صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں


اسلامیات

ڈاکٹر شرف الدین ساحلؔ

(دینی مضامین)

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                         ٹیکسٹ فائل

منصبِ نبوت

اللہ تعالیٰ کے اپنے بندوں پر اس قدر احسانات ہیں کہ ان کااندازہ لگاناممکن نہیں ہے۔ وہ رات کے اندھیرے کودن کے اجالے سے اور دن کے اجالے کورات کے اندھیرے سے بڑی تیزی سے ڈھانپتاہے۔ یہ دونوں ایک دوسرے کابرق رفتاری سے پیچھا کرتے ہیں ۔ ان دونوں کے بیچ ایک سکنڈ کاوقفہ تک نہیں ہوتا۔ یہی وہ گردشِ لیل ونہار ہے جس میں سانس لے کرانسان اپنی زندگی کی ضرورتیں اللہ تعالیٰ کے پر نعمت خزانے سے چیزیں حاصل کرکے پوری کر رہاہے۔

ان فی خلق السمٰوت والارض واختلاف اللیل والنھار لایات لاولی الاباب۔ الذین یذکرون اللہ قیامآوقعوداًوعلی جنوبھم ویتفکرون فی خلق السمٰوات ولارض۔ ربنا ماخلقت ھذاباطلاً(اٰل عمران:۱۹۰۔۱۹۱)

بلاشبہ آسمان و زمین کی خلقت میں اور رات دن کے ایک کے بعد ایک آتے رہنے میں اربابِ دانش کے لیے (معرفت حق کی) بڑی ہی نشانیاں ہیں ۔ وہ اربابِ دانش جو کسی حال میں بھی اللہ کی یاد سے غافل نہیں ہوتے۔ کھڑے ہوں ، بیٹھے ہوں ، لیٹے ہوں (لیکن ہرحال میں اللہ کی یادان کے اندربسی ہوتی ہے) جن کاشیوہ یہ ہوتا ہے کہ آسمان وزمین کی خلقت میں غوروفکر کرتے ہیں (اس ذکروفکر کانتیجہ یہ نکلتاہے کہ ان پر معرفتِ حقیقت کا دروازہ کھل جاتاہے۔ وہ پکاراٹھتے ہیں ) خدایایہ سب کچھ جو تو نے پیداکیا ہے سوبلاشبہ بے کاروعبث پیدانہیں کیا( ضروری ہے کہ یہ کارخانۂ ہستی جواس حکمت وخوبی کے ساتھ بنایاگیاہے کوئی نہ کوئی مقصد وغایت رکھتاہو)۔ یقینا تیری ذات اس سے پاک ہے کہ ایک بے کارکام اس سے صادرہو۔

 یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ جس طرح اپنی رحمت وشفقت وقدرت سے تاریکی کو روشنی سے، ظلمت کو نورسے اورخزاں کوبہار سے بدلتا ہے۔ ویران زمین کواوپرسے بارش بھیج کرسرسبزوشاداب بنایاہے تاکہ اس کابندہ اپنی زندگی کاسامان فراہم کر سکے۔ بالکل اسی طرح جب ظلم وستم، کفروضلالت اور عدوان وسرکشی کی تاریکی دنیاپر چھاجاتی ہے تووہ اپنے بندوں کوکفروضلالت اور جہل وگمراہی کے اندھیروں سے نکالنے کے لیے ایمان وعرفان کے آفتاب کوظاہر کرکے ہرطرف روشنی پھیلاتاہے اوربارانِ رحمت نازل کرکے اپنے بندوں کے دلوں کی پژمردہ کھیتیوں کوسیراب کرتاہے۔ یہ بھی اس کااپنے بندوں پرایک زبردست احسان ہے۔ چنانچہ وہ خودیہ دعویٰ کرتاہے:

ھوالذی ینزل علیٰ عبدہٖ اٰیٰت بینٰت یخرکم من الظلمت الی النور وان اللہ بکم لرؤف الرحیم(الحدید۔۹)

وہی اللہ ہے جواپنے بندے (رسول) پرواضح آیتیں اتارتاہے تاکہ تم کوتاریکیوں سے روشنی کی طرف لے آئے اور بے شک اللہ تم پر شفقت کرنے والااور مہربان ہے۔

وہیں یہ بھی ارشاد ہوتاہے کہ دنیامیں عدل وتوازن قائم رکھنے کے لیے ہم نے رسولوں کوبھیجا:

لقد ارسلنا رسلنا بالبینات وانزلنا معھم الکتاب والمیزان لیقوم الناس بالقسط۔(حدید۔۲۵)

ہم نے اپنے رسولوں کونشانیوں کے ساتھ بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان کواتاراتاکہ لوگ عدل وانصاف پر قائم ہوں ۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہردور کی ضرورت کے پیش نظر اپنی حکمت کے موافق نبیوں کومعبوث فرمایا۔ یہی وہ مقدس وبرگزیدہ ہستیاں ہیں جن کے ربانی نورسے دنیامنور ہوئی۔ کفروضلالت کی تاریکیاں مٹیں ، ایمان ویقین کی روشنی پھیلی اور وحی الٰہی کی اس عالمِ آب وگِل میں مسلسل بارش ہوئی۔ قرآن شاہد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دنیاکی کسی قوم کو اس احسان ونعمت سے محروم نہیں رکھا۔ وہ کہتاہے کہ ولکل قوم ھاد(الرعد۔۷)اورہرقوم کے لیے ایک راہ دکھانے والاہے۔ ۔ ۔ دوسری جگہ ارشاد ہوتاہے:

ولکل امۃٍ رسول فاذا جاء رسولھم قضی بینھم بالقسط وھولایظلموں ۔(یونس۔۴۷)

اورہر امت کے لئے ایک رسول ہے(جوان میں پیداہوتاہے اور انھیں دین حق کی طرف بلاتاہے)۔پھرجب کسی امت میں اس کا رسول ظاہر ہوگیاتو(ہماراقانون یہ ہے کہ) ان کے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ کر دیا جاتاہے اورایسانہیں ہوتاکہ ان کے ساتھ ناانصافی ہو۔

قرآن کاصاف صاف لفظوں میں یہ بھی دعویٰ ہے کہ :

ولقد بعثنا فی کل امۃٍ رسولا ان عبدواللہ واجتنبو الطاغوت فمنھم من ھدی اللہ و منھم من حقت علیہ الضلالہ فسیروفی الارض فانظرواکیف کان عاقبۃ المکذبین۔(النحل ۔۳۶)

اوریہ واقعہ ہے کہ ہم نے(دنیاکی)ہرامت میں کوئی نہ کوئی رسول ضرور پیداکیا(تاکہ اس پیغام حق کااعلان کر دے) کہ اللہ کی بندگی کرواور سرکش قوتوں سے بچو۔ پھر ان امتوں میں سے بعض ایسی تھیں جن پراللہ نے (کامیابی کی) راہ کھول دی۔ بعض ایسی تھیں جن پر گمراہی ثابت ہوگی۔ پس ملکوں کی سیرکرواور دیکھو جوقومیں (سچائی کی) جھٹلانے والی تھیں انھیں بالآخر کیاانجام پیش آیا۔

دوسری جگہ یوں فرمایا:

اناارسلنک بالحق بشیراَ ونذیرا وان من امۃ الاخلافیھا نذیر(فاطر۔۲۴)

ہم نے تم کو حق کے ساتھ بھیجاہے۔ خوش خبری دینے والااور ڈرانے والابناکر۔ اور کوئی امت ایسی نہیں جس میں ڈرانے والانہ آیاہو۔

اتناہی نہیں بلکہ اس نے جس قوم میں بھی اپنارسول بھیجا وہ اسی قوم کی بولی بولنے والااوراسی معاشرے کامنتخب ایک پسندیدہ فرد تھا۔ تاکہ وہ اس کے احکامات اور پیغامات کو انھیں آسانی سے سمجھاسکے۔

وماارسلنامن رسول الابلسان قومہ لیبین لھم(ابراہیم۔۴)

اورہم نے کوئی پیغمبر دنیامیں نہیں بھیجامگراس طرح کہ اپنی قوم ہی کی زبان میں پیام حق پہنچانے والاتھا تاکہ لوگوں پر مطلب واضح کر دے۔

گویااللہ تعالیٰ نے کسی بھی قوم وملت اور کوئی بھی زبان بولنے والوں کوہدایت سے محروم نہیں رکھا۔ اس نے کفروضلالت کی تاریکی سے اپنے بندوں کونکال کر ایمان وعرفان کی دولت سے سرفراز کرنے کایہ اہتمام وانتظام حضرت آدم علیہ السلام سے پیغمبر آخرالزماں حضرت محمد مصطفی ﷺ تک موقع ومحل کے لحاظ سے کیا۔ یہ اس کا اپنے بندوں پرعظیم احسان ہے۔

لیکن نبوت کایہ منصب معمولی نہیں ہے بلکہ غیرمعمولی ہے۔ حضرت امام غزالیؒ کے قول کے مطابق:’’نبوت، انسانیت کے رتبہ سے بالاتر ہے، جس طرح انسانیت حیوانیت سے بالاتر ہے۔ یہ عطیۂ الٰہی اور موہبتِ ربانی ہے۔ یہ سعی ومحنت اور کسب وتلاش سے نہیں ملتی‘‘۔ ۔ ۔  یہ اللہ تعالیٰ کافضل ہے، اللہ تعالیٰ جس کوچاہتاہے عطاکرتاہے:

ھوالذی بعث فی الامین رسولاًمنھم یتلوعلیھم ایٰتہ ویزکیھم ویعلمھم الکتاب والحکمہ وان کانو من قبل لفی ضلال مبیں ۔واخرین منھم لمایلحقوبھم وھوالعزیز الحکیم۔ذالک فضل اللہ یوتیۃ من یشا واللہ ذوالفضل العظیم۔(الجمعہ:۲۔۳)

وہی اللہ ہے جس نے امیوں کے اندرایک رسول انھیں میں سے اٹھایا۔ وہ ان کو اس کی آیتیں پڑھ کرسناتاہے اوران کو پاک کرتاہے اور ان کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتاہے اوروہ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے اوردوسروں کے لیے بھی ان میں سے جوابھی ان میں شامل نہیں ہوئے اور وہ زبردست ہے، حکمت والاہے۔ یہ اللہ کا فضل ہے۔ وہ دیتاہے جس کو چاہتاہے اوراللہ بڑے فضل والاہے۔

قرآن باربار یہ اعلان کرتاہے کہ اللہ جس کو منتخب کرکے پسند کرتاہے اسی کونبوت سے سرفراز کرتاہے ۔چنانچہ ایک جگہ عام پیغمبروں کے متعلق ارشاد ہوتاہے کہ:

اللہ یصطفی من الملئکۃ رسلاً ومن الناس ان اللہ سمیع بصیر۔(حج:۷۵)

اللہ نے فرشتوں میں سے بعض کوپیام رسانی کے لیے برگزیدہ کر لیا، اسی طرح بعض انسانوں کوبھی (لیکن اس برگزیدگی سے انھیں معبود ہونے کادرجہ نہیں مل گیاجیساگم راہوں نے سمجھ رکھاہے) بلاشبہ اللہ ہی سننے والا، دیکھنے والا ہے۔

اس پسندوانتخاب کے متعلق مولاناابوالکلام آزاد نے اپنے ایک مضمون فلسفۂ احتساب میں بہت ہی وقیع وجامع بات کہی ہے۔ وہ لکھتے ہیں :

جس طرح دھندلی روشنی کوہرآنکھ نہیں دیکھ سکتی اسی طرح آفتاب کے قرص پربھی ہرنگاہ نہیں ٹھہر سکتی۔ جب علما کی قوتِ احتساب بے اثر ہوجاتی ہے توفطرتِ محتسبہ تمام دنیاکااحتساب براہِراست نہیں کر سکتی۔ اس وقت خدااپنے ایک کامل بندے کو چن لیتاہے جونورِالٰہی کو جذب کر سکتاہے۔ جس کی بصیرت میں آفتابِ الٰہی کے دیکھنے اور اکتسابِ نورانیت کی طاقتِ کامل موجودہوتی ہے اوروہ دوسروں کے اندر بھی اس روشنی کی کرنوں کونافذانہ پہنچا سکتاہے۔ یہی درجہ مقامِ اعظمِ نبوت ہے۔(مضامین البلاغ مرتبہ محمودالحسن صدیقی، ناشر ہندوستانی پبلشنگ ہاؤس دہلی، ۱۹۴۴ء، ص:۶۳)

پھریہ بھی ایک ٹھوس سچائی ہے کہ منصب نبوت پرسرفراز کرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ اپنے ان پسندیدہ اور منتخب بندوں کی حفاظت و نگہبانی کرتا ہے۔ اس کوقرآن مجید میں موجود حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت اسمٰعیل علیہ السلام، حضرت اسحق علیہ السلام، حضرت یوسف علیہ السلام، حضرت موسیٰ علیہ السلام، حضرت یحییٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے واقعات وحالات میں دیکھاجاسکتاہے۔ نبی کریم ﷺ کے قبلِ نبوت کے حالات بھی اس حقیقت کی تصدیق کرتے ہیں ۔ قرآن مجید کی سورہ والضحیٰ اس کا بین ثبوت پیش کرتی ہے۔اس سلسلے میں حضرت مولاناسید سلیمان ندوی لکھتے ہیں :

’’انبیائے کرام علیہم السلام کی سیرتوں پرغورکرنے سے معلوم ہوتاہے کہ وہ جب سے عرصۂ وجودمیں قدم رکھتے ہیں ، اسی زمانے سے آنے والے وقت اور ملنے والے منصب کے آثار ان سے ظاہر ہونے لگتے ہیں ۔ وہ حسب ونسب اور سیرت وصورت میں ممتاز ہوتے ہیں ۔ شرک و کفر کے ماحول میں ہونے کے باوجود اس کی گندگی سے بچائے جاتے ہیں ۔ اخلاقِ حسنہ سے آراستہ ہوتے ہیں ۔ ان کی دیانت، امانت، سچائی اورراست گفتاری مسلم ہوتی ہے اور یہ تمہیدیں اس لیے ہوتی ہیں تاکہ منصب ملنے کے بعد ان کے دعوائے نبوت کی تصدیق اور لوگوں کے میلانِ خاطر کا سامان پہلے ہی سے موجودرہے۔‘‘(سیرۃ النبی، جلدچہارم تالیف سیدسلیمان ندوی، مطبوعہ مطبع معارف اعظم گڑھ، ۱۹۷۴ء، ص:۵۱،۵۲)

منصبِ نبوت سے سرفراز کرنے کے بعدبھی اللہ تعالیٰ ان کی حفاظت ونگہبانی کرتاہے۔ انھیں برگزیدہ بناتاہے اور سیدھی راہ چلاتاہے:

واجتبینھم وھد ینھم الیٰ صراط مستقیم۔(الانعام:۸۷)

ہم نے ان کو برگزیدہ کیااور (فلاح وسعادت کی)سیدھی راہ چلایا۔

انبیائے کرام علیہم السلام، اللہ تعالیٰ کے محبوب بندے ہوتے ہیں اور وہ اس کی حفاظت ونگہبانی میں رہتے ہیں اس لیے گناہوں سے معصوم، ضلالت وگمراہی سے پاک، ہوائے نفسانی سے مبّرا، بے انتہا نیک اور صالح ہوتے ہیں (کل من الصالحین۔ الانعام: ۸۵) انھیں دنیا کے تمام لوگوں پرفضیلت حاصل ہوتی ہے۔(وکلا فضلنا علی العالمین۔الانعام:۸۶)۔ ان کے علم و ہدایت کاسرچشمہ عالم ملکوت سے ہوتاہے۔ وہ ان بے شمار علوم وکمالات کوشکرگزاری اور قدرشناسی کے ساتھ قبول کرتے ہیں ۔جن کا افاضہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ انھی حکمت کی نعمت سے بھی سرفراز فرماتاہے اور شرح صدر کی دولت سے بھی مالامال کرتاہے۔انھیں عقل وتعقل کی ایسی زبردست قوت دیتاہے جو عام انسانوں میں نہیں ہوتی۔ ان سب کے باوجود وہ اپنے اندر اختیار مستقل نہیں رکھتے اور نہ ہی علم محیط۔ اللہ تعالیٰ کے علم کے خزانے سے انھیں جوکچھ ملتاہے وہ اسی پر اکتفا کرتے ہیں ۔ وہ ان باتوں کے پیچھے نہیں پڑا کرتے جس سے اللہ تعالیٰ نے انھیں اپنی مصلحت کی بناپر روک لیا ہو۔نہ ہی یہ ان کے اختیار میں ہے کہ جوچاہیں کوشش کرکے معلوم کر لیاکریں :

وماکان اللہ لیطلعکم علی الغیب ولکن اللہ یجتبی من رسلہٖ من یشاء۔(آل عمران:۱۷۹)

مگراللہ کایہ طریقہ نہیں ہے کہ تم کوغیب پرمطلع کر دے۔ غیب کی باتوں کی اطلاع دینے کے لیے تووہ اپنے رسولوں میں سے جس کو چاہتا ہے منتخب کر لیتاہے۔

 انبیا علیہم السلام اپنی طرف سے کچھ نہیں کہتے۔ نہ ہی خواہشِ نفس سے کلام کرتے ہیں بلکہ اپنے ہرامر میں اللہ تعالیٰ کے مطیع وفرماں بردار ہوتے ہیں ۔ اسی کے حکم کی پیروی کرتے ہیں اور اسی کے حکم سے لوگوں کو راہ ہدایت دکھاتے ہیں :

ماینطق عن الھویٰ ۔ان ھوالاوحی یوحی (النجم:۳،۴)

بنی خواہشِ نفس سے کلام نہیں کرتے بلکہ وہ وحی ہوتی ہے جوان کو کی جاتی ہے۔

ایک جگہ فرمایا:

وجعلنھم ائمۃ بھدون بامرنا(انبیا:۷۳)

اورہم نے ان پیغمبروں کوایسا رہنمابنایاہے جو ہمارے حکم سے راہ دکھاتے ہیں ۔

دوسری جگہ ارشاد ہوتاہے:

وماارسلنامن رسول الالیطاع باذن اللہ(نساء:۶۴)

ہم نے کوئی نبی نہیں بھیجا لیکن اس لیے کہ اللہ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے۔

ایک جگہ نبی کریم ﷺکومخاطب کرکے فرمایا:

یایھا النبی اتق اللہ ولاتطیع الکافرین المٰنفقین ان اللہ کان علیمآ حکیما۔ واتبع مایوحیٰ الیک من ربک ان اللہ کان بما تعملون خبیرا وتوکل علی اللہ وکفی باللہ وکیلا۔(الاحزاب:۱،۲،۳)

اے نبی اللہ سے ڈرو اورکافروں اورمنافقوں کی اطاعت نہ کرو۔ بے شک اللہ جاننے والا، حکمت والاہے۔ اور پیروی کرواس چیز کی جو تمہارے رب کی طرف سے تم پر وحی کی جارہی ہے۔ بے شک اللہ باخبر ہے اس سے جوتم لوگ کرتے ہوا ور اللہ پر بھروسہ رکھو اور اللہ کارساز ہونے کے لیے کافی ہے۔

انبیاعلیہم السلام کی آمد کامقصد اوران کی بعثت کی سب سے پہلی غرض روزالست کے بھولے ہوئے ازلی عہدوپیماں کی یاددہانی ہے یہی وجہ ہے کہ ان کی تعلیم کابنیادی اصول اور سب سے ضروری جزتوحید اوران کی دعوت کااصلی وحقیقی محوراللہ تعالیٰ کی عبادت وبندگی کا اعلان رہاہے۔ وہ لوگوں کواپنا پرستاریابندہ نہیں بناتے۔ بلکہ خدا کاپرستار و بندہ بناتے ہیں ۔ قرآن کہتاہے:

ماکان لبشر ان یوتیہ اللہ الکتٰب والحکم والنبوۃ ثم یقول للناس کونوعبادالی من دون اللہ ولکن کونوا ر بنّٰین۔(آل عمران:۷۹)

کسی انسان کویہ بات سزاوارنہیں کہ اللہ اسے (انسان کی ہدایت کے لیے) کتاب اور حکم ونبوت عطافرمائے اور پھر اس کا شیوہ یہ ہوکہ لوگوں سے کہے:خداکو چھوڑکرمیرے بندے بن جاؤ(یعنی خداکے احکام کی جگہ میرے حکموں کی اطاعت کرو) بلکہ یہی کہے گاکہ تم ربانی بنو۔

قرآن کہتاہے کہ انبیا علیہم السلام اللہ تعالیٰ کے پیغامات و احکامات کولوگوں تک پہنچاتے ہیں اوراپنے فرض منصبی کو پوراکرنے میں ہمیشہ خدا سے ڈرتے رہتے ہیں :

الذین یبلغون رسٰلتِ اللہ ویخشونہ ولایخشون احداالااللہ۔(احزاب:۳۹)

انبیا اللہ کے پیغاموں کوپہنچاتے ہیں اور اس سے ڈرتے ہیں اوراللہ کے سواکسی سے نہیں ڈرتے۔

چوں کہ انبیا علیہم السلام اللہ تعالیٰ کے حکم کے پابندہوتے ہیں نیز امورنبوت اوراموردین میں ان کی کوئی رائے غلط نہیں ہوتی اس لیے صاف لفظوں میں کہہ دیاگیاکہ ہر شخص کوچاہئے کہ بغیرکسی بحث ومباحثے کے ان کے احکام کوتسلیم کرے۔ اس سلسلے میں چون وچرا کی کوئی گنجائش نہیں ہے:

مااتاکم الرسول فخذوہ ومانھاکم عنہ فانتھو۔(حشر:۷)

رسول جوکچھ تم کودے اس کو لے لواور جس چیزسے منع کرے اس سے رک جاؤ۔

یہی حقائق منصب نبوت کاتعین کرتے ہیں ۔ اس منصب پرفائز ہوکر انبیاعلیہم السلام اپنے قدسی نفوس اور ایمانی قوت سے امربالمعروف  ولٰہی عن المنکر کافریضہ انجام دیتے ہیں ۔ باطل طاقتوں کے خلاف تنہااعلان حق کرتے ہیں ۔ کفروشرک کے مضبوط قلعہ پریلغار کرتے ہیں ۔ بے ہودہ رسم ورواج اور اوہام وخرافات کے طلسم کوتوڑتے ہیں ۔ظالم حکمرانوں کی غلامی سے مظلو م انسانوں کوچھڑاتے ہیں ۔ پژمردہ دلوں میں ایمان ویقین کی روح پھونکتے ہیں ۔ لوگوں کوامن وسکون کی دولت عطا کرتے ہیں ۔ انھیں اخلاق حسنہ سے آراستہ کرتے ہیں ۔ معبودان باطل سے نجات دلاکر ایک اللہ کی عبادت وبندگی کاطوق ان کی گردن میں ڈالتے ہیں اور ان تمام روحانی بیماریوں کا علاج کرتے ہیں جن میں مبتلا ہوکرانساں خدائے وحدئہ لاشریک کوفراموش کر دیتاہے۔ ان کاچشمہ فیض عام ہوتاہے۔ ان کادریائے خیرو برکت سب کے لیے رواں ہوتاہے لیکن اس سے استفادہ کرناحسنِ استعداد پرموقوف ہے۔ جولوگ استفادہ نہیں کرپاتے انھیں اپنی سوئے استعداد پرماتم کرناچاہئے۔ خون کے آنسو بہاناچاہئے۔ لیکن جو لوگ ان کی تعلیمات سے منتفع ہوتے ہیں دنیا وآخرت کی سعادت و نعمت ان کے قدم چومتی ہے۔ ان اہلِ ایمان کواپنی جان سے زیادہ ان مقدس اورمطہر ہستیوں سے لگاؤ ہوتاہے۔ قرآن مجید اس کی شہادت ان الفاظ میں دے رہاہے:

النبی اولیٰ بالمومنین من انفسھم (الاحزاب:۶)

ایمان والوں کواپنی جان سے زیادہ بنی سے لگاؤہے۔

حضرت مولانا شبیر احمدعثمانی نے اس آیت کی جوتفسیر لکھی ہے وہ بڑی جامع اور معنی خیز ہے۔ وہ منصب نبوت اور حقیقت نبوت کو بہت ہی خوبی اورصفائی کے ساتھ نمایاں کرتی ہے۔ موصوف لکھتے ہیں :

مومن کاایمان اگرغور سے دیکھاجائے توایک شعاع ہے اس نوراعظم کی جوآفتاب نبوت سے پھیلتاہے۔ آفتاب نبوت پیغمبر علیہ الصلوٰۃ و السلام ہوئے۔ بنابریں مومن(من حیث ہومومن) اگراپنی حقیقت سمجھنے کے لیے حرکت فکری شروع کرے تواپنی ایمانی ہستی سے پیشتر اس کو پیغمبر علیہ السلام کی معرفت حاصل کرنی پڑے گی۔ اس اعتبارسے کہہ سکتے ہیں کہ نبی کاوجود مسعود خود ہماری ہستی سے بھی زیادہ ہم سے نزدیک ہے اوراگراس روحانی تعلق کی بناپر کہہ دیا جائے کہ مومنین کے حق میں نبی بمنزلہ باپ بلکہ اس سے بھی بمراتب بڑھ کر ہے تو بالکل بجا ہوگا۔ چنانچہ سنن ابی داؤد میں انما انالکم بمنزلۃ الوالد۔اور ابی بن کعب وغیرہ کی قرأت میں آیت ہذا:النبی اولیٰ بالمومنین۔الخ کے ساتھ وھواب لھم کاجملہ اس حقیقت کوظاہر کرتاہے۔

باپ بیٹے کے تعلق میں غورکروتواس کاحاصل یہ ہی نکلتاہے کہ بیٹے کا جسمانی وجود باپ کے جسم سے نکلا ہے اور باپ کی تربیت وشفقت طبعی اوروں سے بڑھ کر ہے۔ لیکن نبی اور امتی کاتعلق کیا اس سے کم ہے؟یقینا امتی کاایمانی وروحانی وجود نبی کے روحانیت کبریٰ کاایک پر تو اور ظل ہوتاہے۔ جوشفقت وتربیت نبی کی طرف سے ظہور پذیرہوتی ہے، ماں باپ توکیاتمام مخلوق میں اس کا نمونہ نہیں مل سکتا۔ ماں باپ کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے ہم کودنیاکی عارضی حیات عطافرمائی تھی۔ لیکن نبی کے طفیل ابدی اور دائمی حیات ملتی ہے۔ نبی کریم ﷺ ہماری وہ ہمدردی وخیر خواہی، شفقت وتربیت فرماتے ہیں جوخود ہمارانفس بھی اپنی نہیں کر سکتا۔ (قرآن مجید مترجم ومحشی مطبوعہ مدینہ پریس، بجنور، ص:۵۴۲)

ان تفصیلات سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا فضل وکرم اوراس کااحسان ہے کہ اس نے ہماری مادی ترقی واصلاح کی طرح ہماری روحانی ترقی واصلاح کابھی اہتمام وانتظام کیا۔ اگر انبیائے کرام علیہم السلام دنیامیں تشریف نہ لاتے تو یہ دنیا ایک ظلمت کدئہ ہلاکت بن جاتی ۔


***

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                         ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول