صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں
آئیے ! اپنا اِسلام سیکھیں
(بچوں کے لئے)
مصنف: ہارون یحییٰ
مترجم: پروفیسر خواجہ محمد اخلاق
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
اللہ تعالیٰ نے ہم سب کو پیدا کیا
پیارے بچو! آپ نے لوگوں سے اللہ تعالیٰ کے بارے میں مختلف الفاظ سنے ہوں گے ۔ عام طور پر آپ نے اس قسم کے الفاظ اور فقرے تو ضرور سنے ہوں گے جیسے ’’اللہ آپ پر رحم کرے۔’‘ ’’اگر اللہ نے چاہا تو’‘ ،’’ان شاء اللہ، ‘‘’’ما شاء اللہ، ، اور’’ اللہ معاف کرے، ، وغیرہ۔
یہ وہ چند الفاظ یا فقرے ہیں جو ایک شخص اس وقت استعمال کرتا ہے جب وہ اللہ تعالیٰ کو یاد کرتا ہے ، یا دعا کرتا ہے یا اپنے رب کی شان بیان کرتا ہے ۔
مثال کے طور پر جب یہ بولتے ہیں کہ ’’فی امان اللہ’‘ تو اس وقت ہم اس حقیقت کو بیان کر رہے ہوتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو آپ پر اور آپ کے ارد گرد جانداروں اور بے جان اشیاء سب پر قدرت حاصل ہے ۔ یہ اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ہے جو کہ آپ کو، آپ کے والد،والدہ اور آپ کے دوستوں کو بُری چیزوں سے بچاتی ہے۔ اسی وجہ سے جب ہم کسی ناگہانی آفت یا نامساعد حالات کا سامنا کرتے ہیں تو ایک دوسرے کو دعا دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو بچائے، اللہ تعالیٰ آپ کو اپنی حفظ و امان میں رکھے۔ تھوڑی دیر کے لئے سوچیے کہ اگر کوئی ناگہانی آفت یا قدرتی آفت آ جائے جیسے سیلاب یا زلزلہ تو اس صورت میں کیا آپ کی والدہ، والد یا کوئی اور شخص جسے آپ جانتے ہیں ،کیا آپ کو بچا سکتا ہے؟ ہر گز نہیں کیونکہ انسان کے ساتھ رونما ہونے والے واقعات صرف اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہوتے ہیں اور صرف وہی ذات ان سے بچا سکتی ہے۔
لفظ ’’ان شاء اللہ’‘ کا مطلب ہے اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا تو، لہٰذا جب بھی ہم کوئی کام کرنا چاہتے ہیں یا کسی کام سے باز رہنا چاہتے ہیں تو ہمارے لئے ضروری ہے کہ اس وقت ہم ’’ان شاء اللہ’‘ ضرور کہیں ۔یہ اس لیے ضروری ہے کہ صرف اللہ تعالیٰ ہی کو مستقبل کا علم ہے، وہ جو چاہتا ہے ، کرتا ہے، اس کی مرضی کے بغیر کچھ بھی نہیں ہو سکتا۔
مثال کے طور
پر جب ہمارا ایک دوست یہ کہتا ہے کہ ’’میں کل یقیناً سکول جاؤں گا’‘ تو وہ
غلطی کر رہا ہے کیونکہ ہم یہ نہیں جانتے کہ کل کیا ہو گا اور یہ بھی نہیں
جانتے کہ اللہ تعالیٰ آپ کے دوست کے لئے کل کیا چاہے گا ؟ہو سکتا ہے کہ آپ
کا دوست بیمار ہو جائے اور سکول نہ جا سکے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ نہایت
ناخوشگوار موسم کی وجہ سے سکول نہ کھل سکے اور آپ کی کلاس نہ ہو سکے۔
اسی لئے ہم ’’ان شاء اللہ’‘ کہتے ہیں جبکہ ہم مستقبل کے بارے میں اپنے ارادوں کو ظاہر کرتے ہیں اور اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر شے کی خبر رکھتا ہے۔
اور یہ بھی کہ جو بھی واقعہ رونما ہوتا ہے، صرف اُسی کی مرضی سے ہوتا ہے اور ہم اپنے محدود علم کے باہر کچھ بھی خبر نہیں رکھتے۔ اس طریقے سے ہم اپنے رب کے رُتبے اور مرتبے کی قدر کرتے ہیں اور اسی کے سامنے سر تسلیمِ خم کرتے ہیں جو کہ تمام جہانوں کا مالک ہے اور بے پناہ طاقت و قدرت کا مالک ہے اور اسی کے پاس ہر شے کا لا محدود علم ہے۔
قرآن پاک کی ایک آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ ہم ’’ان شاء اللہ’‘ کہیں (اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا)
اور کسی کام کی نسبت نہ کہنا کہ میں اس کو کل کر دوں گا مگر انشاء اللہ کہہ کر یعنی اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو کر دوں گا، اور جب اللہ کا نام لینا بھول جا ؤ تو یاد آ نے پر لے لو اور کہہ دو کہ امید ہے کہ میرا پروردگار مجھے اس سے بھی زیادہ ہدایت کی باتیں بتائے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭