صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
استبداد
فیض الابرار صدیقی
جمع و ترتیب: اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
استبداد۔۔۔ عمومی
اسلام
نے اپنے متبعین کو ایک مکمل نظام حیات دیا ہے انہی شعبہ جات میں سے ایک
اہم شعبہ سیاست بھی ہے جس میں معاشرے کے معاملات کو مرتب اور منظم انداز
میں وضع کیا جاتا ہے۔ لہٰذا اسلام نے جو اصول و ضوابط اپنے ماننے
والوں کو اس ضمن میں عطا کئے ہیں ان کی مدد سے جو زندگی کے تمام شعبہ جات
پر محیط ہے۔
معاشرے کے سیاسی معاملات کو احسن انداز میں
چلانا کہ عوام اپنے بنیادی حقوق سے محروم نہ ہوں اور انہیں اپنے فرائض کا
کما حقہ شعور اور ادراک ہو تاکہ کسی بھی ممکنہ فساد سے بچا جا سکے۔
اسلام
کے سیاسی نظام کے تین اساسی پہلو حکمران، عوام اور نظام ہیں۔ ان میں
سے ہر ایک کی حدود و اصول کا تعین کر دیا گیا ہے۔ لہٰذا جب بھی کوئی ان
متعین کردہ اصول و حدود سے تجاوز کرتا ہے تو پھر اس کا ممکنہ نتیجہ فساد
فی الارض کی صورت میں سامنے آتا ہے جس سے معاشرے کا حسن مسخ ہو جاتا
ہے۔ اور معاشرے کے باسی اپنے فرائض کی ادائے گی سے غافل ہو جاتے ہیں
اور پھر حقوق کے حصول کی غیر فطری جنگ شروع ہو جاتی ہے، نفسا نفسی
کے اس عالم میں پھر اس معاشرے کا مقدور صرف تباہی و بربادی ہوتا ہے خواہ
وہ کسی بھی انداز کی ہو۔
کسی بھی معاشرے میں مسائل کا وجود غیر
منطقی نہیں ہوتا بلکہ ان مسائل پر منفی ردِ عمل غیر فطری ہوتا ہے۔
اگر یہ مثلث اپنے افعال و اعمال میں ’’ عدل و توازن‘‘ کو مد نظر رکھتے
ہوئے کسی بھی معاشرے میں ایسے غیر معمولی مسائل جنم ہی نہیں لیتے جن کے حل
کے لئے اقدامات کا فیصلہ کرنا پڑتا ہے جس سے معاشرے میں انتشار پھیلے۔
معاشرے
میں موجود انہی غیر فطری اور غیر منطقی رویوں میں سے ایک رویہ جس کا تعلق
سیاست سے ہے اسے ہم استبدداد کے نام سے جانتے ہیں۔ جو فطری اندازِ
سیاست سے متضاد و مخالف اور منفی طرزِ عمل کا نام ہے۔ لہٰذا سیاست
اگر معاملات کو عقل و دانائی کے ساتھ بغرض فلاح عوام چلانے کا نام ہے تو
استبدداد معاملات کو ذاتی حرص اور خود غرضی کے ساتھ چلانے کا نام ہے۔
لہٰذا استبدداد کے عمومی معنیٰ ہوں گے :
’’فردِ واحد یا چند افراد معاملات کو کسی بھی قسم کی جواب دہی کے خوف سے بے پرواہ ہو کر انجام دیں ‘‘
٭٭٭