صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں


جو جاگنے کو ملا دیوے خواب میں 

محمد عاطف علیم 


ڈاؤن لوڈ کریں 

ورڈ فائل                                                   ٹیکسٹ فائل

اقتباس

بن ڈر کے ڈرے رہنا اور بے بات کے مرے رہنا۔ بس یہی تھا جو جانے کب سے چل رہا تھا۔

رات کے آخر آخر میں   جب آسمان کی بھید بھری ا تھاہ میں   ڈولتا چاند زمین کی اور تکتے تکتے بوریت کے مارے بے دم ہو جاتا تو تماشا شروع ہو جاتا۔

وہ بہت سے تھے اور میں   اکیلا۔ جانے کون کو ن دیسوں   یہ چنڈال چوکڑی اکٹھی ہو کر اس اینٹوں ، ریت، بجری اور سیمنٹ سے اٹھائے گئے جیومیٹریکل ملغوبے میں  آن بسی تھی جس کے باہری دروازے پر ہوم سویٹ ہوم کی چٹاخ اڑی تختی آڑھی ترچھی لٹکا کرتی ہے۔ قصور تو خیر میرا ہی تھا کہ میں   نے ہی ان سب پاگل خانوں   کو تلاشا تھا۔ ورنہ وہ بیچارے تو اپنے اپنے وجود سے کٹے ہوئے، نا ہونے جیسا ہونے پر اکتفا کیے اپنی اپنی قید میں   شانت پڑے تھے۔

ادھر میں   تھا، نیند اور تنہائی کا مارا، اپنے ہونے سے کٹا ہوا، پری شیزو فرینک ٹائپ چیز۔ جب دیکھو ہولایا پھروں ۔ ناخنوں   سے ماس نوچتا کمرے میں   چکر لگایا کروں ۔ بس ایک ہی اچمنی کہ کوئی تو دوسرا ہو، اینی ادر سیلف جس سے کوئی بات شات کی صورت بنے۔ بھلے ہم سخن نہ ہو اور کوئی مضائقہ نہیں   کہ ہم زبان بھی نہ ہو لیکن کوئی تو ہو جو میرے بدن کے چھید چھید سے رت جگوں   کی لہو رنگ کرچیاں   چن سکے۔ کوئی تو ہو جو میری دوسراتھ میں   ستاروں   کی اعصاب شکن خاموشی اور پورنما کی بے انت شورش کا تماشا دیکھ سکے۔ لوگ مجھے پاگل خانہ کہتے ہیں   تو کچھ غلط نہیں   کہتے کہ میں   عذابوں   کا جویا یونہی خود کو بے حال رکھتا ہوں ۔

سو اسی اچمنی کے مارے یا ایک موہوم امید کے سہارے میں   نے انہیں   اینٹ اینٹ سے تلاشا کہ میرے سنگی ساتھی بنیں   گے اور کیا عجب کہ ان سے مجھے کچھ اپنی اور چھور مل جائے۔ شاید میں   کبھی خود کو ان سے ایسوسی ایٹ نہ کر پاؤں   لیکن اب تو یہی میری بے خواب راتوں   کے گواہ ہیں ۔

ہر روز رات کی آخری ساعتوں   میں   جب میری جاگتی آنکھوں   سے لہو رسنے لگتا ہے یہ خواتین و حضرات دیواروں   سے نکل نکل کمرے میں   مجلس جمانے کو آ موجود ہوتے ہیں ۔ ان میں   جو نہیں   ہوتی تو بس وہی نہیں   ہوتی جس سے کٹ کر بھی میں   آج دم تک گویا اس کے آنول سے بندھا ہوا ہوں  ۔ مجھے ارمان ہے تو بس اسی کا اور تلاش ہے تو بس اسی کی کہ وہ میری پہچان کا حرف اول ہے۔ وہ ہو تو کچھ میرا اتا پتا، کچھ میرا اور چھور ملے۔ خیر،اس کا ذکر بعد میں   پہلے میں   گجر دم تک بپا ہونے والے اس طوفان بد تمیزی کا احوال بیان کر دوں   جس کا چارو ناچار مجھے حصہ بننا پڑتا ہے۔

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

ورڈ فائل                                                   ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول