صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں


جدید مرثیہ

تین مضامین کا مجموعہ جریدہ ’عکاس‘ اسلام آباد کی کتاب دس سے ماخوذ

جمع و ترتیب: ارشد خالد، اعجاز عبید

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                               ٹیکسٹ فائل

جدید اُردو مرثیہ

    شعر و ادب میں ایسے واقعات زیادہ اہم قرار پاتے ہیں جو انسان کی اجتماعی زندگی اور معاشرت پر براہ راست اثرانداز ہوتے ہیں۔ واقعۂ کربلا محض ایک تخئیلی داستان نہیں بلکہ اس واقعے میں معاشرت کرنے کے اعلیٰ اقدار مل جائیں گے۔ یہی سبب ہے کہ دوسرے تاریخی واقعات کی بہ نسبت واقعۂ کربلا نے انسانی زندگی پر گہرے اثرات مرتب کئے ہیں۔ حق گوئی، مظلومیت اور تمرّد کے خلاف جہاد کرنا، یہ ایسے اعلیٰ اقدار ہیں جنہوں نے نہ صرف یہ کہ معاشروں کو متاثر کیا بلکہ اس کے اثرات ادب و شعر پر بھی مرتسم ہوئے۔ (۱) یہی سبب ہے کہ اعلیٰ قدروں کی ترویج کے لئے کربلا کو استعارہ بنایا گیا (۲) اور ان استعاروں اور تلازموں سے نہایت عمدہ اور کارگر شہ پارے تخلیق کئے گئے۔ (۳، ۴)
    معروف و غیر معروف ناقدین، محققین اور دانشوروں کی جانب سے بالعموم یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ واقعۂ کربلا نے مختلف اصنافِ شعر و ادب کو متاثر کیا، بطور ثبوت غزل، داستان، افسانہ، مثنوی، ناول، نظم، ناولٹ، سفر نامہ، رپورتاژ اور دیگر اصناف میں سے چیدہ چیدہ مثالیں پیش کی جاتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ واقعۂ کربلا نے محض شعر و ادب ہی کو متاثر نہیں کیا بلکہ اُردو شاعری کو متعدد اصناف سے مالا مال بھی کیا۔ آپ سلام، نوحہ اور مرثیہ کا بغور مطالعہ فرمائیے اور اس سوال کا کھوج لگائیے کہ کیا واقعہ کربلا کے بغیر ان اصناف کا ظہور میں آنا ممکن تھا؟؟ صنفِ مرثیہ وہ ممتاز صنف ہے، جس کا خمیر اسی برصغیر میں تیار ہوا اور یہی وہ صنف ہے کہ جس میں اُردو کے بیشتر اصناف کے محاسن کا جوہر مل جاتا ہے۔(۵) اس اعتبار سے کہا جا سکتا ہے کہ مرثیے کی صنف کو برصغیر پاک و ہند سے جو خصوصیت ہے وہ کسی دوسری صنف کو حاصل نہیں ہے۔ اسی طرح کہا جا سکتا ہے کہ سلام و نوحہ بھی صنفِ مرثیہ کی توسیع ہیں۔
    مرثیہ، سلام اور نوحے کے اصناف ہر عہد میں اس لئے مقبولِ خاص و عام رہے کہ ان میں زندگی کی اعلیٰ قدریں پیش کی جاتی رہیں اور اسی سبب سے ان کے ذریعے اعلیٰ تر معاشرتی رویّے ظاہر ہوئے۔ آج بھی مذکورہ اصناف میں واقعۂ کربلا کے حوالے سے زندگی بسر کرنے کے بہترین تصورات مل جائیں گے۔(۶) واقعۂ کربلا کا یہ فیضان ہے کہ ا س نے ایک سطح پر تو انسان کا تعلق خدا سے اور دوسری سطح پر انسان کا تعلق اعلیٰ تر معاشرتی اقدار سے جوڑ دیا ہے۔ عصرِ حاضر میں ایسے شعراء کی ایک کثیر تعداد موجود ہے، جو ان اصناف کے حوالے سے معاشرے میں مثبت اقدار کو فروغ دینے میں مصروف ہے۔
    لکھنو برصغیر کی تہذیب و ثقافت کا سب سے بڑا مرکز تھا، یہی سبب ہے کہ جملہ فنونِ لطیفہ یہاں اوجِ کمال تک پہنچے۔ نثر ہو یا شاعری، یہاں کے تخلیق کاروں نے ہر میدان میں اپنی صناعانہ تخلیقی ہنر مندیوں کا ثبوت دیا۔ فن کے اظہار کے لئے نئے نئے راستے تلاش کئے جانے لگے۔(۷) خارجیت اور ڈرامائی عناصر کے امتزاج سے لکھنؤ میں ایک منفرد شعری فضا تشکیل پانے لگی۔ (۸) اسی صورتِ حال میں خارجیت، ڈرامائی عناصر اور واقعۂ کربلا کے مثلث نے صنفِ مرثیہ کا تخلیق نامہ مرتب کیا۔ برصغیر کی سرزمین کا طرزِ احساس اور اس کے تہذیبی اثرات نیز عرب کے تاریخی واقعات و عوامل انیس و دبیر کے مرثیوں میں یکجا ہو کر فن کی انتہائی بلندیوں کو چھونے لگے۔ ان دونوں حضرات نے مرثیے کے تخلیقی امکانات کو وسیع کیا(۹) اور اپنے بہترین افکار کو اپنے متنوع اسالیب میں پیش کر کے ہر عہد کے شعراء کو متاثر کیا۔ (۱۰) تا اینکہ یہ سلسلہ آج بھی جار ی ہے۔ انیس و دبیر نے برصغیر کے تہذیبی عناصر کو جس طرح اپنے مرثیوں میں محفوظ کیا تھا، اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ ان کے مرثیوں کے مطالعے سے ہم آج بھی برصغیر کی اسلامی تہذیب و ثقافت کا کھوج لگا سکتے ہیں۔ (۱۱)
    بیسویں صدی میں ہندوستانی معاشرت پر طرح طرح کے بین الاقوامی سیاسی، سماجی، مذہبی اور معاشی اثرات مرتب ہو رہے تھے۔ انیس و دبیر کا لکھنؤ زوال آمادہ تھا اور عظیم تہذیبی روایات دم توڑ رہی تھیں۔ تاہم بقول سیّد عاشور کاظمی  :
‘‘۱۸۵۷ء کے بعد اودھ کی تہذیب کو مٹانے کی کوششوں کے باوجود لکھنو گہوارۂ علم و ادب تھا … میر انیس کا شہر لکھنو، رثائی ادب کا شہر لکھنو، تہذیبِ سیادت کا شہر لکھنو، وہ شہر جو دماغ وضع کرتا تھا۔ وہ شہر جو پتھروں کو دل بنا دیتا تھا۔(۱۲)
دانش مند کہتے ہیں کہ جب چراغ بجھنے لگتا ہے تو اس کی لَو تیز ہو جاتی ہے۔ کچھ یہی صورتِ حال لکھنو میں بھی تھی کہ زوال آمادگی کے باوجود یہاں متداولہ علوم و فنون ترقی کر رہے تھے اور یہاں کی چمک دمک نوواردان کی آنکھوں کو خیرہ کر رہی تھی۔
    بیسویں صدی کے آغاز ہی میں مختلف تاریخی، سیاسی، سماجی اور معاشی اسباب کی بنا پر برصغیر پاک و ہند کے معاشرے میں شکست و ریخت کے آثار ظاہر ہونے لگے تھے۔ اس حوالے سے پہلے ڈاکٹر سجاد باقر رضوی کی رائے ملاحظہ فرمائیے
‘‘…انگریز حاکم ہندوستان کی محکوم اور ‘‘وحشی’’ رعایا کو زیادہ سے زیادہ ‘‘متمدّن’’ بنانا چاہتے تھے تاکہ ان کا معیار زندگی اعلیٰ سطح پر آ جائے اور نتیجتاً وہ ان اشیائے تجارت کی کھپت کر سکیں جو انگلستان کی ملوں میں تیار ہوتی ہیں۔ ‘‘(۱۳)
    اس معاشرتی بے کلی اور ٹوٹ پھوٹ کا نتیجہ یہ بر آمد ہوا کہ پورے معاشرے میں اب کیا ہو گا …؟؟؟ کے اندیشے پائے جانے لگے۔ اس صورت حال نے دوسرے دوائر کی طرح ادب کے دائرے کو بھی متاثر کیا۔ سر سید نے تہذیب الاخلاق کے اجرا سے اپنے تئیں معاشرے کو سدھار لیا جبکہ حالی نے مسدس مد و جزرِ اسلام لکھ کر تہذیب الاخلاق کی منظوم شرح کر کے سرسید سے حق دوستی ادا کر دیا۔ (۱۴) آپ اس دور کے شعر و ادب کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ گومگو اور پژ مردہ صورت حال کے سبب سے شعر و ادب میں ایک طرف تو مایوسی، اضمحلال اور تھکن کا لہجہ ظاہر ہوا اور دوسرے رخ پر اس کے ردِ عمل میں ایک تند و تیز، گھمبیر اور دبنگ لہجہ معرضِ وجود میں آگیا۔ ان دونوں لہجوں کا مطالعہ کیجئے تو یہ ایک ہی جیسے حالات کا نتیجہ  ثابت ہوں گے۔ اس زمانے میں سیاسی اور معاشی صورت حال کی وجہ سے شعر و ادب میں بھی ایک زبردست مزاحمت اور احتجاج کی کیفیت پیدا ہو رہی تھی(۱۵)۔ بیشتر اصناف اپنا اپنا چولا بدل رہے تھے۔ چنانچہ مرثیے نے بھی عصری مسائل کو جذب کیا۔ (۱۶)یہی سبب ہے کہ بیسویں صدی کے بیشتر مسائل آپ کو اس زمانے کے مرثیوں میں ضرور ملیں گے۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر ہلال نقوی کی رائے بھی ملاحظہ فرما لیجئے :
‘‘… بیسویں صدی میں مرثیے کا نیا سفر برصغیر کے اس زوال پذیر معاشرے کی دہلیز سے شروع ہوتا ہے جس میں فیوڈل سسٹم کے نئے جال بنے جا رہے تھے اور انگریزوں کی حاکمیت اس خطے میں اپنے نظام فکر کے بیج بو رہی تھی۔(۱۷)’’

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں  

   ورڈ فائل                                               ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں  مشکل؟؟؟

یہاں  تشریف لائیں ۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں  میں  استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں  ہے۔

صفحہ اول