صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں


محمد علی جو ہر کی شاعری اور جذبۂ حریت

پرو فیسر گوپی چند نارنگ

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

                        اقتباس

    رئیس الاحرار مو لانا محمد علی جوہر ایک شیر دل قائد تھے۔ ان کے عزم میں ہمالہ کی سی عظمت، جذبے میں آتش فشاں لاوے کی سی گرمی اور ولولے میں سیل بے پناہ کی سی تندی و تیزی تھی۔ وہ کر دار اور گفتار دونوں کے غازی تھے۔ بیسویں صدی کے دور اول میں انہوں نے دیکھتے ہی دیکھتے اپنی تحریر و تقریر اور عبارت و اشارت سے قوت و توانائی کی ایسی آگ بھڑکا دی کہ پوری تحریک آزادی میں خو د ارادی اور خود اعتمادی کی ایک لہر دوڑ گئی۔ قومی رہنما دوسرے بھی تھے اور ان میں سے کئی مو لانا محمد علی جو ہر سے آگے اور ان سے بڑے تھے، لیکن آتش فشانی اور شعلہ سا مانی کا منصبِ بلند گویا انہیں کو ودیعت ہوا تھا۔ ان کی مجاہدانہ شخصیت کے جوش و خروش نے چند ہی بر سوں میں عمل کا ایسا صور پھونکا اور انگریزوں کی قاہرانہ طاقت سے ایسی ٹکر لی کہ دیکھنے والے دنگ رہ گئے۔ مسلمانوں میں ملی بیداری پیدا کر نے اور انہیں ہندو ستان کی سیاست میں موثر قوت بنا نے میں مولانا محمد علی کا بڑا حصہ ہے۔

     مولانا محمد علی جو ہر کی تعلیم ہندوستان میں بھی ہوئی اور ہندوستان سے باہر بھی لیکن ذہنی اعتبار سے وہ شبلی کے قبیلے سے تعلق رکھتے تھے۔ شاعری پر اصلاح انہوں نے بھلے ہی داغ سے لی ہو۔ لیکن ذہنی منا سبت انہیں شبلی سے تھی۔ یہ مناسبت صرف تحریک آزادی کی وجہ سے نہیں بلکہ جمالیاتی اور شعری اعتبار سے بھی تھی۔ شاعری میں انہوں نے بڑی حد تک اسی طرز فغاں کو اپنایا جس کی طرح شبلی کے رچے ہوئے ذوق، احساس تغزل، رنگینیِ بیان اور مزیہ لے نے ڈالی تھی۔ محمد علی جو ہر اگر چہ تحریک آزادی کے مجاہد تھے اور ان کی شخصیت کا عملی اور سیاسی پہلو ان کی شاعری سے کہیں زیادہ نمایاں ہے۔ لیکن مزاج چونکہ تخلیقی تھا، اس لئے عمل کی سیمابیت برا بر جذبہ و احساس کی سرشاری کا پتہ دیتی ہے۔ حریت پسندی ان پر ختم تھی۔ یہ ان کی سب سے بڑی طاقت تھی اور شاید کمزوری بھی۔ وہ مکمل آزادی کے تصور میں معمولی سی تبدیلی کے روادار نہ تھے۔ ان کی روح مجاہد کی تھی۔ لیکن دل کا شاعر کا تھا۔ ان کے شعری کر دار کا ذکر کر تے ہوئے شبلی کی یاد تو تازہ ہو ہی جاتی ہے۔ لیکن حسرت موہانی کا نقش بھی ساتھ ساتھ ابھر نے لگتا ہے جو مولانا کے معاصر تھے۔ غزل کی رمزیت اور ایمائیت میں قومی و سیاسی جذبات کے بیان کی گنجائش تو آغاز سے تھی لیکن جس انداز سے محمد علی جوہر اور حسرت مو ہانی نے پرانی مینا میں نئی شراب بھری اس سے ایک اور ہی دلنواز نقش سامنے آیا اور غزل میں ایک نئی معنیاتی جہت کا اضافہ ہو گیا۔ حسرت بیسویں صدی کے ایوان غزل کا ایک تا بنا ک با ب ہیں۔ ان کے رنگ تغزل کی کئی سطحیں اور کئی شانیں ہیں۔ جبکہ محمد علی جو ہر کے یہاں پوری غزل اسی کیفیت میں ڈوبی ہوئی ہے۔ محمد علی جوہر کا تو اصل کار نامہ یہی ہے کہ ان کی غزلوں میں عاشقی و آزادی دونوں مل کر ایک ہو گئے۔ ان کا ذوق شعری اتنا بالیدہ، لطیف اور رچا ہوا ہے کہ عام طور پر ان کے کلام پر روایتی عاشقانہ رنگ کا دھوکا ہو سکتا ہے۔ لیکن در اصل ایسا نہیں۔ عاشقانہ لے کی رمزیت کے پر دے میں وطنی لے ہے۔ جو عاشقانہ لے کے ساتھ ساتھ چلتی ہے۔ لیکن سر سری پڑھنے والوں کو اس کی پوری قوت اور درد مندی کا اندازہ نہیں ہو تا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اردو کی قومی شاعری میں محمد علی جو ہر کی غزل کا اتنا ذکر نہیں کیا جا تا جتنا اس کا حق ہے۔ مو لانا غزل کی وضعداری کے قائل تھے۔ ان کی شعری میزان میں برہنہ گفتاری یا موضوع بندی کی سر ے سے گنجائش تھی ہی نہیں۔ اگر ایسا ہو تا تو جتنے بڑے وہ قائد تھے، قومی اور سیاسی تقاضوں کی وجہ سے انہوں نے اتنی بڑی تعداد میں موضوعاتی نظمیں بھی کہی ہو تیں۔ لیکن ان کا کلام دیکھ کر تعجب ہو تا ہے کہ انہوں نے نظم تقریباً نہیں کہی۔ دو چار نظمیں جو ان کے مجموعے میں ملتی ہیں۔ شاید فرمائشی ہیں اور ان کے شعری سرمائے میں کوئی خاص حیثیت نہیں رکھتیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ داغ کی شا گردی کی وجہ سے ابتدا غزل سے ہی کی تھی اور یہ بھی واقعہ ہے کہ ان کا تخلیقی جو ہر تغزل سے عبارت تھا۔ انہوں نے اپنے ایام گرفتاری میں یا اس کے بعد جب جب شعر کو سخن کا پر دہ کیا تو اپنے مزاج تغزل کی وجہ سے اشاریت اور ایمائیت کی بہترین روایتوں کی پاسداری کی۔ اردو تنقید کو دیوان جو ہر کے رنگ تغزل کے اس پہلو کا حق شاید ابھی ادا کر نا ہے۔ انہوں نے اپنے قومی اور ملی احساسات تمام و کمال تغزل کے پیرا یے میں بیان کئے اور اس Heightened Emotionیعنی جذبے واحساس کی اس شدت اور تندی کے ساتھ اس کی دو سری نظیر کم سے کم اس دور کی غزل میں نہیں ملتی۔

    محمد علی جو ہر کی شاعری میں مرکزیت، جذبہ عشق ہی کے ذریعہ پیدا ہو ئی ہے۔ یہ عشق وطن کا، ملت اسلامیہ کا اور آزادی ہند کا عشق ہے۔ غیر مشروط اور ہر طرح کے تحفظات سے مبرا۔ لیکن یہ مشاہدۂ حق کی وہ گفتگو ہے جو با دہ و ساغر کے پیرایۂ رنگین میں بیان ہوئی ہے اور اس میں سرشاری اور سر مستی کی والہانہ اور بے تابانہ کیفیت ہے۔ یوں تو اس میں جیب و داماں کی شکایت بھی ہے اور زلف پریشاں اور ابر و مژگاں کی حکایت بھی ہے لیکن و حشی کو جس نا قہ لیلیٰ کی تلاش ہے، اس کا را ز غزل کی پوری فضا کو نظر میں رکھنے سے کھلتا ہے۔ ان غزلوں میں اکثر و بیشتر اشعار لخت لخت نہیں بلکہ ان میں ایک مسلسل کیفیت ہے، نہ صرف روانی اور بہاؤ اور جذباتی ترفع کی، بلکہ اس معنیاتی فضا ء کی بھی جس کی شیرا زہ بندی مولانا کے تصور ملی اور جذبہ حریت سے ہوئی ہے۔ ان غزلوں سے لطف اندوز ہو نے کے لئے ان کی مجموعی فضا اور قومی و سیاسی محرکات کو نظر میں رکھنا بہت ضروری ہے۔ یہ قومی عاشقانہ کیفیت اتنی عام ہے کہ محمد علی جو ہر کی غزلوں کو کہیں سے بھی دیکھیے ان میں حدیث قوم و وطن کو سر دلبراں کے پیرایے میں بیان کر نے کا یہی دلنواز اور لطیف انداز ملے گا :۔


    یہ نظر بندی تو نکلی ردِ سحر

    دیدہ ہائے ہو ش اب جا کر کھلے


    اب کہیں ٹوٹا ہے باطل کا فریب

     حق کے عقدے اب کہیں ہم پر کھلے


    فیض سے تیرے ہی اے قیدِ فرنگ

     بال و پر نکلے قفس کے در کھلے 

 ٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول