صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں


جنگل کی کہانیاں

ڈاکٹر غلام سرور

جمع و ترتیب: اعجاز عبید 


ڈاؤن لوڈ کریں 

ورڈ فائل                                                   ٹیکسٹ فائل

قصہ ایک شیر کی حجامت کا  اقتباس

پچھلے سال کا واقعہ ہے کہ سرکار کی طرف سے فِلم بنانے والوں   کا ایک گروپ ایک جنگل میں   آ کر خیمہ زن ہوا تھا۔ فِلم جنگل کے پرندوں   اور جانوروں   سے متعلق تھی اور اگلے روز شوٹنگ شروع ہونے والی تھی۔ شام کا سہانا وقت تھا اور چڑیاں   خوب چہچہا رہی تھیں۔ مگر کیمرہ مین پاشا کو ان سے کوئی دلچسپی نہیں   تھی۔ اُسے ایک فکر کھائے جا رہی تھی۔ شیر کی__ وہ سوچ رہا تھا کہ شیر جنگل میں   ہوتے ہی کیوں   ہیں، آخر کس کو ضرورت ہے شیروں   کی۔

’’ کیا تم چاہتے ہو کہ اس جنگل میں   شیر موجود ہوں  ‘‘ اس نے برابر کے خیمے میں   جا کر فلم کے ڈائریکٹر سے پوچھا۔ ’’ ہاں   بھئی کیوں   نہیں ، میں   شیروں   کی وجہ سے تو اس جنگل میں   آیا ہوں   فلم بنانے__ تم ڈرتے ہو کیا شیروں   سے ؟ ‘‘

’’ شیروں   سے سب ڈرتے ہیں ۔ میں   بھی ڈرتا ہوں ۔ ہاں   اگر شیر کہیں   سلاخوں   کے پیچھے ہو تو بات اور ہے__ مگر یہ تو کھلا جنگل ہے اور یہاں   شیر آزاد پھرتے ہوں   گے۔ مجھے تو نیند بھی نہیں   آئے گی۔ ‘‘

’’ دیکھو ڈرو مت، شیروں   کے بارے میں   کتابوں   میں   لکھا ہے کہ بہت طاقتور جانور ہے مگر پھر بھی انسان پر حملہ نہیں   کرتا، بس کبھی کبھی کوئی شیر آدم خوری پر اتر آتا ہے۔ ‘‘

ظاہر ہے کہ ان باتوں   سے پاشا کا خوف بجائے کم ہونے کے اور بڑھ گیا اور پھرتی سے واپس اپنے خیمے میں   چلا آیا۔

پاشا کے شیر سے ڈرنے کی خبر جنگل کی آگ کی طرح ہر طرف پھیل گئی اور گروپ کے چند منچلوں   نے اس سے فائدہ اٹھانے کی سوچی، لہٰذا اندھیرا ہوتے ہی ایک صاحب شیر کی کھال اوڑھ کر پاشا کے خیمے میں   جھانکے اور ہلکا ساغرا دئیے۔ پاشا کے لیے بس اتنا ہی کافی تھا۔ اس نے مدد کے لیے کسی کو پکارا اور نہ کہیں   بھاگا۔ وجہ یہ تھی کہ اس کی زبان حلق میں   پھنس گئی تھی اور ٹانگیں   موم کی طرح اس کے جسم تلے مڑ گئی تھیں۔ اس نے بس ایک ہاتھ کو ہلکی سی جنبش دی، جیسے تمام انسانیت کو الوداع کہنا چاہتا ہو، اور بے ہوش ہو کر فرش پر دھم سے آن پڑا۔

پانی کی کئی بالٹیاں   جب اس پر انڈیلی جا چکیں   تو اس نے آنکھ کھولی۔ سب لوگ ہنس رہے تھے۔ پاشا فوراً بات کی تہہ تک پہنچ گیا اور خود بھی ہنسنے کی کوشش میں   دانت نکالنے لگا۔ اس نے سوچا کہ غلطی خود اسی کی تھی، اب بات کا بتنگڑ بنانے سے کیا فائدہ۔

لوگ جلد ہی اس واقعے کو بھول گئے مگر پاشا نہیں   بھول سکتا تھا۔ ایک صبح وہ اپنے خیمے میں   ایک آئینے کے سامنے بیٹھا شیو بنانے والا تھا کہ اچانک خیمے کے اندر ایک شیر کی گردن داخل ہوئی۔ اور پاشا کو دیکھ کر ہلکا سا غرائی۔ پاشا نے فوراً اپنی آنکھیں   بند کر لیں   اور صابن کے جھاگ بھرے برش کو مضبوطی سے تھام لیا۔ چند لمحوں   بعد اس نے آہستہ سے ایک آنکھ کھول کر شیر کو دیکھا۔ پھر اس کے چہرے پر انتقامی مسکراہٹ پھیل گئی اور اس نے دوسری آنکھ بھی کھول لی۔

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

ورڈ فائل                                                   ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول