صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
جاگے ہوئے تھے خواب
نصیر احمد ناصر
ترتیب: اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
نظم کے لئے نظم
پوچھتی ہے
نظم کیا ہے
نظم اس کی خوبصورت ناک ہے
تربوز کی قاشوں سے دونوں ہونٹ اس کے نظم ہیں
آنکھوں میں پھیلا صاف ستھرا آسماں بھی نظم ہے
گہرے سلیٹی بادلوں جیسے گھنیرے بال اس کے
اور پیشانی افق سی نظم ہے
نظم بچوں کی شرارت
نظم بوڑھی عورتوں کی گفتگو ہے
نظم اچھے دوستوں کے ساتھ گزری شام ہے
نظم ویٹنگ لاؤنج میں بیٹھی مسافر لڑکیوں کے ہاتھ کا سامان ہے
پارکوں میں سیر کرتے، کھیلتے، پکنک مناتے
لوگ سارے نظم کے کر دار ہیں
نظم سینی ٹوریم کی سیڑھیوں پر زندگی کی دھوپ ہے
نظم عریاں پوسٹر ہے
نظم جپسی گرل ہے
نظم ونڈر لینڈ ہے
نظم نیلی جھیل ہے
آبی پرندے کی چٹانوں سے پھسلتی چیخ ہے
نظم واٹر فال ہے
نظم چاروں موسموں کی سمفنی ہے
نظم اجلی بارشوں کا گیت ہے
نظم کبڑی رین بو ہے
بوسنیا کے سارے بچے نظم کے الفاظ ہیں
اجتماعی آبرو ریزی سے پہلے عورتیں بھی نظم کی تمہید تھیں
اب مکمل نظم ہیں
ٹارچر چیمبر میں قیدی کی گھٹی سی چیخ بھی تو نظم ہے
کشمیر کی برفاب وادی میں لہو کی آگ بھی
اب نظم بنتی جا رہی ہے
بھوک سے مرتا ہوا صومالیہ بھی نظم ہے
پیس کیپنگ سولجر کی لاش کا تابوت زندہ نظم ہے
پوچھتی ہے نظم کیا ہے
کیا بتاؤں میں کہ اس کی نظم لکھتی انگلیاں بھی نظم ہیں
نظم اس کے ہاتھ کی تحریر ہے
نظم اس کی خوبرو تصویر ہے
نظم اس کی براؤن سینڈل
نظم اس کے پاؤں کی تقدیر ہے
جانتی ہے
کاسنی کپڑوں میں بالکل نظم لگتی ہے مجھے وہ
پھر بھی مجھ سے پوچھتی ہے
نظم کیا ہے
٭٭٭