صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں


اسلام اور جدید سائینس

ڈاکٹرطاہر القادری


ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                        ٹیکسٹ فائل

اسلام اور جدید سائینس

علمِ ہیئت و فلکیات (Astronomy)

علم ہیئت و فلکیات کے میدان میں مسلمان سائنسدانوں کی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں۔ اُنہوں نے یونانی فلسفے کے گرداب میں پھنسے علمُ الہیئت کو صحیح معنوں میں سائنسی بنیادوں پر اُستوار کیا۔ مغربی زبانوں میں اَب بھی بے شمار اَجرام سماوِی کے نام عربی میں ہیں، کیونکہ وہ مسلم ماہرینِ فلکیات کی دریافت ہیں۔

عظیم مغربی مؤرخ Prof Hitti لکھتا ہے:

Not only are most of the star ۔ ۔ ۔ names in European languages of Arabic origins ۔ ۔ ۔ but a numbers of technical terms ۔ ۔ ۔ are likewise of Arabic etymology and testify to the rich legacy of Islam to Christian Europe."

(History of the Arabs, pp.568-573)

ترجمہ: "یورپ کی زبانوں میں نہ صرف بہت سے ستاروں کے نام عربی الاصل (عربی زبان سے نکلنے والے) ہیں بلکہ لاتعداد اِصطلاحات بھی داخل کی گئی ہیں جو یورپ پر اِسلام کی بھرپور وراثت کی مہرِ تصدیق ثبت کرتی ہیں"۔

اندلس کے عظیم مسلمان سائنسدان ابنِ رشد ۔ ۔ ۔ جسے مغرب میں Averroes کے بدلے ہوئے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔ ۔ ۔ نے سورج کی سطح کے دھبوں (sun spots) کو پہچانا۔ Gregorian کیلنڈر کی اِصلاحات ’عمر خیام‘ نے مرتب کیں۔ خلیفہ مامون الرشید کے زمانہ میں زمین کے محیط کی پیمائشیں عمل میں آئیں، جن کے نتائج کی درُستگی آج کے ماہرین کے لئے بھی حیران کن ہے۔ سورج اور چاند کی گردِش، سورج گرہن، علمُ المیقات (timekeeping) اور بہت سے سیاروں کے بارے میں غیرمعمولی سائنسی معلومات بھی البتانی اور البیرونی جیسے نامور مسلم سائنسدانوں نے فراہم کیں۔ مسلمانوں کی علمُ المیقات (timekeeping) کے میدان میں خصوصی دِلچسپی کی وجہ یہ تھی کہ اِس علم کا تعلق براہِ راست نمازوں اور روزوں کے معاملات سے تھا۔ یاد رہے کہ البتانی (877ء۔918ئ) اور البیرونی (973ء۔1050ء) کا زمانہ صرف تیسری اور چوتھی صدی ہجری کا ہے، گویا یہ کام بھی آج سے گیارہ سو سال قبل اِنجام پذیر ہوئے۔

(History of the Arabs, pp.373-378)

پنج وقتی نمازوں کے تعینِ اَوقات کی غرض سے ہر طول و عرض بلد پر واقع شہروں کے لئے مقامی ماہرینِ تقوِیم و فلکیات نے الگ الگ کیلنڈرز وضع کئے۔ رمضانُ المبارک کے روزوں نے طلوع و غروبِ آفتاب کے اَوقات کے تعین کے لئے پوری تقوِیم بنانے کی الگ سے ترغیب دی، جس سے بعداَزاں ہر طول بلد پر واقع شہر کے مطابق الگ الگ کیلنڈرز اور پھر مشترکہ تقوِیمات کو فروغ ملا۔ یہاں تک کہ تیرہویں صدی عیسوی میں باقاعدہ طور پر ’مؤقّت‘ کا عہدہ وُجود میں آگیا، جو ایک پیشہ ور ماہرِفلکیات ہوتا تھا۔

مغرب کے دورِ جدید کی مشاہداتی فلکیات(observational astronomy) میں اِستعمال ہونے والا لفظ almanac بھی عربی الاصل ہے اِس کی عربی اصل ’المناخ‘ (موسم) ہے۔ یہ نظام بھی اصلاًمسلم سائنسدانوں نے اِیجاد کیا تھا۔ ’شیخ عبدالرحمن الصوفی ؒ‘ نے اِس موضوع پر ایک عظیم کتاب ’صورُالکواکب‘ (figures of the stars) کے نام سے تصنیف کی تھی، جو جدید علمِ فلکیات کی بنیاد بنی۔ مستزاد یہ کہ اِس باب میں ’ابنُ الہیثم‘۔ ۔ ۔ جسے اہلِ مغرب لاطینی زبان میں Alhazen لکھتے ہیں۔ ۔ ۔ کی خدمات بھی ناقابلِ فراموش سائنسی سرمایہ ہے۔ علمِ ہیئت و فلکیات (astronomy) اور علمِ نجوم (astrology) کے ضمن میں اندلسی مسلمان سائنسدانوں میں اگرچہ ’علی بن خلاف اندلسی‘ اور ’مظفرالدین طوسی‘ کی خدمات بڑی تاریخی اہمیت کی حامل ہیں۔ مگر اُن سے بھی بہت پہلے تیسری صدی ہجری میں قرطبہ (Cordoba) کے عظیم سائنسدان ’عباس بن فرناس‘ نے اپنے گھر میں ایک کمرہ تیار کر رکھا تھا جو دورِ جدید کی سیارہ گاہ (Planetarium) کی بنیاد بنا۔ اُس میں ستارے، بادل اور بجلی کی گرج چمک جیسے مظاہرِ فطرت کا بخوبی مشاہدہ کیا جا سکتا تھا۔ ’عباس بن فرناس‘ وہ عظیم سائنسدان ہے جس نے دُنیا کا سب سے پہلا ہوائی جہاز بنا کر اُڑایا۔ بعد اَزاں البیرونی (al-Biruni) اور ازرقیل (Azarquiel) وغیرہ نے equatorial instruments کو وضع کیا اور ترقی دی۔ اِسی طرح سمتِ قبلہ کے درُست تعین اور چاند اور سورج گرہن (lunar / solar eclipses) کو قبل اَز وقت دریافت کرنے، حتیٰ کہ چاند کی گردِش کا مکمل حساب معلوم کرنے کا نظام بھی البطانی، ابنِ یونس اور ازرقیل جیسے مسلم سائنسدانوں نے وضع کیا۔ اِس سلسلے میں اُنہوں نے Toledan Astronomical Tables مرتب کئے۔ چنانچہ بعض غیرمسلم مؤرخین نے اِس حقیقت کا اِن اَلفاظ میں اِعتراف کیا ہے:

"Muslim astrologers also discovered (around the thirteenth century) the system for giving the ephemerids of the sun and the moon --- later extended to the other planets --- as a function of concrete annual dates. Such was the origin of the almanacs which were to be so widely used when trans-oceanic navigation began."

(The Legacy of Islam, pp. 474-482)

ترجمہ: "مسلمان ماہرینِ فلکیات نے بھی (تیرہویں صدی عیسوی کے قریب) چاند اور سورج کو حرکت دینے والے نظام کو دریافت کیا اور بعد ازاں دُوسرے سیاروں کے حوالے سے تحقیق شروع کی۔ طے شدہ سالانہ تاریخوں کے حساب سے اور اُن تاریخوں کا رجسٹر کا آغاز کچھ ایسا تھا کہ اسے سمندر کو پار کرنے کے لئے جہازوں کی رہنمائی میں بہت زیادہ اِستعمال میں لایا گیا"۔

حساب،الجبرا،جیومیٹری (Mathematics, Algebra, Geometry)

حساب، الجبرا اور جیومیٹری کے میدان میں ’الخوارزمی‘ مؤسسینِ علم میں سے ایک ہے۔ حساب میں algorism یا algorithm کا لفظ الخوارزمی (al-Khwarizimi) کے نام سے ہی ماخوذ ہے۔ اُن کی کتاب "الجبر و المقابلہ" کا بارہویں صدی عیسوی میں عربی سے لاطینی زبان میں ترجمہ کیا گیا۔ یہ کتاب سولہویں صدی عیسوی تک یورپ کی یونیورسٹیوں میں بنیادی نصابی کتاب (textbook) کے طور پر پڑھائی جاتی رہی اور اُسی سے عالمِ مغرب میں الجبرا متعارف ہوا۔ اُس کتاب میں ’تفرّق کے معکوس‘ (integration) اور ’مساوات‘ (equation) کی آٹھ سو سے زائد مثالیں دِی گئی تھیں۔ مستزاد یہ کہ یورپ میں trigonometrical functions کا علم ’البتانی‘ کی تصانیف کے ذریعے اور tangents کا علم ’ابوالوفا‘ کی تصانیف کے ذریعے پہنچا۔ اسی طرح صفر (zero) کا تصوّر مغرب میں متعارف ہونے سے کم از کم 250 سال قبل عرب مسلمانوں میں متعارف تھا۔ ابو الوفاء، الکندی، ثابت بن القرّاء، الفارابی، عمرخیام، نصیرالدین طوسی، ابنُ البناء المراکشی، ابنِ حمزہ المغربی، ابوالکامل المصری اور اِبراہیم بن سنان وغیرہ کی خدمات arithmetic، algebra، geometry اور trigonometry وغیرہ میں تأسیسی حیثیت کی حامل ہیں۔ حتیٰ کہ اِن مسلمان ماہرین نے باقاعدہ اُصولوں کے ذریعے optics اور mechanics کو بھی خوب ترقی دِی۔ یہ بات بھی قابلِ ذِکر ہے کہ ’المراکشی‘ نے mathematics کی مختلف شاخوں پر 70 کتابیں تصنیف کی تھیں, جو بعد اَزاں اِس علم کا اَساسی سرمایہ بنیں۔ الغرض مسلم ماہرین نے علمِ ریاضی کو یونانیوں سے بہت آگے پہنچا دیا اور یہی اِسلامی کام جدید mathematics کی بنیاد بنا۔

طبیعیات،میکانیات اورحرکیات(Physics, Mechanics, Dynamics)

قرونِ وُسطیٰ کے مسلمان سائنسدانوں میں سے ابنِ سینا، الکندی، نصیرالدین طوسی اور ملا صدرہ کی خدمات طبیعیات کے فروغ میں اِبتدائی طور پر بہت اہمیت کی حامل ہیں۔ بعد اَزاں محمد بن زکریا رازی، البیرونی او ر ابو البرکات البغدادی نے اُسے مزید ترقی دی۔ الرازی نے علمِ تخلیقیات (cosmology) کو خاصا فروغ دیا۔ البیرونی نے ارسطو (Aristotole) کے کئی طبیعیاتی نظریات کو ردّ کیا۔ البغدادی کی کتاب ’کتاب المعتبر‘ قدیم فزکس میں نمایاں مقام رکھتی ہے۔ حرکت (motion) اور سمتی رفتار (velocity) کی نسبت البغدادی اور ملاصدرہ کے نظریات و تحقیقات آج کے سائنسدانوں کے لئے بھی باعثِ حیرت ہیں۔ پھر ابنُ الہیثم نے density، atmosphere، measurements، weight، space، time، velocities، gravitation، capillary attraction جیسے موضوعات اور تصورات کی نسبت بنیادی مواد فراہم کر کے علمِ طبیعیات (physics) کے دامن کو علم سے بھر دیا۔ اِسی طرح mechanics اور dynamics کے باب میں بھی ابن سینا اور ملا صدرہ نے نمایاں خدمات سراَنجام دیں۔

ابنُ الہیثم کی ’کتابُ المناظر‘ (optical thesaurus) نے اِس میدان میں گرانقدر علم کا اِضافہ کیا۔ ابنِ باجّہ نے بھی dynamics میں نمایاں علمی خدمات اِنجام دیں۔ اُنہوں نے ارسطو کے نظریۂ رفتار کو ردّ کیا۔ اِسی طرح ابنِ رشد نے بھی اِس علم کو ترقی دی۔ اِن مسلم سائنسدانوں نے galileo سے بھی پہلے gravitational force کی خبر دِی مگر اُن کا تصوّر دورِ حاضر کے تصوّر سے قدرے مختلف تھا۔ اِسی طرح momentum کا تصوّر بھی اِسلامی سائنس کے ذرِیعے مغربی دُنیا میں متعارف ہوا۔ ثابت بن قراء نے lever پر پوری کتاب لکھی، جسے مغربی تاریخ میں liber karatonis کے نام سے جانا جاتا ہے۔

بغداد کے دِیگر مسلم سائنسدانوں نے تاریخ کے کئی mechanical devices اور godgets وغیرہ پر بہت زیادہ سائنسی مواد فراہم کیا۔

علم بصریات (Optics)

بصریات (optics) کے میدان میں تو اِسلامی سائنسی تاریخ کو غیرمعمولی عظمت حاصل ہے۔ بقول پروفیسر آرنلڈ (Arnold) اِس میدان میں چوتھی صدی ہجری کے ابنُ الہیثم اور کمالُ الدین الفارسی کی سائنسی خدمات نے پچھلے نامور سائنسدانوں کے علم کے چراغ بجھادیئے۔ ابنُ الہیثم کی معرکۃُ الآراء کتاب "On Optics" آج اپنے لاطینی ترجمہ کے ذرِیعے زندہ ہے۔ اُنہوں نے تاریخ میں پہلی مرتبہ lenses کی magnifying power کو دریافت کیا اور اِس تحقیق نے magnifying lenses کے نظریہ کو اِنسان کے قریب تر کردیا۔ ابنُ الہیثم نے ہی یونانی نظریۂ بصارت (nature of vision) کو ردّ کر کے دُنیا کو جدید نظریۂ بصارت سے رُوشناس کرایا اور ثابت کیا کہ روشنی کی شعاعیں (rays) آنکھوں سے پیدا نہیں ہوتیں بلکہ بیرونی اَجسام (external objects) کی طرف سے آتی ہیں۔ اُنہوں نے پردۂ بصارت (retina) کی حقیقت پر صحیح طریقہ سے بحث کی اور اُس کا optic nerve اور دِماغ (brain) کے ساتھ باہمی تعلق واضح کیا۔ الغرض ابنُ الہیثم نے بصریات کی دُنیا میں اِس قدر تحقیقی پیش رفت کی کہ Euclid اور Kepler کے درمیان اُس جیسا کوئی اور شخص تاریخ میں پیدا نہیں ہوا۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ وُہی جدید بصریات (optics) کے بانی کا درجہ رکھتے ہیں۔ اُن کے کام نے نہ صرف Witelo Roger Bacon اور Peckham جیسے قدیم سائنسدانوں کو ہی متاثر کیا بلکہ دورِ جدید میں Kepler اور Newton کے کام بھی اُن سے خاصے متاثر نظر آتے ہیں۔ مزید برآں اُن کا نام velocities، light، lenses، astronomical observations، meteorology اور camera وغیرہ پر تأسیسی شان کا حامل ہے۔ اِسی طرح قطبُ الدین شیرازی اور القزوِینی نے بھی اِس میدان میں گرانقدر خدمات اِنجام دی ہیں۔

علمُ النباتات (Botany)

اِس موضوع پر الدینوری (895ئ) کی چھ جلدوں پر مشتمل ’کتابُ النبات‘ سائنسی دُنیا میں سب سے پہلا ضخیم اور جامع Encyclopaedia Botanica ہے۔ یہ مجموعہ اُس وقت تحریر کیا گیا جب یونانی کتب کا عربی ترجمہ بھی شروع نہیں ہوا تھا۔

ایک مغربی سائنسی مورخ Strassburg لکھتا ہے:

"Anyhow it is astonishing enough that the entire botanical literature of antiquity furnishes us only two parallels to our book (of Dinawari). How was it that the Muslim people could, during so early a period of its literacy life, attain the level of the people of such a genius as the Hellenic one, and even surpassed it in this respect."

(Zeitschrift fuer Assyriologie, Strassburg, vols. 25,44)

ترجمہ "الغرض یہ ایک اِنتہائی حیران کن بات ہے کہ زمانۂ قدیم میں لکھا جانے والا علمِ نباتات کا مواد ہمیں الدنیوری کی کتاب جیسی صرف دو مثالیں پیش کرتا ہے۔ یہ کیسے ممکن ہوا کہ اپنی تعلیمی زندگی کے اُس اِبتدائی دَور میں مسلمانوں نے قدیم یونان جیسے دانشور و محقق لوگوں کا درجہ حاصل کرلیا تھا بلکہ وہ اِس معاملے میں تو اُن سے بھی آگے نکل گئے تھے"۔

پروفیسر آرنلڈ کے مطابق دُنیا بھر سے مسلمانوں کے مکہ و مدینہ کی طرف حج اور زیارت کے لئے سفر کرنے کے عمل نے biological science کو خاصی ترقی دی ہے۔ الغفیقی اور الادریسی نے اندلس (Spain) سے افریقہ تک سفر کر کے سینکڑوں پودوں کی نسبت معلومات جمع کیں اور کتابیں مرتب کیں۔

ابنُ العوام نے 585 پودوں کے خواص و اَحوال پر مشتمل کتاب مرتب کی اور علمُ النباتات (botany) کو ترقی کی راہوں پر گامزن کیا۔

پروفیسر Hitti بیان کرتا ہے:

"In the field of natural history especially botany, pure and applied, as in that of astronomy and mathematics, the western Muslims (of Spain) enriched the world by their researches. They made accurate observations on the sexual difference (of various plants)."

(Ameer Ali, The Spirit of Islam. pp. 385-387)

ترجمہ: "قدرتی تاریخ کے میدان میں خاص طور پر خالص یا اطلاقی علم نباتات میں فلکیات اور ریاضیات کی طرح اندلس کے مغربی مسلمانوں نے اپنی تحقیقات کے ذریعہ سے دُنیا کو مستفید کیا۔ اِسی طرح مختلف پودوں میں پائے جانے والے جنسی اِختلاف کے بارے میں اُن (ابو عبداللہ التمیمی اور ابو القاسم العراقی) کی تحقیقات بھی علمُ النباتات کی تاریخ کا نادِر سرمایہ ہیں"۔

اِسلامی سپین کے فرمانروا عبدالرحمن اوّل نے قرطبہ (Cordoba)میں ایک زرعی تحقیقاتی اِدارے "حدیقہ نباتاتِ طبیہ" کی بنیاد رکھی، جس سے نہ صرف علمِ نباتات (botany) کو مستحکم بنیادوں پر اُستوار کرنے کے مواقع میسر آئے بلکہ علمُ الطب (medical sciences) میں بھی تحقیق کے دَر وَا ہوئے۔ چنانچہ اندلس کے ماہرینِ نباتات نے پودوں میں جنسی اِختلاف کی موجودگی کو بجا طور پر دریافت کرلیا تھا۔ اِس دریافت میں جہاں اُنہیں "حدیقہ نباتاتِ طبیہ" میں کی گئی تجربی تحقیقات نے مدد دی وہاں اللہ ربّ العزت کے فرمان "خَلَقَ اﷲُ کُلَّ شَیئٍ زَوجًا" (اللہ تعالیٰ نے ہر شے کو جوڑا جوڑا بنایا) نے بھی بنیادی رہنمائی عطا کی۔

عبداللہ بن عبدالعزیز البکری نے ’کتاب اَعیان النبات و الشجریات الاندلسیہ‘ کے نام سے اندلس کے درختوں اور پودوں کے خواص مرتب کئے۔ اشبیلیہ کے ماہرِنباتات (botanist) ابنُ الرومیہ نے اندلس کے علاوہ افریقہ اور ایشیا کے بیشتر ممالک کی سیاحت کی اور اُس دوران ملنے والے پودوں اور جڑی بوٹیوں پرخالص نباتی نقطۂ نظر سے تحقیقات کیں۔ اِس کے علاوہ ابنُ البیطار، شریف اِدریسی اور ابنِ بکلارش بھی اندلس کے معروف ماہرینِ نباتا ت میں سے ہیں۔

علمُ الطب (Medical Science)

اِس میدان میں بھی اِسلامی تاریخ عدیمُ المثال مقام کی حامل ہے۔ اِس باب میں الرازی، ابو القاسم الزہراوی، ابنِ سینا، ابنِ رُشد اور الکندی کے نام سرِ فہرست آتے ہیں۔

"مسلم سائنسدانوں نے اِسلام کے دورِ اَوائل میں ہی بڑے بڑے ہسپتال اور طبی اِدارے (medical colleges) قائم کرلئے تھے، جہاں علم الادویہ (pharmacy) اور علمُ الجراحت (surgery) کی کلاسیں بھی ہوتی تھیں"۔

(Islamic Science, S.H. Nasr, pp.156)

ایک میلینئم سے زیادہ وقت گزرا جب عالمِ اِسلام کے نامور طبیب ’الرازی‘(930ئ)نے علمُ الطب (medical science) پر 200 سے زائد کتب تصنیف کی تھیں، جن میں سے بعض کا لا طینی، انگریزی اور دُوسری جدید زبانوں میں ترجمہ کیا گیا اور اُنہیں صرف 1498ء سے 1866ء تک تقریباً 40 مرتبہ چھاپا گیا۔ smallpox اور measles پر سب سے پہلے صحیح تشخیص بھی ’الرازی‘ نے ہی پیش کی۔

اِسی طرح ابو علی الحسین بن سینا (Avicenna)(1037ئ) نے ’القانون‘ (Canon of Medicine) لکھ کر دُنیائے طب میں ایک عظیم دَور کا اِضافہ کیا۔ اِس کا ترجمہ بھی عربی سے لاطینی اور دِیگر زبانوں میں کیا گیا اور یہ کتاب 1650ء تک یورپ کی بیشتر یونیورسٹیوں میں شاملِ نصاب رہی۔

ابو ریحان البیرونی (1048ئ) نے pharmacology کو مرتب کیا۔ اِسی طرح علی بن عیسیٰ بغدادی اور عمار الموصلی کی اَمراضِ چشم اور ophthalmology پر لکھی گئی کتب اٹھارویں صدی عیسوی کے نصف اوّل تک فرانس اور یورپ کے medical colleges میں بطور textbooks شاملِ نصاب تھیں۔ ایک غیرمسلم مغربی مفکر E. G. Browne لکھتا ہے :

"جب عیسائی یورپ کے لوگ اپنے علاج کے لئے بتوں کے سامنے جھکتے تھے اُس وقت مسلمانوں کے ہاں لائسنس یافتہ ڈاکٹرز، معا لجین، ماہرین اور شاندار ہسپتال موجود تھے"۔ اِس سے آگے اُس کے اَلفاظ ملاحظہ ہوں:

The practice of medicine was regulated in the Muslim world from the tenth century onwards. At one time, Sinan ibn Thabit was Chairman of the Board of Examiners in Baghdad. Pharmacists were also regulated and the Arabs produced the first pharamcopia drug stores. Barber shops were also subject to inspection. Travelling hospitals were known in the eleventh century۔ ۔ ۔ The great hospital of al-Mansur, founded at Damascus around 1284 AD, was open to all sick persons, rich or poor, male or female, and had separate wards for men and women. One ward was set apart for fevers, another for ophthalmic cases, one for surgical cases and one for dysentry and kindred intestinal ailments. There were in addition, kitchens, lecture-rooms, a dispensary and so on.

(E. G. Browne, Arabian Medicine, pp.101)

ترجمہ "اِسلامی دُنیا میں دسویں صدی عیسوی سے ہی علمِ طب اور ادوِیہ سازی کو منظم اور مرتب کر دیا گیا تھا۔ ایک وقت ایسا تھا جب سنان بن ثابت بغداد میں ممتحنین کے بورڈ کے صدر تھے۔ ادوِیہ سازوں کو بھی باقاعدہ منظم کیا گیا تھا اور عربوں نے ہی سب سے پہلے میڈیکل سٹورز قائم کئے حتیٰ کہ طبی نقطۂ نظر سے حجاموں کی دُکانوں کا بھی معائنہ کیا جاتا تھا۔ گیارہویں صدی میں سفری (mobile) ہسپتالوں کا بھی ذِکر ملتا ہے۔ 1284ء کے قریب دِمشق میں قائم شدہ عظیمُ الشان ’المنصور ہسپتال‘ موجود تھا۔ جس کے دروازے امیر و غریب، مرد و زن، غرض تمام مریضوں کے لئے کھلے تھے اور اُس ہسپتال میں عورتوں اور مردوں کے لئے علیحدہ علیحدہ وارڈ موجود تھے۔ ایک وارڈ مکمل طور پر بخار کے لئے (fever ward) ایک آنکھوں کی بیماریوں کے لئے (eye ward) ایک وارڈ سرجری کے لئے (surgical ward) اور ایک وارڈ پیچش (dysentry) اور آنتوں کی بیماریوں (intestinal ailments) کے لئے مخصوص تھا۔ علاوہ ازیں اُس ہسپتال میں باورچی خانے، لیکچر ہال اور اَدویات مہیا کرنے کی ڈسپنسریاں بھی تھیں اور اِسی طرح طب کی تقریباً ہر شاخ کے لئے یہاں اِہتمام کیا گیا تھا"۔

یہ بات طے شدہ ہے کہ مسلمانوں کی طبی تحقیقات و تعلیمات کے تراجم یورپی زبانوں میں کئے گئے جن کے ذریعے یہ سائنسی علوم یورپی مغربی دُنیا تک منتقل ہوئے۔ خاص طور پر ابوالقاسم الزہراوی اور المجوسی کی کتب نے طبی تحقیق کی دُنیا میں اِنقلاب بپا کیا۔ ملاحظہ ہو:

"Their medical studies, later translated into Latin and the European languages, revealed their advanced knowledge of blood circulation in the human body. The work of Abul-Qasim al-Zahrawi, Kitab al-Tasrif,on surgery, was translated into Latin by Gerard of Cremona and into Hebrew about a century later by Shem-tob ben Isaac. Another important work in this field was the Kitab al-Maliki of al-Majusi (died 982 AD), which shows according to Browne that the Muslim physicians had an elementary conception of the capillary system (optic) and in the works of Max Meyerhof, Ibn al-Nafis (died 1288 AD) was the first in time and rank of the precursors of William Harvery. In fact, he propounded the theory of pulmonary circulation three centuries before Michael Servetus. The blood, after having been refined must rise in the arterious veins to the lung in order to expand its volume, and to be mixed with air so that its finest part may be clarified and may reach the venous artery in which it is transmitted to the left cavity of the heart.

(Ibn al-Nafis and his Theory of the Lasser Circulation, Islamic Science, 23:166, June, 1935)

ترجمہ: "اُن کے طبی علم اور معلومات والی کتب جن کا بعد ازاں لاطینی اور یورپی زبانوں میں ترجمہ ہوا، اُن کی اِنسانی جسم میں خون کی گردِش کے متعلق وُ سعتِ علم کا اِنکشاف کرتی ہیں۔ ’ابوالقاسم الزہراوی‘ کی جراحی پر تحقیق ’کتابُ التصریف لِمَن عجز عنِ التألیف‘ جس کا ترجمہ Cremona کے Gerard نے لاطینی زبان میں کیا، اور ایک صدی بعد Shem-tob ben Isaac نے عبرانی زبان میں کیا۔ اِسی میدان میں ایک اور اہم ترین کام المجوسی (وفات982ئ) کی تصنیف ’کتابُ الملیکی‘ ہے، ’براؤن‘ کے مطابق یہ کتاب اِس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ مسلمان اَطباء کو شریانوں کے نظام کے بارے میں بنیادِی تصوّرات اور معلومات حاصل تھیں اور ’میکس میئرہوف‘ کے اَلفاظ میں ’ابنُ النفیس‘ (وفات1288ئ) وقت اور مرتبے کے لحاظ سے ’ولیم ہاروے‘ کا پیش رَو تھا۔ حقیقت میں اُس نے ’مائیکل سرویٹس‘ سے تین صدیاں پہلے سینے میں پھیپھڑوں کی حرکت اور خون کی گردِش کا سراغ لگایا تھا۔ خون صاف کئے جانے کے بعد بڑی بڑی شریانوں میں وہ یقینا پھیپھڑے کی شریانوں میں بلند ہونا چاہئے تاکہ اُس کا حجم بڑھ سکے اور وہ ہوا کے ساتھ مل سکے تاکہ اُس کا بہترین حصہ صاف ہو جائے اور وہ نبض کی شریان تک پہنچ سکے جس سے یہ دِل کے بائیں حصے میں پہنچتا ہے"۔

***

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول