صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں


اصلاحِ معاشرہ

ابو الاعلیٰ مودودی


مولانا مودودی کی کتاب’اسلامی نظامِ زندگی اور اس کے بنیادی تصورات‘ کا ایک حصہ

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                           ٹیکسٹ فائل

بناؤ اور بگاڑ

مالک ہونے کی حیثیت سے اس کی خواہش یہ ہے کہ اس کی دنیا کا انتظام ٹھیک کیا جائے۔ اس کو زیادہ سے زیادہ سنوارا جائے۔ اس کے دیئے ہوئے ذرائع اور اس کی بخشی ہوئی قوتوں اور قابلیتوں کو زیادہ سے زیادہ بہتر طریقے سے استعمال کیا جائے۔ وہ اس بات کو ہرگز پسند نہیں کرتا؛ اور اس سے یہ توقع کی بھی تو نہیں جا سکتی کہ وہ کبھی اسے پسند کرے گا؛ کہ اس کی دنیا بگاڑی جائے، اجاڑی جائے، اور اس کو بدنظمی سے، گندگیوں سے اور ظلم و ستم سے خراب کر ڈالا جائے۔ انسانوں میں سے جو لوگ بھی دنیا کے انتظام کے امیدوار بن کر کھڑے ہوتے ہیں ، جن کے اندر بنانے کی زیادہ سے زیادہ صلاحیت ہوتی ہے، انہی کو وہ یہاں انتظام کے اختیارات سپرد کرتا ہے۔

پھر وہ دیکھتا رہتا ہے کہ یہ لوگ بناتے کتنا ہے اور بگاڑتے کتنا ہے۔ جب تک ان کا بناؤ ان کے بگاڑ سے زیادہ ہوتا ہے اور کوئی دوسرا ا میدوار ان سے اچھا بنانے والا اور ان سے کم بگاڑنے والا میدان میں موجود نہیں ہوتا، اس وقت تک ان کی ساری برائیوں اور ان کے تمام قصوروں کے باوجود دنیا کا انتظام انہی کے سپرد رہتا ہے۔ مگر جب وہ کم بنانے اور زیادہ بگاڑنے لگتے ہیں تو خدا انہیں ہٹا کر پھینک دیتا ہے اور دوسرے امیدوار کو اسی لازمی شرط پر انتظام سونپ دیتا ہے۔

یہ قانون بالکل ایک فطری قانون ہے اور آپ کی عقل گواہی دے گی، کہ اس کو ایسا ہی ہونا چاہیے۔ اگر آپ میں سے کسی شخص کا کوئی باغ ہو اور وہ اسے ایک مالی کے سپرد کر دے تو آپ خود بتائیے کہ وہ اس مالی سے اولین بات کیا چاہے گا؟ باغ کا مالک اپنے مالی سے اس کے سوا اور کیا چاہ سکتا ہے کہ وہ اس کے باغ کو بنائے نہ کہ خراب کر کے رکھ دے۔ وہ تو لازماً یہی چاہے گا کہ اس کے باغ کو زیادہ سے زیادہ بہتر حالت میں رکھا جائے۔ زیادہ سے زیادہ ترقی دی جائے۔ اس کے حسن میں ، اس کی صفائی میں ، اس کی پیداوار میں زیادہ سے زیادہ اضافہ ہو۔ جس مالی کو وہ دیکھے گا کہ وہ خوب محنت سے جی لگا کر سلیقے اور قابلیت کے ساتھ اس کے باغ کی خدمت کر رہا ہے، اس کی روشوں کو سنوار رہا ہے، اس کے اچھے درختوں کی پرورش کر رہا ہے ، اس کو بری ذات کے درختوں اور جھاڑ جھنکاڑ سے صاف کر رہا ہے اور اس میں اپنی جدت اور جُودت سے عمدہ پھلوں اور پھولوں کی نئی نئی قسموں کا اضافہ کر رہا ہے، تو ضرور ہے کہ وہ اس سے خوش ہو، اسے ترقی دے اور ایسے لائق، فرض شناس اور خدمت گزار مالی کو نکالنا کبھی پسند نہ کرے۔ لیکن اس کے برعکس اگر وہ دیکھے کہ مالی نالائق بھی ہے کام چور بھی ، اور جان بوجھ کر یا بے جانے بوجھے اس باغ کے ساتھ بدخواہی کر رہا ہے، سارا باغ گندگیوں سے اٹا پڑا ہے۔ روشیں ٹوٹ پھوٹ رہی ہیں ، پانی کہیں بلا ضرورت بہہ رہا ہے اور کہیں قطعے کے قطعے سوکھتے چلے جارہے ہیں ، گھاس پھونس اور جھاڑ جھنکاڑ بڑھتے جاتے ہیں اور پھولوں اور پھلدار درختوں کو بے دردی کے ساتھ کاٹ کاٹ کر اور توڑ توڑ کر پھینکا جا رہا ہے ،اچھے درخت مرجھا رہے ہیں اور خار دار جھاڑیاں بڑھ رہی ہیں ، تو آپ خود ہی سوچیے کہ باغ کا مالک ایسے مالی کو کیسے پسند کر سکتا ہے۔ کون سی سفارش، کون سی عرض ومعروض اور دست بستہ التجائیں ، اور کون سے آبائی حقوق یا دوسرے خودساختہ حقوق کا لحاظ اس کو اپنا باغ ایسے مالی کے حوالے کیے رہنے پر آمادہ کر سکتاہے؟ زیادہ سے زیادہ رعایت وہ بس اتنی ہی تو کرے گا کہ اسے تنبیہ کر کے پھر ایک موقع دے دے۔ مگر جو مالی تنبیہ پر بھی ہوش میں نہ آئے، اور باغ کو اُجاڑے ہی چلا جائے اس کا علاج اس کے سوا اور کیا ہے کہ باغ کا مالک پکڑ کر اسے نکال باہر کرے اور دوسرا مالی اس کی جگہ رکھ لے۔

اب غور کیجیے کہ اپنے ایک ذرا سے باغ کے انتظام میں جب آپ یہ طریقہ اختیار کرتے ہیں تو خدا، جس نے اپنی اتنی بڑی زمین اتنے سروسامان کے ساتھ انسانوں کے حوالہ کی ہے، اور اتنے وسیع اختیارات ان کو اپنی دنیا اور اس کی چیزوں پر دیئے ہیں ، وہ آخر اس سوال کو نظرانداز کیسے کر سکتا ہے کہ آپ اس کی دنیا بنا رہے ہیں یا اجاڑ رہے ہیں ۔ آپ بنا رہے ہوں تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ آپ کو خواہ مخواہ ہٹا دے لیکن اگر آپ بنائیں کچھ نہیں اور اس کے عظیم الشان باغ کوبگاڑتے اور اجاڑتے ہی چلے جائیں تو آپ نے اپنے دعوے اپنی دانست میں خواہ کیسی ہی زبردست من مانی بنیادوں پر قائم کر رکھے ہوں ، وہ اپنے باغ پر آپ کے حق کو تسلیم نہیں کرے گا۔ کچھ تنبیہات کر کے، سنبھلنے کے دو چار مواقع دے کر،آخر کار وہ آپ کو انتظام سے بے دخل کر کے ہی چھوڑے گا۔

خدائی اور انسانی نقطۂ نظر کا فرق

اس معاملہ میں خدا کا نقطۂ نظر انسانوں کے نقطۂ نظر سے اسی طرح مختلف ہے۔ جس طرح خود انسانوں میں ایک باغ کے مالک کا نقطۂ نظر اس کے مالی کے نقطۂ نظر سے مختلف ہوا کرتا ہے۔ فرض کیجیے کہ مالیوں کا ایک خاندان دو چار پُشت سے ایک شخص کے باغ میں کام کرتا چلا آ رہا ہے۔ ان کا کوئی دادا پردادا اپنی لیاقت و قابلیت کی وجہ سے یہاں رکھا گیا تھا۔ پھر اس کی اولاد نے بھی اچھا کام کیا۔ مالک نے سوچا کہ خواہ مخواہ انہیں ہٹانے اور نئے آدمی رکھنے کی کیا ضرورت ہے۔ جب کام یہ بھی اچھا ہی کر رہے ہیں تو ان کا حق دوسرے سے زیادہ ہے۔ اس طرح یہ خاندان باغ میں جم گیا۔ لیکن اب اس خاندان کے لوگ نہایت نالائق، بے سلیقہ، کام چور اور نافرض شناس اٹھے ہیں ۔ باغبانی کی کوئی صلاحیت ان کے اندر نہیں ہے۔ سارے باغ کا ستیاناس کیے ڈالتے ہیں اور اس پر ان کا دعویٰ ہے کہ ہم باپ دادا کے وقتوں سے اس باغ میں رہتے چلے آتے ہیں ، ہمارے پر دادا ہی کے ہاتھوں اول اول یہ باغ آباد ہوا تھا، لہٰذا ہمارے اس پر پیدائشی حقوق ہیں ، اور اب کسی طرح یہ جائز نہیں کہ ہمیں بے دخل کر کے کسی دوسرے کو یہاں کا مالی بنا دیا جائے۔ یہ ان نالائق مالیوں کا نقطۂ نظر ہے مگر کیا باغ کے مالک کا نقطۂ نظر بھی یہی ہو سکتا ہے؟ کیا وہ یہ نہ کہے گا کہ میرے نزدیک تو سب سے مقدم چیز میرے باغ کا حسنِ انتظام ہے۔ میں نے یہ باغ تمہارے پردادا کے لیے نہیں لگایا تھا بلکہ تمہارے پردادا کو اس باغ کے لیے نوکر رکھا تھا۔ تمہارے اس باغ پر جو حقوق بھی ہیں ، خدمت اور قابلیت کے ساتھ مشروط ہیں ۔ باغ کو بناؤ گے تو تمہارے سب حقوق کا لحاظ کیا جائے گا۔ اپنے پرانے مالیوں سے آخر مجھے کیا دشمنی ہو سکتی ہے؟ کہ وہ کام اچھا کریں تب بھی انہیں خواہ مخواہ نکال ہی دوں اور نئے امیدواروں کا بلاضرورت تجربہ کروں ۔ لیکن اگر اس باغ ہی کو تم بگاڑتے اور اجاڑتے رہو جس کے انتظام کی خاطر تمہیں رکھا گیا ہے تو پھر تمہارا کوئی حق مجھے تسلیم نہیں ہے۔ دوسرے امیدوار موجود ہیں ، باغ کا انتظام ان کے حوالے کر دوں گا اور تم کو ان کے ماتحت پیش خدمت بن کر رہنا ہو گا۔ اس پر بھی اگر تم درست نہ ہوئے اور ثابت ہوا کہ ماتحت کی حیثیت سے بھی تم کسی کام کے نہیں ہو، بلکہ کچھ بگاڑنے ہی والے ہو، تو تمہیں یہاں سے نکال باہر کیا جائے گا اور تمہاری جگہ خدمت گار بھی دوسرے ہی لا کر بسائے جائیں گے۔

یہ فرق جو مالک اور مالیوں کے نقطۂ نظر میں ہے، ٹھیک یہی فرق دنیا کے مالک اور دنیا والوں کے نقطۂ نظر میں بھی ہے۔ دنیا کی مختلف قومیں زمین کے جس جس خطہ میں بستی ہیں ، اُن کا دعویٰ یہی ہے کہ یہ خطہ ہمارا قومی وطن ہے۔ پشت ہا پشت سے ہم اور ہمارے باپ دادا یہاں رہتے چلے آئے ہیں ۔ اس ملک پر ہمارے پیدائشی حقوق ہیں ۔ لہٰذا یہاں انتظام ہمارا اپنا ہی ہونا چاہیے، کسی دوسرے کو حق نہیں پہنچتا کہ باہر سے آکر یہاں کا انتظام کرے۔ مگر زمین کے اصلی مالک خدا کا نقطۂ نظر یہ نہیں ہے۔ اس نے کبھی ان قومی حقوق کو تسلیم نہیں کیا۔ وہ نہیں مانتا، کہ ہر ملک پراس کے باشندوں کا پیدائشی حق ہے، جس سے اس کو کسی حال میں بے دخل نہیں کیا جا سکتا۔ وہ تو یہ دیکھتا ہے کہ کوئی قوم اپنے وطن میں کیا کام کر رہی ہے۔ اگر وہ بناؤ اور سنوار کے کام کرتی ہو، اگر وہ اپنی قوتیں زمین کی اصلاح و ترقی میں استعمال کرتی ہو، اگر وہ برائیوں کی پیداوار روکنے اور بھلائیوں کی کھیتی سینچنے میں لگی ہوئی ہو تو مالکِ کائنات کہتا ہے کہ بے شک تم اس کے مستحق ہوکہ یہاں کا انتظام تمہارے ہاتھ میں رہنے دیا جائے۔ تم پہلے سے یہاں آباد بھی ہو اور اہل بھی ہو۔ لہٰذا تمہارا ہی حق دوسروں کی بہ نسبت مقدم ہے لیکن اگر معاملہ برعکس ہو، بناؤ کچھ نہ ہو اور سب بگاڑ ہی کے کام ہوئے جا رہے ہوں ، بھلائیاں کچھ نہ ہوں اور برائیوں ہی سے خدا کی زمین بھری جا رہی ہو، جو کچھ خدا نے زمین پر پیدا کیا ہے، اسے بے دردی کے ساتھ تباہ کیا جا رہا ہو۔ اور کوئی بہتر کام اس سے لیا ہی نہ جاتا ہو تو پھر خدا کی طرف سے پہلے کچھ ہلکی اور کچھ سخت چوٹیں لگائی جاتی ہیں ، تاکہ یہ لوگ ہوش میں آئیں اور اپنا رویہ درست کر لیں ۔ پھر جب وہ قوم اس پر درست نہیں ہوتی تو اسے ملک کے انتظام سے بے دخل کر دیا جاتا ہے اور کسی دوسری قوم کو، جو کم از کم اس کی بہ نسبت اہل تر ہو، وہاں کی حکومت دے دی جاتی ہے اور بات اس پر بھی ختم نہیں ہوتی۔ اگر ماتحت بننے کے بعد بھی باشندگانِ ملک کسی لیاقت و اہلیت کا ثبوت نہیں دیتے اور اپنے عمل سے یہی ظاہر کرتے ہیں کہ ان سے کچھ بھی بن نہ آئے گا بلکہ کچھ بگڑ ہی جائے گا، تو خدا پھر ایسی قوم کو مٹا دیتا ہے اور دوسروں کو لے آتا ہے جو اس کی جگہ بستے ہیں ۔ اس معاملہ میں خدا کا نقطۂ نظر ہمیشہ وہی ہوتا ہے جو مالک کا ہونا چاہیے۔ وہ اپنی زمین کے انتظام میں دعویداروں اور امیدواروں کے آبائی یا پیدائشی حقوق نہیں دیکھتا۔ وہ تو یہ دیکھتا ہے کہ ان میں کون بناؤ کی زیادہ سے زیادہ صلاحیت اور بگاڑ کی طرف کم سے کم میلان رکھتا ہے۔ ایک وقت کے امیدواروں میں سے جو اس لحاظ سے اہل تر نظر آتے ہیں ۔ انتخاب انہی کا ہوتا ہے اور جب تک ان کے بگاڑ سے ان کا بناؤ زیادہ رہتا ہے یا جب تک ان کی بہ نسبت زیادہ اچھا بنانے والا اور کم بگاڑنے والا کوئی میدان میں نہیں آ جاتا، اسی وقت تک انتظام انہی کے سپرد رہتا ہے۔

تاریخی شہادتیں

یہ جو کچھ عرض کر رہا ہوں ، تاریخ گواہ ہے کہ خدا نے ہمیشہ اپنی زمین کا انتظام اسی اصول پر کیا ہے۔ دور کیوں جائیے، خود اپنے اسی ملک کی تاریخ دیکھ لیجیے۔ یہاں جو قومیں پہلے آباد تھیں ان کی تعمیری صلاحیتیں جب ختم ہو گئیں تو خدا نے آریوں کویہاں کے انتظام کا موقع دیا جو اپنے وقت کی قوموں میں سب سے زیادہ اچھی صلاحیتیں رکھتے تھے۔ انہوں نے یہاں آ کر ایک بڑے شاندار تمدن کی بنا رکھی، بہت سے علوم و فنون ایجاد کیے، زمین کے خزانوں کو نکالا اور انہیں بہتری میں استعمال کیا، بگاڑ سے زیادہ بناؤ کے کام کر کے دکھائے۔ یہ قابلیتیں جب تک ان میں رہیں ، تاریخ کے سارے نشیبوں اور فرازوں کے باوجود یہی اس ملک کے منتظم رہے۔ دوسرے امیدوار بڑھ بڑھ کر آگے آئے مگر دھکیل دیئے گئے، کیونکہ ان کے ہوتے دوسرے منتظم کی ضرورت نہ تھی۔ ان کے حملے زیادہ سے زیادہ بس یہ حیثیت رکھتے تھے کہ جب کبھی یہ ذرا بگڑنے لگتے تو کسی کو بھیج دیا گیا، تاکہ انہیں متنبہ کر دے۔ مگر جب یہ بگڑتے ہی چلے گئے اور انہوں نے بناؤ کے کام کم اور بگاڑنے کے کام زیادہ کرنے شروع کر دیے، جب انہوں نے اخلاق میں وہ پستی اختیار کی جس کے آثار بام مارگی تحریک میں آپ بھی دیکھ سکتے ہیں ، جب انہوں نے انسانیت کی تقسیم کر کے خود اپنی ہی سوسائٹی کو ورنوں اور ذاتوں میں پھاڑ ڈالا، اپنی اجتماعی زندگی کو ایک زینے کی شکل میں ترتیب دیا، جس کی ہر سیڑھی کا بیٹھنے والا اپنے سے اُوپر کی سیڑھی والے کا بندہ اور نیچے کی سیڑھی والے کا خدا بن گیا، جب انہوں نے خدا کے لاکھوں کروڑوں بندوں پر وہ ظلم ڈھایا جو آج تک اچھوت پن کی شکل میں موجود ہے، جب انہوں نے علم کے دروازے عام انسانوں پر بند کر دیے، اور ان کے پنڈت علم کے خزانوں پر سانپ بن کر بیٹھ گئے، اور جب ان کے کارفرما طبقوں کے پاس اپنے زبردستی جمائے ہوئے حقوق وصول کرنے اور دوسروں کی محنتوں پر دادعیش دینے کے سوا کوئی کام نہ رہا، تو خدا نے آخرکار ان سے ملک کا انتظام چھین لیا اور وسط ایشیاکی ان قوموں کو یہاں کام کرنے کا موقع دیا جو اس وقت اسلامی تحریک سے متاثر ہو کر زندگی کی بہتر صلاحیتوں سے آراستہ ہو گئی تھیں ۔

یہ لوگ سینکڑوں برس تک یہاں کے انتظام پر سرفراز رہے، اور ان کے ساتھ خود اس ملک کے بھی بہت سے لوگ اسلام قبول کر کے شامل ہو گئے۔ اس میں شک نہیں کہ ان لوگوں نے بہت کچھ بگاڑا بھی، مگر جتنا بگاڑ اس سے زیادہ بنایا۔ کئی سو برس تک ہندوستان میں بناؤ کا جو کام بھی ہوا، انہی کے ہاتھوں ہوا یا پھر ان کے اثر سے ہوا، انہوں نے علم کی روشنی پھیلائی۔ خیالات کی اصلاح کی۔ تمدن و معاشرت کو بہت کچھ درست کیا۔ ملک کے ذرائع و وسائل کو اپنے عہدکے معیار کے لحاظ سے بہتری میں استعمال کیا اور امن و انصاف کا وہ عمدہ نظام قائم کیا جو اگرچہ اسلام کے اصلی معیار سے بہت کم تھا مگر پہلے کی حالت اور گردوپیش کے دوسرے ملکوں کی حالت سے مقابلہ کرتے ہوئے کافی بلند تھا۔ اس کے بعد وہ بھی اپنے پیش روؤں کی طرح بگڑنے لگے۔ ان کے اندر بھی بناؤ کی صلاحیتیں گھٹنی شروع ہوئیں اور بگاڑ کے میلانات بڑھتے چلے گئے۔ انہوں نے بھی اونچ نیچ اور نسلی امتیازات اور طبقاتی تفریقیں کر کے خود اپنی سوسائٹی کو پھاڑ لیا، جس کے بے شمار اخلاقی، سیاسی اور تمدنی نقصانات ہوئے۔ انہوں نے بھی انصاف کم اور ظلم زیادہ کرنا شروع کر دیا۔ وہ بھی حکومت کی ذمہ داریوں کو بھول کر صرف اس کے فائدوں اور زیادہ تر ناجائز فائدوں پر نظر رکھنے لگے۔ انہوں نے بھی ترقی اور اصلاح کے کام چھوڑ کر خدا کی دی ہوئی قوتوں اور ذرائع کو ضائع کرنا شروع کیا۔ اور اگر استعمال کیا بھی تو زیادہ تر زندگی کو بگاڑنے والے کاموں میں کیا۔ تن آسانی وعیش پرستی میں وہ اتنے کھوئے گئے کہ جب آخری شکست کھا کر ان کے فرماں رواؤں کو دلّی کے لال قلعہ سے نکلنا پڑا تو ان کے شاہزادے؛وہی جو کل تک حکومت کے امیدوار تھے؛ جان بچانے کے لیے بھاگ بھی نہ سکتے تھے۔ کیونکہ زمین پر چلنا انہوں نے چھوڑ رکھا تھا۔ مسلمانوں کی عام اخلاقی پستی اس حد تک پہنچ گئی کہ ان کے عوام سے لے کر بڑے بڑے ذمہ دار لوگوں تک کسی میں بھی اپنی ذات کے سوا دوسری کسی چیز کی وفاداری باقی نہ رہی جو انہیں دین فروشی، قوم فروشی اورملک فروشی سے روکتی۔ ان میں ہزاروں لاکھوں پیشہ ور سپاہی پیدا ہونے لگے جن کی اخلاقی حالت پالتُو کُتّوں کی سی تھی کہ جو چاہے روٹی دے کر انہیں پال لے اور پھر جس کا دل چاہے ان سے شکار کرا لے۔ ان میں یہ احساس بھی باقی نہ رہا کہ یہ ذلیل ترین پیشہ، جس کی بدولت ان کے دشمن خود انہی کے ہاتھوں ان کا ملک فتح کر رہے تھے، اپنے اندر کوئی ذلت کا پہلو بھی رکھتا ہے۔ غالب جیسا شخص فخریہ کہتا ہے کہ:

سو پشت سے ہے پیشۂ آبا سپہ گری

یہ بات کہتے ہوئے اتنے بڑے شاعر کو ذرا خیال تک نہ گزرا کہ پیشہ ورانہ سپہ گری کوئی فخر کی بات نہیں ، ڈوب مرنے کی بات ہے۔

جب یہ ان کی حالت ہو گئی تو خدا نے ان کی معزولی کا بھی فیصلہ کر لیا۔ اور ہندوستان کے انتظام کا منصب پھر نئے امیدواروں کے لیے کھل گیا اس موقع پر چار امیدوار میدان میں تھے۔ مرہٹے، سکھ، انگریز اور بعض مسلمان رئیس۔ آپ خود انصاف کے ساتھ، قومی تعصب کی عینک اُتار کر اس دور کی تاریخ اور بعد کے حالات کو دیکھیں گے تو آپ کا دل گواہی دے گا کہ دوسرے امیدواروں میں سے کسی میں بھی بناؤ کی وہ صلاحیتیں نہ تھیں جو انگریزوں میں تھیں اور جتنا بگاڑ انگریزوں میں تھا اس سے کہیں زیادہ بگاڑ، مرہٹوں ، سکھوں اور مسلمان امیدواروں میں تھا۔ جو کچھ انگریزوں نے بنایا وہ ان میں سے کوئی نہ بناتا اور جو کچھ انہوں نے بگاڑا اس سے بہت زیادہ یہ امیدوار بگاڑ کر رکھ دیتے۔ مطلقاً دیکھیے تو انگریزوں میں بہت سے پہلوؤں سے بے شمار برائیاں آپ کو نظرآئیں گی۔ مگر مقابلتاً دیکھیے تو اپنے ہم عصر حریفوں سے ان کی برائیاں بہت کم اور اُن کی خوبیاں بہت نکلیں گی۔ یہی وجہ ہے کہ خدا کے قانون نے پھر ایک مرتبہ انسانوں کے اس من مانے اصول کو توڑ دیا۔ جو انہوں نے بغیر کسی حق کے بنا رکھا ہے کہ ’’ہر ملک خود ملکیوں کے لیے ہے خواہ وہ اسے بنائیں یا بگاڑیں ‘‘ ۔ اس نے تاریخ کے اٹل فیصلہ سے ثابت کیا کہ نہیں ۔ مالک تو خدا ہے، وہی یہ طے کرنے کا حق رکھتا ہے کہ اس کا انتظام کس کے سپرد کرے اور کس سے چھین لے۔ اس کا فیصلہ کسی نسلی، قومی یا آبائی حق کی بنا پر نہیں ہوتا بلکہ اس بنیاد پر ہوتا ہے کہ مجموعی بھلائی کون سے انتظام میں ہے۔

قُلِ اللّٰھُمَّ مٰلِکَ الْمُلْکِ تُؤْتِی الْمُلْکَ مَنْ تَشَآئُ وَتَنْزِعُ الْمُلْکَ مِمَّنْ تَشَآئُ وَ تُعِزُّ مَنْ تَشَآئُُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَآئُُ ط بِیَدِکَ الْخَیْرُط اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیْ ئٍ قَدِیْرٌ (آل عمران ۳: ۲۶)

کہو کہ خدایا۔ ملک کے مالک! تو جس کو چاہتا ہے ملک دیتا ہے اور جس سے چاہتا ہے ملک چھین لیتا ہے ۔جس کو چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ذلیل کر دیتا ہے۔ بھلائی تیرے ہی ہاتھ میں ہے اور تو ہرچیز پر قدرت رکھتا ہے۔

اسی طرح اللہ تعالیٰ ہزاروں میل کے فاصلہ سے ایک ایسی قوم کو لے آیا جو کبھی یہاں تین چار لاکھ کی تعداد سے زیادہ نہیں رہی اور اس نے یہیں کے ذرائع اور یہیں کے آدمیوں سے یہاں کی ہندو، مسلم، سکھ سب طاقتوں کو زیر کر کے اس ملک کا انتظام اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ یہاں کے کروڑوں باشندے ان مٹھی بھر انگریزوں کے تابع فرمان بن کر رہے۔ ایک ایک انگریز نے تن تنہا ایک ایک ضلع پر حکومت کی، بغیر اس کے کہ اس کی قوم کا کوئی دوسرا فرد اس کا ہاتھ مضبوط کرنے کے لیے اس کے پاس موجود ہوتا۔ اس تمام دوران میں ہندوستانیوں نے جو کچھ کیا پیش خدمت کی حیثیت سے کیا نہ کہ کارفرما کی حیثیت سے۔ ہم سب کو یہ ماننا پڑے گا، اور نہ مانیں گے تو حقیقت کو جھٹلائیں گے کہ اس ساری مدت میں ، جب کہ انگریز یہاں رہے، بناؤ کا جو کچھ بھی کام ہوا، انگریزوں کے ہاتھوں سے اور ان کے اثر سے ہوا۔ جس حالت میں انہوں نے ہندوستان کو پایا تھا اس کے مقابلہ میں آج کی حالت دیکھیے تو آپ اس بات سے انکار نہ کر سکیں گے کہ بگاڑ کے باوجود بناؤ کا بہت سا کام ہوا ہے جس کے خود اہلِ ملک کے ہاتھوں انجام پانے کی ہر گز توقع نہ کی جاسکتی تھی۔ اس لیے تقدیر الٰہی کا وہ فیصلہ غلط نہ تھا جو اس نے اٹھارہویں صدی کے وسط میں کر دیا تھا۔

اب دیکھیے کہ جو کچھ انگریز بنا سکتے تھے وہ بنا چکے ہیں (۱)۔ ان کے بناؤ کے حساب میں اب کوئی اضافہ نہیں ہو سکتا۔ اس حساب میں جو اضافہ وہ کر سکتے ہیں وہ دوسروں کے ہاتھوں بھی ہو سکتا ہے۔ مگر دوسری طرف ان کے بگاڑ کا حساب بہت بڑھ چکا ہے اور جتنی مدت بھی وہ یہاں رہیں گے بناؤ کی بہ نسبت بگاڑ ہی زیادہ بڑھائیں گے؛ ان کی فرد جرم اتنی لمبی ہے کہ اسے ایک صحبت میں بیان کرنا مشکل ہے اور اس کے بیان کی کوئی حاجت بھی نہیں ہے، کیونکہ وہ سب کے سامنے ہے؛ اب تقدیر الٰہی کا فیصلہ یہی ہے کہ وہ یہاں کے انتظام سے بے دخل کر دیے جائیں ۔ انہوں نے بہت عقل مندی سے کام لیا کہ خود سیدھی طرح رخصت ہونے کے لیے تیار ہو گئے۔ سیدھی طرح نہ جاتے تو ٹیڑھی طرح نکالے جاتے، کیوں کہ خدا کے اٹل قوانین اب ان کے ہاتھ میں یہاں کا انتظام رکھنے کے روادار نہیں ہیں 

****

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                          ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول