صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں
مجھے اذن جنوں دے دو
شازیہ اکبر
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
غزلیں
اب تیرے انتظار کی عادت نہیں رہی
پہلے کی طرح گویا محبت نہیں رہی
ذوقِ نظر ہمارا بڑھا ہے کُچھ اس طرح
تیرے جمال پر بھی قناعت ہیں رہی
فرقت میں اُس کی روز ہی ہوتی تھی اِک غزل
اب شاعری ذریعۂ راحت نہیں رہی
دنیا نے تیرے غم سے بھی بیگانہ کر دیا
اب دل میں تیرے وصل کی چاہت نہیں رہی
کچھ ہم بھی تھک گئے ترے دَر پر کھڑے کھڑے
تُم میں بھی پہلے جیسی سخاوت نہیں رہی
تکتے ہیں روز ایک ہی صورت الم کی ہم
یا رب! ترے جہاں میں بھی جدت نہیں رہی
٭٭٭
کہاں سے چلے تھے کہاں آ گئے ہیں
یہ وحشت کے رستے ہمیں بھا گئے ہیں
ہمیں زندگی سے نہیں خوف کوئی
ہمیں زیست کے حوصلے آ گئے ہیں
روانہ ہوئے کشتیوں میں مسافر
ہمیں اِک جزیرے میں بھٹکا گئے ہیں
یہ تقصیرِ آدم نہیں اور کیا ہے
کہ جنت سے اُٹھ کر یہاں آ گئے ہیں
ہر اِک اپنا اپنا صنم پوجتا ہے
خدائی میں کتنے خدا آ گئے ہیں
محبت ہو حاصل تو لگتا ہے ایسا
کہ مٹھی میں دونوں جہاں آ گئے ہیں
٭٭٭
٭٭