صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں


جمالِ محسنِ انسانیتﷺ نعت کے آئینے میں 

گوہر ملسیانی 

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                ٹیکسٹ فائل

اقتباس

مفکرین اور حکمائے عالم نے اپنے اپنے نقطۂ  نظر سے حسن و جمال کی تشریح و تفسیر اور تفصیل و تعلیم پر اپنے وسیع الفکری اور کثیر الجہتی تصورات اہلِ نظر کے سامنے رکھے ہیں۔ سقراط نے حکمتِ انسانیت میں حسن و جمال کے تصور کی وابستگی پائی ہے، افلاطون نے اپنی مثالی جمہوریت کے خدوخال میں حسن و جمال کو تلاش کیا ہے، جب کہ ارسطو نے اپنی بوطیقا میں انسان کے تصورات و تخیلات کی تطہیر (Catharsis) کو حسن و جمال کا حصہ قرار دیا ہے۔ یونانی فکر کے سوتوں سے جمالیات کی بات مغربی افکار کی وادی میں پہنچی تو کلاسیکیت (Classicism) اور رومانیت (Romanticism) کے عَلَم برداروں نے جمالیات کو معروضی (Objective) اور موضوعی (Subjective) زاویوں میں جھانک کر دیکھا۔ ان مشاہدات میں پوپ (Pope) ، ملٹن (Milton) ، سپنسر (Spensir) اور شیکسپیئر (Shakespeare) وغیرہ نے زیادہ تر حسن و جمال کو موضوعی کیفیات میں پنہاں پایا جب کہ کالرج (Coleridge) ، ورڈز ورتھ (Wordsworth) ، شیلے (Shelley) ، کیٹس (Keats) اور لانگ فیلو (Longfellow) وغیرہ نے معروضی انداز سے حسن و جمال کی تصویر کشی کی، یوں انھوں نے حسن کو فطرتِ کائنات میں جاری و ساری دیکھا۔ حقیقت یہ ہے کہ مغرب کے مزاج کا رجحان خارجیت یا معروضیت (Objectivity) کی جانب ہے۔ اگر قدیم یونانی فکر سے شروع کر کے قدیم مغربی فکر میں جھانکا جائے تو ہمیں حسن و جمال انسان کی داخلی حسّیات میں نمودار ہوتا ملتا ہے مگر مغربِ جدید جسے رومانوی عہد (Romanic Era) کہتے ہیں اس میں ہمیں داخلیت یا موضوعیت میں تصورِ جمال بہت کم کم اور ثانوی حیثیت میں ملتا ہے جب کہ معروضی یا خارجی حسن جمالِ فطرت کے اظہار کے تناظر میں نمایاں ملتی ہے۔
فطرت کے متعلق یعنی (Nature) کے بارے میں ان شعرائے کرام کا ایک مخصوص اندازِ فکر و نظر ہے۔ مثلاً ورڈز ورتھ فطرت کی ہر شکل میں مشاہدۂ  حسن کرتا ہے۔ اس کی جملہ منظومات لیوسی، پریلیوڈ (Prelude) ، ٹنٹرن ایبے (Tentern Abey) وغیرہ جمالِ فطرت کی شاہ کار نظمیں ہیں۔ اس کی ان نظموں میں اگرچہ جمال، فطرت کے مناظر سے پھوٹتا ہے اور خود شاعر بھی اس حسن کی تلاش میں سرگرداں اور اس کا بھوکا اور پیاسا ملتا ہے مگر اس نے روحانی دنیا میں بھی ایک انقلاب برپا کر دیا ہے۔ اس کے تصورات میں جمال و جلال کا ایک حسین امتزاج ہے۔ شاعر سبزہ زاروں، کوہ ساروں، جنگلوں اور وادیوں میں حسنِ فطرت کی تلاش میں دیوانہ وار دوڑتا ملتا ہے۔ وہ آسمان کی وسعتوں میں تیرتے بادلوں، بید کے درخت کی نرم و نازک شاخوں، آدھی رات کے تاروں، گھنگور گھٹاؤں اور ندیوں کی مترنم آوازوں میں جمالِ فطرت کی رعنائی سے مدہوش و مسحور ہو جاتا ہے وہ اسی حسنِ فطرت کے بارے میں پکار اُٹھتا ہے:
Whose dwelling is the light of setting sun,
And the round ocean, and the living air, And the blue sky, and in the mind of man.
جو غروب آفتاب کی روشنی میں، وسیع و عریض سمندر میں، مسلسل حرکت کرنے والی ہوا میں، نیلے آسمان میں اور قلب انسانی میں جلوہ گر ہے۔ ٭۱
یہی تو حسن و جمالِ فطرت ہے۔ کیا اس میں شاعر کی معروضی کیفیت چمکتی دمکتی نہیں ہے؟ اس میں وہ خاص جمال ہے جو خالقِ کائنات نے اس کرۂ  ارض اور اس کائنات کی ہر شے کو عطا کیا ہے، وہ کائنات میں پھیلے ہوئے مناظر یا انسان کی شکل و صورت یا انسان کی دِلی کیفیات سے منصہ شہود پر آتا ہے۔
مغرب کی رومانوی تحریک کے ایک اور جواں مرگ شاعر کے تخیل کی پرواز میں دیکھیے وہ تو اس سے بھی ایک قدم آگے چلا گیا ہے۔ وہ فطرت کی رعنائی کا شیدائی ضرور ہے مگر پیکرِ فطرت کے حسن و جمال کو صداقت کا شاہ کار قرار دیتا ہے۔ وہ تو اس کائنات میں حسن ہی کو صداقت قرار دیتا ہے اور حسن ہی صداقت کا سرچشمہ ہے۔
Beauty is truth, truth is beauty, that is all, All ye know the earth, and all ye need to know.
(حسن و جمال ہی صداقت ہے، صداقت ہی جمال ہے، قصہ مختصر، اس کرۂ  ارض پر تم سب اسی کو جانتے ہو اور تم سب کو یہی معلوم ہونا چاہیے۔) 
مغربی مفکرین نے حیات و کائنات کے حسن کو اپنے قلب و وجدان کے راستے سے پایا ہے اور اس حسنِ فطرت میں جلوۂ  قادرِ مطلق دیکھا ہے۔ مَیں یہاں وحدت الوجود یا وحدت الشہود کے مباحث میں الجھنا نہیں چاہتا۔ یہ تو صرف مغربی مفکرین کے تصورات کا مختصر سا جائزہ ہے جس میں حسن و جمال کی رعنائی کے مختلف رنگ بلکہ مختلف رنگوں میں حسن و جمال کی چمک دمک کو دیکھا گیا ہے۔ وہ حسن و جمال کو کسی تخلیق میں پنہاں دیکھتے ہیں اور اپنے خیالات و تصورات کو اپنے حسین اسلوب، استعارات و تشبیہات، رموز و کنایات بلکہ فصاحت و بلاغت میں تراکیب و الفاظ کے ذریعے اس حسن و جمال کا اظہار کرتے ہیں۔ یوں جمالیات کے دونوں رُخ نمودار ہو جاتے ہیں ایک وہ جمال جو اُس شے میں دیکھتے ہیں اور دوسرا وہ جمال جو اُن کے اسلوب سے نمایاں ہوتا ہے۔ ان کی تخلیقی قوت کے اظہار میں اگر ایک قرینہ، ایک سلیقہ اور ایک اندازِ حسن ملتا ہے تو حسنِ فطرت سے جذباتی لگاؤ بھی ملتا ہے۔ یہ دونوں فن اور منظر مل کر ایک نئے جمال کو سامنے لاتے ہیں۔ یہی خطوط مستقبل میں اظہارِ جمال کے رہنما اُصول بنتے ہیں۔
مفکرینِ جمالیات کے نقطۂ  نظر کے مطابق بقولِ حسن محمود جعفری دراصل جمالیات فلسفہ ہی کا ایک شعبہ ہے، وہ کہتے ہیں:
جمال یعنی حسن کی نوعیت، ماہیت اور حقیقت کو فکری سطح پر جاننے کی کوشش و جستجو کا نام جمالیات ہے۔

حسن محمود جعفری صاحب نے اس کی وضاحت کے لیے ایک طویل اقتباس لوڈونگ وٹگن اسٹائن (Ludwing Wettgenstein) کا دیا ہے، اس کی چند سطور کا ترجمہ یہاں شامل کیا جاتا ہے جو آج کے موضوع کے لیے اہم ہے:
جمالیات کے علم کو تین مختلف نقطہ ہائے نظر سے بیان کیا جا سکتا ہے جو دراصل تین مختلف نوعیت کے سوالات کی بنیاد پر قائم ہوتے ہیں:
(۱) ان جمالیاتی تصورات کا مطالعہ جو اپنی اصل میں جمالیات میں استعمال ہونے والی زبان کا نتیجہ ہوتے ہیں۔
(۲) ان ذہنی حالتوں، رویوں اور احساسات و جذبات کا مطالعہ جو جمالیاتی تجربہ کے ردِّ عمل میں پیدا ہوتے ہیں۔ 
(۳) ان اشیا کا براہِ راست مطالعہ جو جمالیات کے تحت زیرِ غور آتی ہیں کہ آخر ان میں کیا خواص ہیں جو ان اشیا کو جمالیات کا موضوع بناتے ہیں۔ 
اس اقتباس میں پہلے اور تیسرے نقاط میں زیادہ تر جمالِ مصطفیٰﷺ کو زیرِ بحث لانے کی سعی کی جائے گی جو آج کے مضمون کی مناسبت سے نعتیہ شاعری میں تلاش کیے جا سکتے ہیں مگر یہ کچھ دیر بعد میں احاطۂ  تحریر میں آئیں گے۔

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول