صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں


جراحت افکار

ڈاکٹرمحمدشرف الدین ساحل

تنقیدی مضامین

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

پریم چند

۔ ۔ ۔ ایک حقیقت پسند افسانہ نگار۔ ۔ ۔

دنیاکی تمام زبانوں میں افسانہ نگاری کی ابتدا داستان سرائی سے ہوئی ہے جس میںزیادہ ترغیر فطری باتیں پیش کی گئیں ہیںاور ناممکن چیزوں کوممکن بنایاگیاہے۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ خیالات میںتبدیلیاں آتی گئیں۔ غوروفکرکے انداز بدلے۔ سوچ نے اپنازاویہ تبدیل کیاجس کے نتیجے میں حقائق کو افسانے کے پیکر میںڈھالا جانے لگا۔ اردومیں افسانہ نگاری کاآغازوارتقا بھی بالکل اسی انداز سے ہواہے۔

اس زبان میں پہلے داستان کے پیرائے میںامیرحمزہ، الف لیلیٰ اورحاتم طائی جیسی کتابیں وجودمیں آئیں۔ اس کے بعد فطری اور غیر فطری عناصر کویکجاکیاگیا۔ ’’فسانۂ آزاد‘‘ اس کی سب سے بہترین مثال ہے۔ بعد کو غیر فطری عناصر کاغلبہ کم ہوتاگیا۔ یہاں تک کہ بیسویں صدی کی ابتدا میں انگریزی ادب سے متاثرہوکر ہمارے قلم کاروں نے اردو میں مختصر افسانے تحریر کئے جن میں فطری اور حقیقی باتوں کوپیش کیا گیا۔ اس سلسلے میں پریم چند کانام نمایاں حیثیت رکھتاہے۔ وہی اردو میںمختصر افسانوں کے بانی قرارپائے ہیں۔

پریم چندافسانہ نگاری کی تاریخ میں وحید عصر اور یگانۂ روزگارہیں۔ انھوں نے غیرفطری عناصر سے انحراف کرکے فطری عناصر پر اپنے افسانوں کی بنیاد رکھی اور انہیںحقائق سے آشناکیا۔ عام انسانوں کے لیے اس کے دروازے کھولے اور شہر کے بجائے گاؤںکے کھیتوں، کھلیانوں اور کسانوں سے اس کارشتہ جوڑا۔ ان میںوطن کی محبت کا رس ٹپکایا اور انسانیت کا جوہر بھی۔سچ پوچھوتو ان کے افسانوں میں وہ تمام سیاسی وسماجی مناظرمتحرک نظرآتے ہیں جوان کے دورمیں ہندوستان کے گوشے گوشے میں جلوہ گرتھے۔ ڈاکٹر جعفررضانے اپنی کتاب ’’پریم چند کہانی کارہنما‘‘میں اس حقیقت کو اس طرح پیش کیا ہے:

’’پریم چند کی تخلیقات کو جدید ہندوستان کے مطالعہ کاایک اہم مواد قرار دیاجاسکتاہے کیوں کہ انھیں کے دور سے ہندوستانی نشاۃ ثانیہ کاآغاز ہوتاہے جس کے قدموں کی آہٹ ان کی تحریروں میںبرابرمحسوس ہوتی ہے۔ ملکی زندگی کی تغیرپسندی، عمل و ردِعمل، ارتقا وررجعت پسندی، مذہب اور انسانیت سبھی کی پرچھائیاں پریم چند کی تخلیقات میںجھلکتی ہیں۔ ان کی تصویر کشی میں انھوں نے ساحل کے تماشائی کارویہ اختیارنہیں کیا بلکہ قومی زندگی کے بیچ دھارے میں اترکر مسائل کی بوجھی ہوئی ناؤ کو پار لگانے میں اپنے ساتھیوں کاہاتھ بٹایا۔ پریم چند سیاسی رہنما نہ تھے کہ صرف اس کے خارجی اثرات کے اظہارتک محدود رہ جاتے۔ ان کی دوررس نظروں نے گہرائیوں میںاترنے کی کوشش کی اور ان کی تخلیقی قوتوں نے مسائل کے باطن کاجائزہ لیا۔ اس میں زندگی کی نامیاتی کیفیتیں تلاش کرکے ادب کی نئی سمتوں میںرہنمائی کی جس کے تجزیے وتفہیم میں انھیں خاطر خواہ کامیابی ہوئی۔‘‘(ص:۱۰)

پریم چند کی افسانہ نگاری کاآغاز۱۹۰۶ء میں ہوا۔ ان کے شعور نے جس دورمیں آنکھ کھولی تھی وہ پرآشوب اور ہنگامی تھا۔ ہندوستان انگریزوں کی غلامی کی زنجیروں میں جکڑا ہواتھا۔ تقسیم بنگال کی وجہ سے چاروں طرف شورش برپا تھی۔ انڈین نیشنل کانگریس ملک کو آزاد کرانے کے لیے پروگرام مرتب کررہی تھی اور ہر طرف آزادیِ وطن کے ترانے گائے جارہے تھے۔ ان حالات سے متاثر ہوکرپریم چند نے اس مقصد کے تحت افسانے لکھنا شروع کئے کہ ان کے ذریعہ قوم کے لوگوں کے دلوں میں وطن کی محبت کے جذبات کوابھاراجائے اور اس کے لیے اپناسب کچھ قربان کردینے کاجذبہ پیداکیاجائے۔ ان کے افسانوں کا پہلا مجموعہ ’’سوزِوطن‘‘ اس کابین ثبوت ہے جو ۱۹۰۹ء میںشائع ہوکرمنظر عام پر آیا۔اس میں شامل پانچوں افسانوں میںبرطانوی حکومت کے خلاف صدائے احتجاج سنائی دیتی ہے۔ یہ افسانے وطن پرستی اور حریت پسندی کے جذبات سے لبریز اور حصولِ آزادی اور تحفظِ وطن کے خیالات سے مملوہیں۔ ان کے مطالعے سے حبِ وطن کا پرجوش جذبہ پیداہوتا ہے۔یہاں ثبوت کے طور پر اس کتاب کے پہلے افسانے ’’دل کا سب سے انمول رتن ‘‘کاایک اقتباس دیکھئے۔ یہ اس وقت کامنظر ہے جب افسانے کے بنیادی کردار ایک جذباتی نوجوان دل فگارکی میدان کارزار میں ایک زخمی سپاہی سے ملاقات ہوتی ہے۔ وہ اس سے کہتا ہے:

’’اگرتومسافرہے توآاورمیرے خون سے ترپہلو میںبیٹھ جا۔ کیوں کہ یہی دوانگل زمین ہے جومیرے پاس باقی رہ گئی ہے اور جو سوائے موت کے کوئی نہیں چھین سکتا۔ افسوس ہے کہ تویہاں ایسے وقت میں آیا جب ہم تیری مہمان نوازی کرنے کے قابل نہیں۔ ہمارے باپ دادا کادیس ہمارے ہاتھ سے نکل کیا۔ اس وقت ہم بے وطن ہیں۔(مسکراکر) اور گوکہ میںبے وطن ہوں مگر غنیمت ہے کہ حریف کے حلقے میں مررہاہوں۔ (سینے کے زخم سے چھیتڑا نکال کر) کیاتونے یہ مرہم رکھ دیا۔ خون نکلنے دے، اسے روکنے سے کیا فائدہ؟کیامیں اپنے ہی وطن میں غلامی کرنے کے لیے زندہ رہوں؟ نہیں ایسی زندگی سے مرنا اچھا۔ ۔ ۔ ‘‘

 چوں کہ ان افسانوں سے جذبۂ حریت کوتقویت مل رہی تھی اس لیے انگریز حکومت نے اس کتاب کو ضبط کرکے اس کے نسخوں کو نذرِآتش کردیا۔ اس حادثے کے باوجود بھی پریم چنددل برداشتہ نہیں ہوئے ۔وطن سے ان کی محبت کارشتہ اخیرعمر تک قائم رہا۔ وہ سوزِ وطن کے حسرت ناک انجام کے بعد بھی اس قسم کے افسانے وقفے وقفے سے لکھتے رہے۔ سرِپُر غرور، بانکاز میندار، ستی، لال فیتہ، آخری تحفہ اور قاتل اسی قسم کے افسانے ہیں۔جویہ ثابت کرتے ہیں کہ افسانہ قوم ووطن کی خدمت کا ذریعہ بھی بن سکتاہے۔

جذبۂ حب الوطنی کے اظہارکے ساتھ ساتھ پریم چند نے دیہاتی زندگی کی طرف بھی اپنارخ کیااور اسے اپنا موضوع بنایا۔ وہ ایک ایسے دور کی پیداوار تھے جب ہندوستان بحرانی دورسے گزررہاتھا۔ برطانوی سامراج کے آتے ہی یہاں نئی حرکت وروشنی آچکی تھی۔ ایک نیاسماج و سیاسی نظام وجودمیں آگیاتھا۔ پریم چند نے اس تہذیبی اور تمدنی تبدیلی کا باریکی سے مشاہدہ کیاا وراس کے پیچھے دیہاتی زندگی میںپائے جانے والے تضادات اور غریبوں کے دکھ درد کو تلاش کیا۔ انھوں نے سب سے پہلے یہ محسوس کیا کہ دیہات کے مجبور اور بے سہارا لوگ کس طرح اپنی روزی روٹی کمانے کے لیے رات دن سخت سے سخت محنت کرتے ہیں اور اپنی زندگی کو خوشگوار بنانے کی تمنا اپنے دل میں لے کر اس دنیاسے رخصت ہوجاتے ہیں۔ انھوں نے دیہات میں ہرے بھرے کھیت، کھلی کھلی فضا، مویشی، نہراورتالاب دیکھے۔ لیکن ان کی قوتِ مشاہدہ نے ان سے کوئی اثرقبول نہیںکیا۔بلکہ وہ محنت کش کسانوں پر سود خور مہاجنوں کے ظلم وستم کودیکھ کر بے حدمتاثر ہوئے ۔انھوں نے شدت سے یہ بات محسوس کی کہ لوگوں کو بھوک سے نجات دلانے والے کسان خود کس طرح بھوکے رہتے ہیں۔انہیں مہاجن اپنی ذلیل چالوں سے ساری عمر کس طرح لوٹتے رہتے ہیں۔ اور کس طرح کسانوں میں معمولی معمولی باتوں پران کی جہالت کے سبب آپس میںلڑائیاں ہوتی ہیں۔ انھوں نے انہیں حقائق کے پیکر میں اپنے افسانوں کو ڈھالااور اس میں وہ ملکہ حاصل کیاکہ پریم چنداوردیہات لازم و ملزوم ہوکر رہ گئے۔ ان کے افسانوں کا ایک بڑاحصہ دیہاتی ماحول، معاشرت، تہذیب اور زندگی کا ترجمان ہے۔

پریم چند انسانیت نوازاور انسان دوست تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اپنے افسانوں میںپہلو بدل بدل کر نچلے طبقوں کے احساسات وجذبات کی ترجمانی کی ہے اوران کے مسائل پربھرپور روشنی ڈالی ہے۔ وہ اس طبقے کو نہ صرف ہمدردی اور انسانیت کی نظر سے دیکھتے ہیں بلکہ لوگوں کوان کے ساتھ ہمدردانہ سلوک کرنے کا درس بھی دیتے ہیں۔ انہیں اسی لحاظ سے اردو افسانہ نویسی کی تاریخ میںایک جداگانہ مقام حاصل ہے کہ انھوں نے غریب مزدور، مظلوم کسان اور حقیر چمار کو زندگی بخشی اور انہیں سماج میںپہلی مرتبہ برابری کادرجہ دینے پر زوردیا۔ نیزچھوت چھات کی تفریق، ذات پات کی تقسیم، نسلی امتیاز اوراحساسِ برتری کے خلاف علم بغاوت بلندکیا۔اس سچائی کو ڈاکٹر احتشام حسین نے اس طرح نمایاں کیا ہے:

’’وہ(پریم چند)ہندوستانی عوام کی روح میں اترکر ان کے دکھ درد، ان کے کرب واضطراب، ان کی مایوسی اورامید، ان کے خوابوں اور خیالوں کودیکھ سکتے تھے۔ وہ انھیں اس جال سے نکال کر ایک بہترین زندگی کا خلعت دینا چاہتے تھے جس میں وہ صدیوں سے جکڑے ہوئے تھے۔ وہ براہ راست عوام کے پاس گئے اور ان کی تکلیفوں اور خوشیوں میںشریک ہوئے۔ انھوں نے عوام کے مقابلے میں دوسرے طبقات کے مظالم کاپردہ چاک کیا۔‘‘(تنقید اورعملی تنقید،ص:۱۲۳)

پریم چند نے اپنے افسانوں میں سماج کے ان لوگوں کی عکاسی دردمندی سے کی جن کے دل ظلم و ستم کے تیروں سے زخمی تھے۔ وہ ایک حقیقت پسند افسانہ نگارتھے اس لیے واقعات کی سنگینی اور غریبوں، مجبوروں اور مظلوموں کی بدحالی کاتجزیہ بے باکی سے کرتے تھے۔ انھیں ستم رسیدہ اور کچلے ہوئے افراد سے دلی ہمدردی تھی۔ وہ ان کا استحصال کرنے والوں سے شدید نفرت کرتے تھے۔ ان کے جن افسانوں میں جیتے جاگتے مظلوم، بے بس اور مجبور انسان نظرآتے ہیں ان میں ان کا افسانہ کفن شاہکارہے۔ یہ ان کے افسانوں کی معنویت اور اس کی قدروقیمت کو سمجھنے میں اہم کردار اداکرتاہے۔ یہ وہ افسانہ ہے جو ۱۹۳۵ء سے آج تک پھیلی ہوئی افسانہ نگاری کی بنیاد ہے۔یہ ہمارے افسانے کی زندگی میںسنگ میل کی حیثیت رکھتاہے۔ اس سے افسانہ نگاروں نے حقیقت نگاری کا سلیقہ سیکھا۔ اسی نے ترقی پسندافسانہ نگاروں کو راستہ دکھایا۔ اس کی روح یہ ہے کہ ایک گاؤں کا غریب چمار گھیسواور اس کا بیٹا مادھو کاہل، سست اور کام چورہے۔ مادھوکی بیوی بدھیا اپنے شوہر اور خسر کی یہ حالت دیکھ کر خوب محنت ومزدوری کرتی ہے اور سب کاپیٹ پالتی ہے۔ جاڑے کی ایک سرد رات میں جب ساراگاؤں تاریکی میں جذب تھا وہ دردِ زہ میںمبتلاہوکر پچھاڑے کھاتی ہے تواس وقت گھیسواور مادھوکو اس پر ذرابھی ترس نہیں آتا۔ دونوں الاؤ کے سامنے بیٹھ کر بھنے ہوئے آلوؤں سے اپنے پیٹ کی آگ بجھانے میں مصروف رہتے ہیں۔ ان پر اس کی لرزہ خیز چیخوں کا کوئی اثرنہیں ہوتا۔ وہ وہیں اپنے پیٹ کی آگ بجھانے کے بعد اپنی دھوتیاں اوڑھ کر سوجاتے ہیں۔ بدھیارات بھر تکلیف میںمبتلا رہ کر تڑپ کر مرجاتی ہے۔ صبح اس کی لاش دیکھ کر دونوں مصنوعی رنج وغم کا اظہار کرتے ہیں اور آنسو بہاتے ہیں۔ اس کے کفن کے لیے گاؤں سے چندہ کرکے پانچ روپئے جمع کرتے ہیں لیکن اس رقم کوبھی شراب وکباب میںلٹا دیتے ہیں۔ پوریاں کھانے کے اس منظر کی پریم چند جو عکاسی کی ہے وہ بے رحمی کی ایک ایسی تصویر آنکھوں کے سامنے لاتی ہے جو انسانیت کو شرمسار کردیتی ہے۔ دیکھئے:

’’دونوں اس وقت اس شان سے بیٹھے ہوئے پوریاں کھارہے تھے جیسے جنگل میںکوئی شیر اپنا شکار اڑارہا ہو۔ نہ جواب دہی کا خوف تھا، نہ بدنامی کی فکر۔‘‘

اس افسانے میںغربت کے نتیجے میںپیداہونے والی مردہ ضمیری اور بے حسی کو پریم چند نے بڑی خوبی سے واضح کیا ہے اور بے رحمی کی ایک ایسی تصویر کھینچی ہے جس کو پڑھ کر دل کانپنے لگتاہے۔

کسان جو عام لوگوں کے لیے دن رات محنت ومشقت کرکے فصل تیار کرتاہے اس کی خودکی زندگی مفلوک الحال اور قابل رحم ہوتی ہے۔ وہ قرض کے بوجھ کے نیچے دبارہتاہے اورجب مرتاہے تواپنی نسل کے لیے یہی میراث چھوڑجاتاہے۔ پریم چند نے سفید خون میں کسان کی اقتصادی بدحالی، بھوک اور مفلسی کی بڑی دردناک تصویر کھینچی ہے لیکن اسی کے ساتھ ان کے عزم و ہمت کایہ منظر بھی دکھایاہے:

’’بیساکھ کی وہ جلتی ہوئی دھوپ، آگ کے جھونکے زور زور سے ہرہراتے ہوئے چلتے تھے اوروہاں ہڈیوں کے بے شمار ڈھانچے جن کے بدن پر عریانی کے سواکوئی لباس نہ تھا، مٹی کھودنے میں مصروف تھے۔ گویا مرگھٹ تھا جہاں مردے اپنے ہاتھوں اپنی قبریں کھود رہے تھے۔‘‘

ہندوقانونِ وراثت کے مطابق باپ کے مرنے کے بعداس کی ساری جائیداد اس کے بیٹوں کی ہوجاتی ہے۔ اس میں بیٹیوں کاکوئی حق نہیںہوتا۔ اگرماں زندہ ہو تووہ صرف گزارہ لینے کی حقدار ہے۔ یہ قانون سماج کے لیے سودمندہے یا نقصان دہ یہاں اس سے بحث نہیں ہے لیکن پریم چند کے افسانے بدنصیب ماں سے یہ حقیقت ظاہر ہوتی ہے کہ پنڈت اجودھیاناتھ کے انتقال کے بعدان کی بیوہ پھول متی اس قانون سے شکارکی گئی اور اس طرح اس کی خوش نصیبی بدنصیبی میں تبدیل ہوئی۔جب اس کویہ علم ہواکہ یہ سب ہندوقانونِ وراثت کانتیجہ ہے تووہ غصہ سے آگ بگولہ ہوگئی اور بہت ہی تلخ لہجے میں اپنے چاروںبیٹوں سے کہا:

’’گھرمیں نے بنوایا ہے، روپئے میں نے جوڑے، باغ میں نے خریدا، اور آج اس گھرمیں غیرہوں۔ منونے یہی قانون بنایا ہے؟اچھی بات ہے۔ اپنا گھربارلو۔ میری جان چھوڑو، اس طرح محتاج بن کر رہنا مجھے منظور نہیں۔ اس سے کہیں اچھا ہے کہ مرجاؤں۔ واہ رے اندھیر! میںنے ہی درخت لگایااور میں ہی اس کا پتہ نہیں توڑسکتی۔ میں نے گھربنوایا ،میں ہی اس میںنہیں رہ سکتی۔ اگریہی قانون ہے تواس میں آگ لگ جائے۔ اگرمیں جانتی کہ میری یہ درگت ہونے والی ہے تو ساری جائیداد اپنے نام کرالیتی۔‘‘

اس کے بعد پھول متی نے اپنے ہی گھر میں ایک خادمہ کی حیثیت سے زندگی گزاری۔ اسی حال میں روز وشب گزر رہے تھے کہ ایک دن ساون کی برسات میں وہ علی الصبح اپنے بڑے بیٹے کامتاناتھ کے لیے گنگا جل لینے گئی۔ گنگا بڑھی ہوئی تھی۔ جوں ہی کلسا لیے سیڑھیوں کے نیچے اتری اس کاپاؤں پھسلااوروہ لہروں میںسماگئی۔

پریم چندکے افسانوں میںایک خوبی یہ بھی ہے کہ ان میں اصلاحی عناصر جابجاملتے ہیں۔ انھوں نے سماج میںرائج بے ہودہ  رسم ورواج پرکڑی نکتہ چینی کی ہے، مذہب کے نام نہاد ٹھیکیداروں کی مذمت کی ہے۔ بیواؤں کی شادی پر زوردیاہے۔ قرض کی برائیاں اور سود کے نقصانات گنوائے ہیں، ایمانداری، خلوص، ہمدردی اور نیک نیتی کے فوائد بتائے ہیں۔ اچھائی اور برائی کے درمیان امتیازی خط کھینچاہے اوریہ واضح کیاہے کہ اچھے اور برے کاموں کے کیا نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ انھوں نے مکروفریب، جعل سازی، جھوٹ اور تعصب جیسے جرائم کاذکر کرکے اس حقیقت کا انکشاف کیا ہے کہ ان سے انسان کس درجہ ذلیل اور رسوا ہوتاہے۔ اس کے برخلاف اخوت، مساوات، ہمدردی اور بردباری کے صلے میں وہ کیا پاتا ہے۔اس لحاظ سے ان کے افسانے شکوہ شکایت، شانتی، روشنی، مالکن، گلی ڈنڈا، انصاف کی پولس، نمایاںحیثیت رکھتے ہیں۔ انھوں نے شکوہ شکایت میں گھریلوزندگی کی عکاسی کی ہے اور اس حقیقت کوواضح کیا ہے کہ ہندوستانی عورت اپنے شوہر سے اختلاف توکرسکتی ہے لیکن اس کے ساتھ اپنی محبت میں کوئی کمی آنے نہیں دیتی۔ وہ اپنی ساری خوشیوں کو اس کے قدموں پر نثار کرنے کے لیے ہمیشہ آمادہ رہتی ہے۔ شانتی میںایک بیوہ عورت کی مشکلات ومصائب کا خندہ پیشانی سے مقابلہ کرتے ہوئے تصویر دکھائی گئی ہے جوعزم وہمت کے جذبات کو ابھارتی ہے۔ روشنی میں اس سچائی کو اجاگر کیاگیاہے کہ وہی انسان، انسان کہلانے کامستحق ہے جس کا آئینۂ دل گردِکدورت سے صاف ہو۔ جودوسروں کے مصائب میںکام آتاہو، ہر دکھ کو اپنا دکھ سمجھتاہو اور ہر تکلیف کو اپنی تکلیف جانتاہو۔ جو مجبوروں اور بے سہاروں کے کام آئے اور غم زدہ لوگوں کی آنکھوں سے آنسو پونچھے۔ اگرایک انسان میں یہ اوصاف نہیںہیں توفقط اعلاڈگریاں حاصل کرلینے سے اس کی شخصیت کی تکمیل نہیں ہوسکتی۔ ایساشخص بااخلاق وباکردار ان پڑھ کے مقابلے میںکوئی اہمیت نہیںرکھتا۔ اس افسانے میں گاؤں کی ایک ناخواندہ عورت نے زبردست آندھی میںایک آئی سی ایس افسر کے ساتھ جس ہمدردی وانسانیت کامظاہرہ کیا اور اس سے متاثر ہوکر اس نے اپنے جن تاثرات کااظہار کیا دراصل وہی اس افسانے کی روح ہے۔ وہ کہتا ہے:

’’اگرتعلیم فی الاصل تہذیب النفس ہے اورمحض اعلاڈگریاں نہیں تویہ عورت تعلیم کی معراج کو پہنچی ہوئی ہے۔‘‘

پریم چند کے دیگر افسانوں میں بھی اسی طرح کی اخلاقیات ملتی ہیں۔جو جوہر انسانیت سے مزین ہیں۔وہ اپنے افسانوں میں سفید اور سیاہ، جھوٹ اور سچ، ظلم اور احسان کوالگ الگ کرکے دکھاتے ہیں اور لوگوں کو سچائی کی دعوت دیتے ہیں۔ چنانچہ عبدالماجددریاآبادی لکھتے ہیں:

’’شرافت پریم چند کے قلم کی جان اور روحِ انسانیت کی بیداری ان کے افسانے کاعنوان ہے۔ ان کے افسانے اس کام کے نہیں کہ نوجوانوں کے نفسیاتی خیالات کو بھڑکائیں، اکسائیں، وہ اس غرض کے لیے ہیں کہ روح کی پاکیزگی کو جگائیں، گرمائیں۔ منظرکیساہی گندہ ہو ان کی نظرِ انتخاب ہمیشہ انہی عنصروں کو چن لیتی ہے جو نفس کو نہیں روح کو تڑپائیں۔ ۔ ۔  اور بدی کی نہیں نیکی کی قوت کو حرکت میںلائیں۔‘‘

پریم چندبنیادی طورپرایسے افسانہ نویس ہیںجواپنے سارے شعور اور اپنی حسیت کوجمالیاتی تجربے میںڈھال کر پیش کرتے ہیں۔ وہ اپنے آرٹ کاتانابانا اپنے کرداروں سے تیار کرتے ہیں اوراس خوبی سے تیار کرتے ہیں کہ ان کے تمام کردار چاہے ان کا تعلق کسی بھی جنس یا طبقے سے ہواپنی اپنی حیثیت اور مرتبے کے لحاظ سے کام کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ان کے افسانوں میںاس نئی حسیت کی گونج سنائی دیتی ہے جوان کے سامنے بکھررہی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے یہاں جذباتیت سے بھراہوا اسلوب ملتاہے۔ انھوں نے اپنے افسانوں میںجو زبان استعمال کی ہے وہ انتہائی سادہ، صاف  اورمبالغے سے پاک ہے۔ یہ اسی کانتیجہ ہے کہ ان کے یہاں فطری مناظر اور واقعات میںحسن وتاثر ملتاہے۔ وہ جامد منظر کوبھی لفظوں کے سہارے بڑی خوبصورتی سے پیش کرتے ہیں۔ ان کا حقیقت نگارقلم معمولی واقعات کی ایسی دلچسپ تصویریں کھینچتا ہے کہ وہ نظروں کے سامنے گھومنے لگتے ہیں۔ انہیںخوبیوں نے ان کے افسانوں کو دائمی زندگی عطا کی ہے۔ واقعی وہ ایسے افسانہ نویس تھے کہ آج تک اس میدان میںان کا کوئی ہمسر نہ ہوسکا۔

٭٭٭٭


ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول