صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں


مطالعۂ اقبال کے سو سال

مرتبین۔رفیع الدین ہاشمی، محمد سہیل عمر، وحید اختر عشرت

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

اقبال کی لفظی تصویر...پروفیسر حمید احمد خاں

    ہر بڑے آدمی کا نام ایک طلسم ہے جسے زبان پر لاتے ہی نظر کے سامنے ایک نیا جہان اُبھر آتا ہے۔

    محمد اقبال !یہ نام پچھلی صدی تک کسی خاص مفہوم سے آشنا نہ تھا۔ ہزاروں دوسرے ناموں کی طرح یہ بھی ایک نام تھا، غیر متحرک اور منجمد ، جیسے زید اور بکر اور عمرو!آخر کار صدیوں کی بے سر و سامانی کے بعد خود ہمارے عہد میں اِس نام نے حیاتِ جاوید کا خلعت پہنا۔ اِس کو زندہ کرنے کے لیے ایک مسیح آیا اور یہ نام علامت قرار پایا فلسفہ زندگی کی ایک ہمہ گیر حرکت اور وسعت اور اضطراب کی۔ آنے والی نسلیں اِس نام کے پیچھے صرف اِسی حرکت اور وسعت اور اضطراب کی جھپٹ دیکھیں گی۔

    لیکن موجودہ نسل یہ نام سُنتی ہے تو زندگی کے اِس طوفان انگیز تخیل کے پیچھے اُسے ایک پر سکون اور عزلت پسند انسانی پیکر کی تصویر نظر آتی ہے۔ محمد اقبال !  پیغمبرِ اُمید، پیغمبرِ حیات!  بے شک !  مگر اِس سے پہلے ہماری طرح ہنسنے بولنے والا، کھانے پینے والا ایک انسان !  جب تک موجودہ نسل زندہ ہے یہ متحرک شبیہ اس کے تصور میں زندہ رہے گی۔ لیکن اس نسل کے گزر جانے کے ساتھ عالمِ خیال کی یہ تصویر بھی گزر جائے گی۔

    اقبال کے سراپا کی لفظی تصویر کھینچنا آسان نہیں۔ اگر انھیں کشیدہ قامت کہا جائے تو یہ کچھ مبالغہ سا معلوم ہوتا ہے، مگر اِس کے ساتھ ہی انھیں محض میانہ قد کہنا صریحاً کوتاہی ہو گی۔ یہی حال اُن کے ڈیل ڈول کا تھا۔ اُن کا جسم بھرا بھرا تھا مگر فربہی کے شبہے سے پاک۔ چنانچہ جب گرمی کے موسم میں باتیں کرتے کرتے پنڈلی پر سے کپڑا ہٹا دیتے تھے تو اہلِ مجلس کو تعجب سا ہوتا تھا کہ اُن کی پنڈلیوں پر کچھ زائد گوشت کیوں نظر نہیں آتا۔یہ اس لیے کہ اُن کے بھرے ہوئے پُر رُعب چہرے کا لحاظ کر کے دیکھنے والا قدرتی طور پر زیادہ پُر گوشت اور بھری ہوئی پنڈلیوں کی توقع رکھتا تھا۔ اُن کا رنگ گورا تھا جس میں سرخی کی جھلک آخری دنوں تک قائم رہی۔ مرض کی حالت سے قطع نظر، اُن کے چہرے کی سرخی، روشنی اور دھوپ میں خاص طور پر نمایاں ہو جاتی تھی۔ یہ گویا اُن کے اُس کشمیری خون کا اثر تھا جو اُن کے شفاف خد و خال سے چھپائے نہیں چھپتا تھا۔

    اقبال اپنے سر کے بال سنوارنے میں صرف یہ کرتے تھے کہ انھیں کنگھی سے سلجھا کر پیچھے ہٹا دیتے تھے (کم از کم میں نے اُن کے بالوں میں کبھی مانگ نہیں دیکھی)۔ باتیں کرتے ہوئے کبھی کبھی اپنا ہاتھ اسی انداز سے پیچھے کی طرف بالوں پر پھیر لیتے تھے۔ پیشانی اگرچہ کشادہ تھی مگر جہاں سر کے بال شروع ہوتے تھے وہاں کچھ تنگ تنگ بلکہ ایک گوشہ سا بناتی ہوئی معلوم ہوتی تھی۔ ابرو بہت گھنے تھے اور شاید اس لیے کچھ زیادہ گھنے معلوم ہوتے تھے کہ اُن کے نیچے آنکھیں گہری بلکہ ذرا اندر کو دبی ہوئی معلوم ہوتی تھیں۔ اُن کی آنکھیں بڑی نہ تھیں مگر گہری اور ذہین آنکھیں ضرور تھیں جن کے اوپر گھنے ابروؤں کے چھجے جھکے ہوئے تھے۔ گفتگو کرتے وقت اُن کی صرف دائیں آنکھ پوری کھلی رہتی تھی۔ دوسری آنکھ نا دانستہ طور پر ذرا بند کرتے تھے۔ دراصل اُن کی یہ آنکھ بینائی سے محروم تھی۔

    اقبال ڈاڑھی عمر بھر منڈاتے رہے لیکن مونچھیں رکھتے تھے۔ مونچھیں رکھنے کے بھی کئی فیشن ہیں۔ ہماری سوسائٹی میں بعض حضرات صرف اپنی ’’زور دار‘‘ مونچھوں کے دم خم سے پہچانے جاتے ہیں۔ اقبال کا تعلق اِس گروہ سے نہیں تھا۔ اُن کی مونچھیں ذرا چھدری تھیں اور خاموش، مگر اس خاموشی کے باوجود جان دار معلوم ہوتی تھیں۔ یوں سمجھ لیجیے کہ اقبال کی مونچھوں میں اگر قیصر ولیم کی مونچھوں کی اکڑ نہیں تھی تو مسٹر چیمبر لین کی مونچھوں کا عجز و انکسار بھی نہ تھا۔

    یہ ایک دلچسپ سوال ہے کہ جو لوگ اقبال کے پاس بیٹھتے تھے، اُن پر اقبال کی شخصیت کا مجموعی طور پر کیا اثر ہوتا تھا۔ ہم اپنی جان پہچان کے لوگوں میں سے ہر شخص کے ساتھ بالعموم ایک نہ ایک خصوصیت منسوب کر دیتے ہیں جو ہمارے نزدیک اس کی شخصیت کی امتیازی نشانی بن جاتی ہے۔ اگر ایک شخص بالطبع خاموش ہے تو دوسرا بہت باتونی ہے، ایک کا کام دن رات ہنسی دل لگی ہے، دوسرا ذرا سی بات پر مشتمل ہو کر آپے سے باہر ہو جاتا ہے۔ غرض کوئی نہ کوئی نمایاں صفت ایسی ہوتی ہے جسے ہم اُس کی شخصیت کا جوہر قرار دیتے ہیں۔ اقبال کو میں نے بار ہا ہنستے دیکھا ہے اور کبھی کبھی غصے کی حالت میں بھی۔ لیکن اُن کی شخصیت کا محور نہ ہنسی تھی اور نہ غصہ۔ اصل میں انسان پر مختلف اوقات میں بہت سی ذہنی اور جسمانی کیفیتیں طاری ہوتی ہیں مگر میں سمجھتا ہوں کہ اقبال کی زندگی میں غور و فکر کو جو مرکزی حیثیت حاصل تھی۔ وہ کسی اور شخصیت کو کبھی حاصل نہ ہوئی۔ خاموشی اور گفتگو، سکون اور اشتعال، ہر رنگ میں اُن کی اصل حیثیت ایک مفکر کی تھی۔ یہ نا ممکن تھا کہ کوئی شخص تھوڑی دیر اُن کے پاس بیٹھے اور یہ محسوس نہ کرے کہ اقبال کی پوری ہستی کی بنیاد غور و فکر پر قائم ہے۔ گفتگو میں ذرا وقفہ آیا اور اقبال کا ذہن ایک جست میں کائنات کی حدود کو عبور کر کے وہاں جا پہنچا جہاں ہمارا تمام شور و شغب قدرت کے سرمدی سکوت میں گم ہو جاتا ہے۔ اُس وقت دیکھنے والے کو صرف ایک نظر بتا دیتی کہ یہ اپنے آپ میں سمٹا ہوا انسان سیاسی پلیٹ فارم کی تقریرِ شرر بار اور منبر کے وعظِ ستم اندوز کے لیے پیدا نہیں ہوا۔ اُس وقت اُس کا پیکرِ خاک اِسی عالمِ رنگ و بو میں موجود ہوتا لیکن اُس کی روح ستاروں کے نور سے الجھتی ہوئی، پاتال کے اندھیرے سے ٹکراتی ہوئی، کسی نئی دنیا میں جا نکلتی۔

    مگر اقبال کی اِس حیاتِ فکری کا ایک پہلو اور بھی تھا ؛اپنے ذہن کی اِسی کیفیت کی وجہ سے اقبال عام انسانی تعلقات سے بے نیاز تھے۔اپنے ملنے والوں سے اُن کا تعلق معاشرتی تعلق نہیں تھا، فلسفیانہ تھا۔میں برسوں اُن کی خدمت میں حاضر ہوتا رہا لیکن مجھے پورے عجز کے ساتھ اعتراف ہے کہ انھیں مجھ سے کوئی ذاتی تعلق نہیں تھا،میں تو خیر ایک عقیدت مند کی حیثیت سے اُن کے پاس جاتا تھا،  مگر اُن کے مقربین بھی اُن کے دلی تعلق سے غالباً محروم تھے۔ جب اقبال خلوص اور گرم جوشی سے بات کرتے تھے تو اِس لیے نہیں کہ اُن کا مخاطب اُن کے اِس اخلاص کا مستحق ہوتا، بلکہ اِس لیے کہ وہ تمام جوش اور خلوص انھیں اپنے اُس خیال کے متعلق محسوس ہوتا تھا جس کے اظہار سے انھیں اُس وقت غرض ہوتی۔ جن لوگوں سے اقبال بے تکلف تھے وہ لوگ بھی، روحانی طور پر، اُن کے لیے اشخاص نہیں تھے بلکہ محض چند ’’کھونٹیاں ‘‘ جن پر مختلف قسم کے خیالات بالکل مناسب طور پر لٹکائے جا سکتے تھے۔ اقبال اِس معاملے میں ہمیشہ تنہا اور آزاد رہے۔

    روح کی اِس تنہائی کے باوجود اقبال کو ایک مختصر حلقے کی گفتگو اور وہاں اپنے خیالات کے اظہار میں خاص لطف آتا تھا۔ وہ خود بھی خاموش رہ کر دوسروں کی بات سن سکتے تھے، اور انھیں باتونی کہنا تو کسی طرح بھی درست نہیں ہو گا لیکن مختلف سوالات کے جواب میں اپنی تشریحات پیش کرتے ہوئے جو لذت انھیں ملتی تھی وہ ہر شخص پر ظاہر تھی۔ دراصل اُن کی فطرت مشرقی وضع کے پرانے اُستاد کی فطرت تھی جس کا محبوب تریں مشغلہ اپنے شاگردوں کے درمیان بیٹھ کر بات بات میں نکتے پیدا کرنا تھا۔

    آج وہ شمع خاموش ہے اور وہ محفل بھی باقی نہیں رہی، لیکن ہمارا تخیل اِس مٹتی ہوئی تصویر کو ایک بار پھر زندہ کر سکتا ہے۔ آئیے پھر ایک مرتبہ ڈاکٹر اقبال سے ملنے چلیں۔ میکلوڈ روڈ سے مڑتے ہی ڈاکٹر صاحب اپنی کوٹھی کے برآمدے میں آرام کرسی پر بے تکلفی سے بیٹھے نظر آتے ہیں۔ اگر سردی کا موسم ہے تو ڈاکٹر صاحب قمیص اور شلوار میں ملبوس ایک بادامی دھُسا اوڑھے ہوئے ہیں۔ اگر گرمی ہے تو قمیص کے ساتھ ایک تہبند ہے اور قمیص کے بجائے بھی کئی مرتبہ صرف بنیان ہی ہے۔ آرام کرسی پر ٹانگیں سمیٹ کر بیٹھے ہیں اور کبھی کبھی اپنے پاؤں کے بے حد سفید تلوے کو ہاتھ سے سہلا لیتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کی آرام کرسی کے برابر حقہ پڑا ہے۔ چلم بجھ جاتی ہے تو ایک ایسے انداز میں ، جو کبھی نہیں بدلا، آواز دیتے ہیں :’’علی بخش ! ‘‘ اتنے میں ہم برآمدے کی سیڑھیوں پر چڑھتے ہیں اور انھیں سلام کرتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب تھوڑی دیر کے لیے اِدھر توجہ کرتے ہیں اور کہتے ہیں :’’آؤ جی ...صاحب ‘‘۔ جس شخص کو اچھی طرح پہچانتے ہیں اُس کا خیر مقدم اِسی مختصر جملے سے کرتے ہیں ، جس کو نہیں پہچانتے اُس کے متعلق کبھی نہیں پوچھتے کہ یہ کون ہے۔ ناواقفوں کے لیے یہی کافی ہے کہ سلام کریں اور بیٹھ جائیں۔ اِس کے بعد تکلف برطرف، وہ ڈاکٹر صاحب کی گفتگو میں پوری آزادی سے شامل ہو جاتے ہیں۔

    اب باتیں شروع ہوتی ہیں اور علم و حکمت کا چشمہ اُبلنے لگتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کے دماغ سے ہر رنگ کی موج اُٹھتی ہے اور اجنبی چہروں کا سامنا بھی ان کی گفتگو کی بے باک روانی کو تکلّف کی کسی زنجیر کا پابند نہیں کر سکتا۔ اُن کی تشریحات اُستادانہ ہیں۔ وہ سوالات کا جواب دینے سے تھکتے نہیں بلکہ ایک ایک نکتہ کھول کھول کر بیان کرتے ہیں۔ کچھ سمجھاتے ہیں تو ہاتھ کی صرف ایک انگلی ہی نہیں اُٹھاتے بلکہ داہنے ہاتھ کا پورا پنجہ حرکت میں آتا ہے۔ گفتگو ہمیشہ پنجابی میں ہوتی ہے۔ کبھی کسی علمی نکتے کے بیان میں انگریزی کے دو ایک جملے بھی بے تکلف استعمال کر جاتے ہیں۔ اُردو میں صرف اُس وقت بات کرتے ہیں جب بیرونِ پنجاب سے کوئی صاحب شریکِ مجلس ہوں۔ مذہب اور سیاست دو ایسے مضمون ہیں جن سے بحث کرتے ہوئے کبھی کبھی اُن کا لہجہ پر جوش ہو جاتا ہے۔ جوں ہی کوئی ایسا موقع آتا ہے، ڈاکٹر صاحب کرسی پر ذرا سیدھے ہو بیٹھتے ہیں۔ یہ میکلوڈ روڈ کے دنوں کی کیفیت ہے۔ میو روڈ کی کوٹھی کے زمانے میں امراض نے آ گھیرا ہے۔ بستر پر لیٹے رہتے ہیں اور ملاقاتیوں کو خواب گاہ ہی میں بلا لیتے ہیں۔ اِسی حالت میں گھنٹوں تک پر لطف باتیں ہوتی ہیں۔ لیکن جوں ہی گفتگو میں ذرا گرمی پیدا ہوئی، ڈاکٹر صاحب ایک دم اٹھ کر بستر پر بیٹھ گئے اور پھر اُس وقت تک نہیں لیٹے جب تک وہ بات ختم نہیں ہو گئی۔

    اب ہمیں اُن کے پاس گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ ہو گیا ہے۔ ہمارے سوالات ختم ہو چکے ہیں اور ڈاکٹر صاحب کا ذہن بھی ایک اور پرواز کے لیے ذرا دم لیتا ہے۔ دونوں طرف خاموشی طاری ہو جاتی ہے۔ اس وقت ڈاکٹر صاحب ایک اور ہی عالم میں ہیں ؛ وہ کمرے میں موجود ہیں مگر پھر بھی موجود نہیں ہیں۔ اُن کی ظاہر کی آنکھیں کچھ بند کچھ کھلی ہیں لیکن باطن کی آنکھ کسی اور سمت میں سراپا نگاہ ہو رہی ہے۔ اِسی کیفیت میں کچھ وقت گزر جاتا ہے۔ اُن کے خیالات کی موجیں انھیں بہاتی ہوئی کہاں سے کہاں لے جاتی ہیں۔ آخر کار حواسِ ظاہری کا دیدبان دفعۃً واپسی کا اشارہ کرتا ہے اور اُن کا سفینۂ خیال گہرے سمندروں کے سفر کے بعد پھر زندگی کے پرانے ساحلوں کی طرف رخ پھیرتا ہے۔ اُس وقت وہ اپنا سر ذرا اوپر کو اٹھاتے ہیں اور اُن کے منہ سے کبھی ’’یا اللہ ! ‘‘اور کبھی فقط ’’ہوں !‘‘کی ہلکی سی آواز نکلتی ہے۔ یہ آواز اس بات کی علامت ہے کہ جہاز ساحل پر آ پہنچا اور اُس کے لنگر کا قلابہ پھر ایک بار عالمِ اسباب کی مضبوط زمین میں پیوست ہو گیا۔ اِس قسم کے وقفوں کے بعد بالعموم اُن کی یہی لمبی اور پر سکون ’’ہوں !‘‘ ان کے ذہن کی دور و دراز اُڑان سے اُن کی بازگشت کی نقیب ہوتی ہے پھر اُسی پہلے انہماک سے باتیں شروع ہو جاتی ہیں تا آنکہ سہ پہر کے سائے ڈھل کر شام میں غائب ہونے لگتے ہیں اور سورج غروب ہو جاتا ہے۔ آخر ہم اپنی کرسیوں پر ایک بے معنی سی جنبش کرتے ہیں اور پھر اُٹھ کر اجازت چاہتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں ’’اچھا چلتے ہیں آپ !‘‘ اور پھر ہمارے سلام کا جواب ہاتھ اُٹھا کر دیتے ہیں۔ یہ اُن کا ہمیشہ کا معمول تھا۔

    ڈاکٹر صاحب نے جب رحلت کی تو اہلِ لاہور کو ایک ایسا ’’شخصی ‘‘ نقصان پہنچا جس کی تلافی خود ڈاکٹر صاحب کا کلام بھی نہیں کر سکتا تھا۔ اُن کے انتقال کے موقع پر میں اتفاق سے لاہور میں موجود نہیں تھا۔ میرے ایک دوست نے، جن کے ساتھ مل کر میں بار ہا ڈاکٹر صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا، مجھے ایک خط لکھا جس میں لاہور کی زبان بن کر انھوں نے وہ جذبات قلم بند کر دیے جو بہت سے دلوں کو بے تاب کر رہے تھے مگر لب تک نہیں آ سکے تھے۔ انھوں نے لکھا:

ڈاکٹر اقبال چل بسے۔ افسوس کہ ہمیں آخری دنوں میں اُن کا نیاز حاصل نہ ہو سکا۔ یہ حسرت ہمیشہ میرے دل میں رہے گی۔ لوگ کہتے ہیں کہ اقبال مرا نہیں کیونکہ اُس کا کلام اُسے زندۂ جاوید بنانے کے لیے کافی ہے۔ لیکن میں اِس خیال سے متفق نہیں ہوں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اقبال کے کلام میں اُس کی مکمل شخصیت دکھائی نہیں دیتی۔ اُس کی نظم تو انسانی زندگی کی اعلیٰ ترین اقدار سے موزوں (یعنی پر معنی اور متین) زبان میں بحث کرتی ہے لیکن خود اقبال کی شخصیت کا ایک اور نہایت دل چسپ پہلو بھی تھا؛ یعنی اس کی خوش کلامی جو بعض دفعہ بذلہ سنجی سے جا ملتی تھی۔ اُس کی نظم میں تو اُس کا تخیل عرش بریں کو اپنی بلند پروازی کی پہلی سیڑھی سمجھتا ہے لیکن کیا ہم نے اس کو اپنی زندگی میں بے علموں اور وہم پرستوں سے انھی کی سطح پر نہایت انہماک سے بحثیں کرتے ہوئے نہیں دیکھا ؟ اُس کے کلام سے مجھے اندازہ ہوتا ہے کہ اس ’’دانائے راز‘‘ سے ہم سخن ہونا مجھ جیسے ہیچ مداں کے بس کی بات نہ تھی۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ میں نے گھنٹوں اُس کی صحبت میں بصیرت افروز باتیں سنتے ہوئے گذار دیے مگر  اُس اللہ کے بندے نے کبھی ایک دفعہ بھی اشارے یا کنائے سے یہ جتانے کی کوشش نہ کی کہ بھئی تمھاری تنگ نظری وبال جان ہو رہی ہے، اب ختم بھی کرو۔ الغرض وہ اقبال جو لوگوں سے گویا پکار پکار کر کہتا تھا کہ آؤ میرے علم و فضل کے خزانے کھلے پڑے ہیں ، جھولیاں بھر بھر کے لے جاؤ، مرگیا ہے۔ اقبال کا کلام برحق، لیکن ہم اپنے بظاہر لاینحل مسئلوں کو اب کس کے پاس لے جائیں گے کہ وہ ایک جنبش لب سے مشکل سے مشکل گتھی کو سلجھا دے۔ یہ اقبال مر گیا ہے۔ افسوس!


اقبال کی شخصیت اور شاعری۔ مجلس ترقی ادب، لاہور۱۹۷۳ء

٭٭٭٭٭٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول