صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں


جادہ و منزل

ترجمہ معالم فی الطریق

مصنف: سید قطب شہید

مترجم: خلیل احمد حامدی

؂

ڈاؤن لوڈ کریں 

صرف   ورڈ فائل      

قرآن کی تیار کردہ لاثانی نسل

اسلام کے نام لیواؤں کو تاریخ اسلام کا ایک نمایاں پہلو خاص طور پر پیشِ نظر رکھنا چاہیے کیوں کہ یہ پہلو دعوت کے طریقِ کار اور رجحان پر نہایت گہرا اور فیصلہ کُن اثر ڈالتا دکھائی دیتا ہے۔ لہذا ضروری ہے کہ دعوتِ اسلامی کے علمبردار خواہ کسی ملک اور زمانے سے تعلق رکھتے ہوں اس پہلو پر زیادہ سے زیادہ غور کریں۔ یہ پہلو اس حقیقت کا ترجمان ہے کہ دعوتِ اسلامی نے ایک زمانے میں ایسی انسانی نسل تیار کی تھی جس کی مثال پوری اسلامی تاریخ، بلکہ پوری انسانی تاریخ میں نہیں ملتی۔ اس نسل سے مراد رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابۂ کرام ہیں۔ اس نسل کے بعد تاریخی ادوار میں دعوتِ اسلامی کے ہاتھوں اس طرز اور کردار کی جمعیت پھر وجود میں نہیں آئی۔ اگرچہ تاریخ کے ہر دور میں اس کردار کے افراد تو بلا شبہ پائے گئے ، مگر ایسا کبھی نہیں ہوا کہ ایک ہی خطے میں بڑی تعداد میں اس طرز اور کردار کے لوگ جمع ہو گئے ہوں۔ جس طرح اسلام کے اولین دور میں جمع ہوئے۔ یہ ایک ایسی بدیہی حقیقت ہے جس کا ثبوت تاریخ کے صفحات سے ملتا ہے اور اس کی تہ میں ایک خاص راز پنہاں ہے ، ہمیں اسی بدیہی حقیقت کا بنظرِ غائر مطالعہ کرنا چاہیے تاکہ اُس راز تک رسائی حاصل کر سکیں۔

صحابۂ کرام کے بعد ایسی لاثانی جمعیت کیوں وجود میں نہ آئی؟

اسلام کی دعوت و ہدایت جس کتاب میں موجود ہے وہ ہمارے ہاتھوں میں ہے۔ اس کتاب کو پیش کرنے والی ہستی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کی تعلیمات و احادیث اور سیرت پاک آج بھی اُسی طرح ہماری نگاہوں کے سامنے ہے جس طرح وہ اُس پہلی اسلامی جمعیت کی نگاہوں کے سامنے تھی جس کا تاریخ کے اسٹیج پر دوبارہ اعادہ نہ ہو سکا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اس وقت رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم بنفسِ نفیس اِس جمعیت کے قائد تھے ، اور اب یہ صورتِ حال نہیں ہے۔ لیکن کیا یہی فرق اسلام کی مثالی تنظیم کے دوبارہ وجود میں نہ آنے کا سبب ہے ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود مبارک اگر دعوتِ اسلامی کے قیام اور بار آور ہونے کے لیے حتمی اور ناگزیر ہوتا تو اللہ تعالیٰ نے اسلام کو ہر گز عالمگیر دعوت اور پوری انسانیت کے لیے دین نہ قرار دیا ہوتا، اور نہ اسے انسانیت کے لیے آخری پیغام کی حیثیت دی ہوتی، اور نہ روئے زمین پر بسنے والے تمام انسانوں کے معاملات و مسائل کی اصلاح کی ذمہ داری قیامت تک کے لیے اس کے سپرد کی ہوتی۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم کی حفاظت کا خود ذمہ لیا ہے۔ اس لیے کہ وہ علیم و خبیر جانتا ہے کہ اسلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی برپا ہو سکتا ہے ، اور اپنے ثمرات سے انسانیت کو بہرہ ور کر سکتا ہے۔ چنانچہ اس دعوت کو جب 23 سال گزر گئے ، اور وہ اپنے اوج کمال تک پہنچ گئی تو اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے جوارِ رحمت میں طلب فرما لیا اور آپ کے بعد اِس دین کو زمانۂ آخر تک کے لیے جاری و ساری کر دیا۔ پس رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود گرامی کا نگاہوں سے اوجھل ہو جانا معیاری اسلامی جمعیت کے فقدان کا باعث نہیں قرار دیا جا سکتا۔

اس کی پہلی وجہ

تو پھر ہمیں اس کا کوئی اور سبب تلاش کرنا چاہیے اس سلسلے میں ہمیں اس چشمۂ صافی پر بھی نگاہ ڈال لینی چاہیے جس سے پہلی اسلامی نسل نے اسلام کا فہم و شعور حاصل کیا۔ شاید اس کے اندر ہی کوئی تغیر واقع ہو چکا ہو! اُس طریقِ کار کا بھی جائزہ لے لینا چاہیے جس کے مطابق اس نے تربیت حاصل کی، ممکن ہے اُس میں تبدیلیوں نے راہ پالی ہو! جس چشمہ سے صحابۂ کرام کی عظیم المرتبت جماعت نے اسلام کا فہم حاصل کیا وہ صرف قرآن تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث اور تعلیمات اس چشمے سے پھوٹنے والے سوتے تھے۔ چنانچہ جب ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے یہ دریافت کیا گیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کیسے تھے ؟ تو آپ نے فرمایا: کان خلقہ القرآن (آپ کے اخلاق قرآن کا چلتا پھرتا نمونہ تھے )۔ الغرض قرآن حکیم ہی وہ واحد سرچشمہ تھا جس سے صحابۂ کرام سیراب ہوتے تھے ، یہی وہ سانچہ تھا جس میں وہ اپنی زندگیوں کو ڈھالتے تھے ، اسی سے وہ اکتساب فیض کرتے تھے۔ صرف قرآن پر اُن کا اکتفاء کر لینا اس وجہ سے نہ تھا کہ اس وقت دنیا میں کسی اور تہذیب و تمدن اور ثقافت کے آثار موجود نہ تھے ، علمی تحقیقات اور سائنسی کمالات کا وجود نہ تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ تمام مظاہر گوناگوں شکل میں موجود تھے۔ مثلاً رومی تہذیب موجود تھی، رومی علم و حکمت اور رومی قانون و نظام کا ڈنکا بج رہا تھا جو آج بھی یورپ کی تہذیب کی بنیاد ہے یا کم از کم موجودہ یورپ اُس کی ترقی یافتہ صورت ہے۔ یونانی تہذیب کا ترکہ بھی منطق و فلسفہ اور ادب و فن کے رنگ میں موجود تھا جو آج تک مغرب کے فکر و نظر کا مرجع ہے۔ عجمی تہذیب و تمدن، عجم کا آرٹ، اُس کی شاعری، اس کا روایتی ادب اور اس کے عقائد اور نظامہائے حکومت کا غلغلہ تھا۔ اور بھی کئی تہذیبیں جزیرۃ العرب کے قریب یا دور پائی جاتی تھیں، مثلاً ہندی تہذیب اور چینی تہذیب۔ رومی اور عجمی دونوں تہذیبوں کے دھارے جزیرۃ العرب کے ساتھ ساتھ شمال اور جنوب میں بہہ رہے تھے۔ مزید برآں یہودی اور مسیحی آبادیاں خود جزیرۃ العرب کے وسط میں موجود تھیں۔ لہذا ہم یہ محسوس کرتے ہیں کہ صحابۂ کرامؓ پہلی اسلامی نسل کا صرف کتاب الٰہی پر اکتفاء کرنا اور فہم دین کی خاطر کسی اور چشمہ سے رجوع نہ کرنا فکر و نظر کے جمود اور تہذیب و تمدن سے بیگانگی کا وجہ سے نہ تھا، بلکہ یہ ایک سوچے سمجھے منصوبے اور طے کردہ طریق کار کی بنا پر تھا۔ اس امر کی دلیل خود جناب رسالتمآب صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک عمل سے ملتی ہے۔ آنجناب صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں تورات کے چند اوراق دیکھے۔ آپ دیکھ کر ناراض ہوئے اور فرمایا "و انہ واللہ لو کان موسٰی حیابین اظھرکم ما حل لہ الا ان یتبعنی   (خدا کی قسم! اگر موسٰی بھی آج تمہارے اندر موجود ہوتے تو میری ہی اطاعت کرتے ۔

***


ڈاؤن لوڈ کریں 

صرف   ورڈ فائل      

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول