صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
جان، جگنو اور جزیرہ
ناصر ملک
شعری مجموعہ
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
غزل۔نظم
مجھ کو میرے شہر میں بدنام کرنے کے لیے
آگیا ہے میرا گھر نیلام کرنے کے لیے
اَب ضروری ہو گیا ہے میرا تجھ کو چھوڑنا
زندگی میں اور بھی ہیں کام کرنے کے لیے
اُٹھ گیا ہے میکدے سے آج بھی خانہ خراب
رات بھر میں دو گھڑی آرام کرنے کے لیے
کس قدر بے چین تھا وہ قربتوں کا ایک پل
زندگی کو میری تشنہ کام کرنے کے لیے
معذرت مَیں بے اِرادہ رُک گیا تھا اُس گھڑی
انتسابِ جان تیرے نام کرنے کے لیے
چشمِ جاناں بَرملا یہ کہہ گئی ہے دوستو!
پیار کی دولت نہیں ہے عام کرنے کے لیے
آنکھ دُھندلی ہو گئی تھی ، ہونٹ پتھر ہو گئے
نقشِ دل کو راستوں پہ گام کرنے کے لیے
ایک سورج آ گیا تھا آئینے کے رُو بہ رُو
زلف کو کھلنا پڑا تھا شام کرنے کے لیے
آج ناصر چھڑ گیا ہے ماجرائے دِل رُبا
چاندنی میں اہتمامِ جام کرنے کے لیے
٭٭٭
٭٭٭
نصیب
ہجرت میں ریاضت کی تھکن میرے لیے تھی
ریت میری تھی مگر رنگِ صدف اُس کے لیے تھا
اے نوکِ سناں ! تیز چبھن میرے لیے تھی
دِل مِرا آج مگر تیرا ہدف اُس کے لیے تھا
جس شخص کے ماتھے پہ شکن میرے لیے تھی
میں آج تلک تیشہ بہ کف اُس کے لیے تھا
٭٭٭
٭٭