صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں


عشق کا قاف 

سرفراز احمد راہی

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                          ٹیکسٹ فائل

عشق کا قاف 

موسم، طوفانِ باد و باراں کے اشاروں پر رقص کر رہا تھا۔

سپیڈ کم ہوئی اور کار رک گئی۔ اس نے ہا رن دبایا۔ تیسری آواز پر گیٹ کھل گیا۔

 بادل ایک بار پھر بڑے زور سے گرجی۔  بارش میں اور شدت آ گئی۔ کار آگے کو سرکی مگر اس سے پہلے کہ کار گیٹ سے اندر داخل ہو تی، بجلی زور سے چمکی۔ فانوس سے روشن ہو گئی۔

 وہ چونک اٹھا۔

 اس کی تیز نظریں گیٹ کے باہر بائیں ہاتھ بنے چھوٹے سے سائبان تلے چھائے اندھیرے میں جم گئیں۔

 "کیا بات اے صاب! " پٹھان چوکیدار نے بارش میں بھیگتے ہوئے پوچھا۔

 "خان۔۔۔ "لیکن اس سے پہلے کہ وہ فقرہ پورا کرتا، برق پھر کوندی۔ وہ تیزی سے کار کا دروازہ کھول کر باہر کو لپکا۔ اس دوران خان بھی گیٹ سے باہر نکل آیا۔

 بارش اور تیز ہوا کی پرواہ کئے بغیر دو تین لمبے لمبے ڈگ بھر کر وہ اس اندھیرے کونے میں پہنچ گیا، جہاں دو بار برق نے اجالا کیا تھا۔

 ایک سایہ تھا جو بیدِ مجنوں کی طرح لرز رہا تھا۔

 "کون ہو تم؟" اس نے جلدی سے پوچھا اور ایک بار پھر اس کی نظریں چندھیا گئیں۔

 "میں۔۔۔ " ایک کمزور سی نسوانی آواز ابھری۔  پھر اس سے پہلے کہ وہ اجنبی وجود زمین پر آ رہتا، اس کے مضبوط اور گرم بازوؤں نے اسے سنبھال لیا۔

 "خان۔ " اس نے پلٹ کر پکارا۔

 "جی صاب۔  "قریب ہی سے آواز ابھری۔

 "میں کمرے میں جا رہا ہوں۔ گاڑی گیراج میں بند کر کے وہیں چلے آؤ۔  جلدی۔ "

 "جی صاب۔  "وہ تعمیل حکم کے لئے جلدی سے گاڑی کی طرف بڑھ گیا۔

 اس نے اس نازک، برف سے زیادہ سرد اور لہروں سے زیادہ نرم وجود کو باہوں میں بھر لیا، جو اَب لکڑی کی مانند کھردرا اور پتھر کی مانند سخت ہوا جا رہا تھا۔ تیز تیز چلتا ہوا وہ پورچ پار کر کے برآمدے میں پہنچا۔  پاؤں کی ٹھوکر سے دروازہ کھولا اور مختصر سی راہداری کو طے کر کے ہال میں چلا آیا۔ ایک لمحے کو کچھ سوچا، پھر سیڑھیاں چڑھتا چلا گیا۔

 ایک کمرہ چھوڑ کر دوسرے کمرے کے دروازے پر پہنچ کر اس نے پھر دائیں پاؤں سے کام لیا۔ اندر داخل ہوا اور بستر کی طرف بڑھ گیا۔

 دھیرے سے اس نے اپنے بازوؤں میں بھرے اس ریشمیں خزانے کو احتیاط سے سمیٹ کر بیڈ پر رکھ دیا، پھر اسے گرم لحاف میں چھپا دیا۔  شاید اس لئے کہ کوئی اور دیکھ نہ لی۔ ایک لمحے کو اس کی نظریں اس سمٹے پڑے خزانے کے تر بتر چہرے پر جم گئیں ، جہاں سیاہ لانبی زلفیں کسی بادلوں میں چھپے چاند یا گھٹاؤں میں قید برق کا سماں پیش کر رہی تھیں۔ اسی وقت خان اندر داخل ہوا۔

 "اوہ خان۔ " اس نے جلدی سے کہا۔ کچھ سوچا پھر تیزی سے ٹیلی فون کی طرف بڑھ گیا۔  

 ڈاکٹر کو فون کر کے وہ حکم کے منتظر اور چور نظروں سے اس خوابیدہ حسن کو تکتے خان کی طرف متوجہ ہوا اور ہولے سے مسکرایا۔

 "خان۔ "

 "جی صاب۔ " وہ گھبرا سا گیا۔

 "تمام نوکر تو سوچکے ہوں گے۔ "

 "جی صاب۔ " اس نے اپنا مخصوص جواب دہرایا۔

 "ہوں۔ "وہ کچھ سوچنے لگا۔ پھر کہا۔ "تم نیچے چلے جاؤ۔  اپنے ڈاکٹر صاحب آرہے ہیں۔ ان کو لے کر اوپر چلے آنا۔ "

 "جی صاب!" اور خان ایک نظر بستر پر ڈال کر دروازے کی طرف بڑھ گیا۔

 اس نے آگے بڑھ کر سوئچ بورڈ پر ایک بٹن دبا دیا۔ ایر کنڈیشنڈ سسٹم گہری نیند سے جاگ گیا۔ پھر اس کی نادیدہ تپش نے دھیرے دھیرے کمرے کو گرم کرنا شروع کیا۔ اس نے مطمئن انداز میں سر ہلا کر بند کھڑکیوں کی جانب دیکھا اور کرسی گھسیٹ کر بستر کے قریب لے آیا۔  بیٹھتے ہوئے وہ قدرے جھک گیا اور نظریں اس خاموش گلاب پر جما دیں جس کی دو پنکھڑیاں اپنی سرخی کھونے لگی تھیں۔  نیلاہٹ ابھری چلی آ رہی تھی۔

٭٭٭٭٭٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                          ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول