے میں گھومتا ہے۔)
بھولا ناتھ :بس اس بات کا گنہ گار ہوں کہ اپنے چھوٹے بھائی سے ان کے کا رہائے نمایاں سنتا رہا ہوں یا پھر اپنے شہر کے ڈاکٹر بھگوان۔۔۔
آنند :را ہوں شہر نہیں قصبہ ہے۔
بھولا ناتھ :ارے ہاں وہیں ڈاکٹر بھگوان۔۔۔
آنند :(پھر قطع کلام کر کے) لیکن تم نے کہانا کہ یہ پھر آ گیا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ پہلے بھی یہ صاحب تمہیں مہمان نوازی کا شرف بخش چکے ہیں۔
بھولا ناتھ :اب میں تمہیں کیا بتاؤں تم۔۔۔ تم۔۔۔ (کندھے جھٹک کر) ذرا بیٹھو تو تفصیل سے بیان کروں۔
(آنند چارپائی پر بیٹھنا چاہتا ہے۔)
بھولا ناتھ :ارے۔۔۔ ارے۔۔۔ یہاں کیا بیٹھتے ہو۔ وہ کرسی لے لو۔
(کرسی گھسیٹتا ہے۔)
آنند :میں یہیں اچھا ہوں۔ تم کہو۔
بھولا ناتھ :(پھر ذرا ہنس کر)بات یہ ہے کہ وہ میرا چھوٹا بھائی ہے نا سری رام۔ جیسا وہ خود آوارہ ہے ویسے ہی اس کے دوست ہیں۔ انھیں میں سے ایک کا نام سوم یا موم یا کیا جانے کیا تھا۔ وہ جب کبھی آتا تھا اپنے اس بھائی کی تعریف کے پل باندھ دیا کرتا تھا۔
آنند :دیش بھگت ہیں ؟
بھولا ناتھ :خاک۔
آنند :شاعر؟
بھولا ناتھ :اس کی سات پشتوں میں سے کسی نے شعر کا نام نہیں لیا۔
آنند :تو مقرر؟سدھارک؟حکیم؟وید؟ڈاکٹر ؟
بھولا ناتھ :(چڑ کر) تم سنتے ہو نہیں اور لے اڑتے ہو وہ تھے نا، مشہور ایکٹر ماسٹر فطرت۔ یہ ان کے ساتھ رہ چکا ہے۔
آنند :(قہقہہ لگا کر) تویوں کہو کہ یہ صاحب ایکٹر ہیں۔
بھولا ناتھ :اب ماسٹر فطرت کے مشہور ڈراموں ’’عشق کی آگ‘‘ اور ’’درد جگر‘‘ میں اس نے کوئی کام کیا ہے یا نہیں اس بات کا مجھے کوئی علم نہیں۔ اتنا سنا تھا کہ یہ ماسٹر فطرت کا دایاں ہاتھ ہے۔
آنند :لیکن اس بات سے تمہیں کیا دلچسپی؟
بھولا ناتھ :(ہنس کر) ارے بچپن تھا اور کیا ؟جب ہم میٹرک میں پڑھتے تھے تو ان کے ناٹک پڑھنے کا بہت شوق تھا۔
آنند :’’عشق کی آگ‘‘، ’’درد جگر‘‘۔
(ہنستا ہے۔)
بھولا ناتھ :ارے بھائی ان دنوں ہمارے لئے ماسٹر فطرت ہی کالی داس اور شیکسپیئر تھے۔ اگر چہ ہمیں ان کے دیکھنے کا اتفاق نہیں ہوا تھا لیکن ہم ان کے ناٹکوں کو پڑھ کر محلے کے ایک لڑکے سے ان کے گانے سن کرہی ان کے آرٹ کے قائل تھے۔
آنند : اور ان کے غیبی مداحوں میں سے تھے۔
بھولا ناتھ :تم اچھی طرح جانتے ہو مشہور مصنفوں ، لیڈروں ، ایکٹروں ، ادیبوں کو لوگ عام انسانوں سے کچھ اونچا ہی سمجھتے ہیں اور ان سے تو ایک طرف ان کے ساتھ رہنے والوں تک سے بات کر کے پھولے نہیں سماتے۔ یہ توماسٹر فطرت کا دایاں ہاتھ تھا۔
آنند :تو ان سے تمہاری ملاقات کیسے ہوئی؟
(پھر اٹھ کر گھومنے لگتا ہے۔)
بھولا ناتھ :ملاقات؟(کندھے جھٹک کر)تم اسے ملاقات کہہ سکتے ہو؟ہمارے شہر کے ہیں نا ڈاکٹر بھگوان۔۔۔
آنند :شہر نہیں قصبہ کہو۔ را ہوں قصبہ ہے۔
بھولا ناتھ :ہاں ہاں قصبہ، قصبہ۔ تومیں نے اسے ڈاکٹر بھگوان داس کی دوکان پر بیٹھے دیکھا۔ اس کی باتیں دلچسپی سے سنیں اور شاید دو ایک باتوں کا جواب بھی دیا۔
آنند :پھر تم انھیں اپنے گھر لے آئے۔
بھولا ناتھ :ارے کہاں ؟تم مجھے بات بھی کرنے دو گے۔ اس کوتو دس برس بیت گئے۔ اس کے بعد یہ صاحب گزشتہ برس ملے اور تمہیں معلوم ہے کہ ان دنوں میں میں کیسی مصیبت سے دن کاٹ رہا تھا۔ چنگڑ محلے کا وہ پیپل ویڑا اور اس میں لالہ جوالا داس کا وہ جہنمی مکان اور اس کی وہ اندھیری کوٹھریاں جن میں نہ کوئی روشن دان ہے۔ نہ کھڑکی۔ گرمیوں میں باہر گلی میں سونا پڑتا تھا۔
آنند :لیکن تم بات تو ان سے ملنے کی کر رہے تھے۔
بھولا ناتھ :ہاں ہاں انھیں دنوں جب میں وہاں رہتا تھا اور دن بھر نوکری کی تلاش میں مارا مارا پھر تا تھا یہ ایک دن پیپل ویڑا کے پاس ہی چنگڑ محلے میں مل گئے اور انھوں نے دور ہی سے نمسکار کی۔ میں جلدی میں تھا لیکن لمحہ بھر کے لئے رک گیا۔
آنند :تو کہنے کا مطلب۔۔۔
بھولا ناتھ :(بات جاری رکھتے ہوئے) انھوں نے بڑے تپاک سے ہاتھ ملایا اور کہا ڈاکٹر بھگوان داس آپ کی بڑی تعریف کرتے ہیں۔ آپ مجھے پہچان تو گئے ہیں ؟میں نے کہا ’’ہاں ہاں۔۔۔ ماسٹر فطرت‘‘ کہنے لگے بیمار ہے بے چارہ درد گردہ سے۔
آنند :درد جگر سے نہیں۔
بھولا ناتھ :(آنند کے طنز کی طرف نہ دھیان کر کے)میں نے افسوس کا اظہار کیا اور پوچھا کہ سنائیے کیسے آئے۔ کہنے لگے مجھے درد گردہ کی شکایت ہے۔
آنند :(قہقہہ لگا کر) کند ہم جنس باہم جنس پرواز۔
بھولا ناتھ :میں نے بھی افسوس کا اظہار کیا ۔ کہنے لگے ’’ کرنل ماتھر کو دکھانے آیا ہوں کل چلا جاؤں گا۔‘‘میں نے کہا:’’تو آئیے کچھ پانی وانی پی لیجئے۔ ہنس کر کہنے لگے لالہ سندر لال تو انتظار کر رہے ہوں گے لیکن چلئے اپنے ہم وطن کا اصرار کیسے رد کیا جا سکتا ہے۔‘‘
آنند :اپنے ہم وطن کا۔۔۔ خوب!
(ہنستا ہے۔)
بھولا ناتھ :میرے تو پاؤں تلے سے زمین کھسک گئی۔ ضروری کام سے جا رہا تھا اور میں نے رسمی طور پر ہی اسے جل پان کے لئے پوچھا تھا۔ خیر گھر لے آیا اور حفظ ماتقدم کے طور پر میں نے بیوی سے صرف ٹھنڈے پانی کا گلاس لانے کے لئے کہا۔ پانی پی کر یہ مہاشہ وہیں گلی میں بچھی ہوئی چارپائی پر لیٹ گئے۔ مجھے جلد جانا تھا۔ میں نے جھجکتے ہوئے کہا: ’’مجھے۔۔۔ آ۔۔۔ ذرا جلدی ہے۔ آپ کدھر جا رہے ہیں ؟ ساتھ ساتھ ہی۔۔۔ ‘‘لیکن جناب ٹانگیں پسارتے ہوئے میری بات کاٹ کر بے پرواہی سے بولے :’’ہاں ہاں آپ شوق سے ہو آئیے۔ میں ذرا تھک گیا ہوں۔ یہیں آرام کر لوں گا۔‘‘
آنند :(ہنس کر)خوب!
بھولا ناتھ :(کندھے جھٹک کر) تم ہوتے تو میری صورت دیکھتے۔۔۔ نئی نئی شادی ہوئی تھی اور یہ ہمارا ہم وطن۔۔۔
(آنند پھر قہقہہ لگاتا ہے۔)
بھولا ناتھ :مرتا کیا نہ کرتا۔ مجھے تو جلدی تھی۔ ناچار چلا گیا۔ واپس آیا تو آپ مزے سے بستر بچھوا کر خراٹے لے رہے تھے اور بیوی بیچاری اندر گرمی میں پڑی تھی۔ داخل ہوا تو کہنے لگی آپ کا ایسا بے تکلف دوست تو کوئی دیکھا نہیں۔ آپ کے جانے کے بعد کہنے لگا:’’تم تو شاید نواں شہر کی ہو۔‘‘میں چپ رہی تو بولا:’’پھر تو ہماری بہن ہوئی۔‘‘
آنند :بہن؟!
(ہنستا ہے۔)
بھولا ناتھ :اب کملا مجھ سے پوچھنے لگی یہ کون ہے ؟میں کیا بتاتا؟اتنا کہہ کر چپ ہو رہا کہ ہمارے دیس کے ہیں۔ چار پائیاں ہمارے پاس صرف دو تھیں۔آخر وہ غریب سخت گرمی میں اندر فرش پر سوئی۔ خیال تھا دوسرے دن چلے جائیں گے لیکن پورے سات دن رہے اور جب گئے تومیں نے قسم کھا کر کملا سے کہا کہ اب کبھی نہیں آئیں گے لیکن آج پھر آ دھمکے ہیں اور کملا۔۔۔
(کملا داخل ہوتی ہے۔)
کملا :میں پوچھتی ہوں آپ چپ چاپ ادھر آ کر بیٹھ گئے ہیں اور وہ مجھے اس طرح حکم دے رہے ہیں جیسے میں ان کی کوئی زر خرید لونڈی ہوں۔ ’’کملا پان لا دو۔ کملا یہ کر دو۔ کملا وہ کر دو۔‘‘ میں پوچھتی ہوں یہ ہیں کون؟آپ تو کہتے تھے میں اسے جانتا تک نہیں پھر کیوں یہ منھ اٹھائے ادھر چلے آتے ہیں ؟کوئی اور ٹھور ٹھکانہ ان کے لئے نہیں کیا ؟ کون ہیں یہ؟
بھولا ناتھ :(بالکل گھبرا کر کندھے جھٹکتے ہوئے) اب بتاؤ۔۔۔
(اٹھ کھڑا ہو جاتا ہے۔)
آنند :تم ٹھہرو۔بھابی۔ مجھے سوچنے دو۔
کملا :لیکن آپ سوچ کر کریں گے کیا ؟یہ کوئی ان کا پرانا یار غار ہو گا مجھے اسی بات سے چڑ ہے کہ آخر یہ مجھ سے چھپاتے کیوں ہیں ؟کیا میں ان کے دوستوں کو گھرسے نکال دیتی ہوں۔
(چارپائی کے کنارے بیٹھ جاتی ہے۔)
آنند :دیکھو بھابی۔
کملا :میں کچھ نہیں دیکھنا چاہتی۔ دیکھئے آپ سے کوئی پردہ نہیں۔ کمرے ہمارے پاس یہی دو ہیں جن میں دروازوں کے روشندان میں شیشے تک نہیں اور ہم کارڈ بورڈ سے کلام چلا رہے ہیں اور بستر بھی فالتو نہیں اور پھر آپ بھی یہاں ہیں۔ ان کے یہ دوست تو مزے سے بستر بچھوا کر سوئیں گے اور میں ٹھٹھرا کروں گی باہر برآمدے میں۔
آنند :دیکھو بھابی وہ ان کے دوست نہیں ہوں اس بات کا تمہیں یقین دلاتا ہوں۔
کملا :تو پھر یہ صاف جواب کیوں نہیں دیتے ؟
آنند :اگر ان سے یہ ہو سکتا تب نا۔۔۔
بھولا ناتھ :(جواس دوران میں ادھر ادھر گھومتا رہتا ہے رک کر اور کندھے جھٹک کر) ہاں اب ہم وطن ہیں۔۔۔
کملا :ہم وطن ہیں تو۔۔۔
(انگارہ سی آنکھوں سے شوہر کی طرف دیکھتی ہے۔)
آنند :دیکھو جھگڑے سے کچھ نہ بنے گا۔ اس آدمی کو دھتا بتائی چاہئے۔
کملا :یہی تومیں بھی کہتی ہوں۔۔۔
آنند :لیکن یہ ان سے ہو چکا ان صاحب کی مہمان داری تو کسی دوسری طرح ہی کی جائے گی۔
(کچھ لمحے کے لئے خاموشی جس میں آنند سوچتا ہے اور بھولا ناتھ انگڑائی لیتا ہے۔)
آنند :(دھیمی آواز میں) میں پوچھتا ہوں وہ کیا کر رہا ہے۔
کملا :شاید باہر گیا ہے جاتے جاتے پوچھتا تھا کہ آج کیا سبزی پکانے کا ارادہ ہے۔ بازار سے۔۔۔
آنند :(جسے اس دوران میں تدبیر سوجھ گئی ہے)میں کہتا ہوں تم لحاف لے لو بھابی اور چپ چاپ لیٹ جاؤ اور اگر کراہ سکو تو تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد کراہتی بھی جاؤ(بھولا ناتھ سے)دیکھو بھائی کھانے کا ذکر آئے تو تم کہہ دینا کہ مجھے بھوک نہیں ہے اور میں بہانہ کروں گا کہ گرانی طبع سے میں آج فاقہ کر رہا ہوں اور بس(چٹکی بجاتا ہے۔ سیڑھیوں پر پاؤں کی چاپ سنائی دیتی ہے۔ مڑ کر) میں کہتا ہوں جلدی کرو(ایک ایک لفظ پر زور دے کر) جلدی کرو۔ انہی کپڑوں سمیت لیٹ جاؤ۔
(کملا جلدی سے بستر پر لیٹ کر لحاف اوڑھ لیتی ہے۔ ہاتھ میں دو لوکیاں لئے ہوئے بنواری لال داخل ہوتا ہے۔)
بھولا ناتھ :آئیے آئیے کدھر چلے گئے تھے آپ؟(آنند کی طرف اشارہ کر کے) یہ ہیں مسٹر بنواری لال۔ میرے ہم وطن۔ کسی زمانے میں مشہور ایکٹر ماسٹر فطرت کے ساتھ۔۔۔
آنند :(ذرا ہنستے ہوئے) آپ سے مل کربڑی خوشی ہوئی۔
بنواری لال :آپ سے مل کر بہت خوشی ہوئی۔
بھولا ناتھ :یہ آپ کیا اٹھا لائے اتنی لوکیاں ؟
(کملا دھیمی سی کراہتی ہے۔)
بنواری لال :باہر بک رہی تھیں (ہنس کر) میں نے کہا۔۔۔ (کملا ذرا اور زور سے کراہتی ہے)(مڑ کر اور ذرا چونک کر) کیا بات ہے۔ کیا بات ہے ؟؟
(آواز میں تشویش)
بھولا ناتھ :اسے دفعتاً دورہ پڑ گیا۔ بڑی مشکل سے ہوش آیا ہے۔۔۔ عموماً پڑ جایا کرتا ہے۔ ہسٹریا۔
بنواری لال :تو آپ علاج۔۔۔
بھولا ناتھ :علاج بہت کرایا کرنل(پھر بات کا رخ بدل کر) یہ تو بیمار پڑ گئیں اور (ذرا ہنس کر) لوکیاں آپ اتنی اٹھا لائے پھر (آنند سے) کیوں بھائی تم کیا کہتے تھے ؟۔۔۔
آنند :میں تو آج فاقہ سے ہوں طبیعت بھاری ہے۔
بھولا ناتھ : اور میں خود کھانے کے موڈ میں نہیں۔
بنواری لال :(رسوئی کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے) تو بھابی جی میرا مطلب ہے کہ لوکی۔۔۔ یعنی لوکی کی کھیر ہسٹریا میں بے حد مفید ہے اور کھیر بنا بھی اچھی لیتا ہوں۔ ساتھ ہی میں اپنے لئے بھی دو روٹیاں اتار لوں گا اور بھاجی بھی لوکی ہی کی بن جائے گی۔ میرا تو خیال ہے آپ بھی کھائیں۔ لطف نہ آ جائے تو نام نہیں۔ اندر انگیٹھی توہو گی ہی۔ کوئلوں کی آنچ مجھے بے حد پسند ہے۔ دھوئیں سے آنکھیں نہیں نکلتیں اور پھر کوئلوں پر لوکی کی کھیر بنتی بھی ایسی ہے کہ کیا کہوں۔
(رسوئی میں چلا جاتا ہے۔)
آنند :(دھیرے سے) یہ اس طرح نہیں جائے گا۔
بنواری :(رسوئی سے) کیوں بھئی مسالہ کہاں ہے ؟
کملا :(لیٹے لیٹے) کہہ دو ختم ہو گیا۔
بھولا ناتھ :(ذرا زور سے) مسالہ تو یار ختم ہو گیا۔
بنواری :(اندر سے) اور گھی کہاں ہے ؟
بھولا ناتھ :(کندھے جھٹک کر) اب یہ کیسے کہہ دوں ؟!
آنند :(اونچی آواز میں) ارے گھی نہیں لائے تم؟ علی الصباح بھابی نے کہا تھا کہ گھی ختم ہو گیا ہے کیسے گرہستی ہو تم؟!
(دھیرے سے شرارت کی ہنسی ہنستا ہے۔)
بنواری :(دروازے سے جھانک کر) اچھا ایک آنے کا گھی کم سے کم آج کے لئے تو لیتا آؤں۔ مسالہ بھی نہیں اور کھانڈ بھی۔ میرا خیال ہے۔۔۔ نہیں ! میں چند منٹوں میں سب کچھ لایا۔ یہ جب تک کچھ کھائیں گی نہیں کمزوری دور نہیں ہو گی۔
(چلا جاتا ہے۔)
***